(Last Updated On: )
اول تو میرے ذاتی نقطہء نظر کی کسی کو ضرورت نہیں ہے کیوں کہ ہر انسان اپنی آزادانہ سوچ کو اہم سمجھتا ہے اور ایسا ہی ہونا چاہیئے،پھر سوچا کہ فیس بک پر جہاں اور غیر مفید افکار و نظریات کا انبار لگا ہے تو میں اس کار خیر میں کیوں پیچھے رہوں، اس میں اضافہ کیوں نہ کیا جائے کیوں کہ ایک خاص طبقہ ایسی غیر مفید پوسٹوں کو بھی توجہ سے پڑھتا اور لائیک کرتا ہے۔ بات یہ ہے جناب لنڈے کے کپڑے ہوں یا لنڈے کی دیگر اشیائے ضرورت، یہ سب ہماری روزمرہ زندگی کا لازمی حصہ بن چکے ہیں لہذا ہمیں از حد ایمان داری اور سماجی ہمدردی کے تحت اس پر لکھنا بولنا چاہیئے تاکہ اس سماجی پہلو کے ممکنہ متنوع زاویوں کو دیکھا پرکھا جا سکے۔پاکستان کا شمار ان خوش نصیب ممالک میں ہوتا ہے جہاں لنڈے کی تقریبا ہر شئے دستیاب ہے،کچھ عرصے سے بحری جہاز(جسے عرف عام میں ship کا سامان کہا جاتا ہے) کے ذریعے گھروں کی استعمال شدہ اشیا بھی دستیاب ہونا شروع ہو چکی ہیں جن کہ وجہ سے پاکستانی گھر کچن آئٹم سے لے کر بیڈ روم و ڈرائنگ روم تک منفرد اشیا سے لدے نظر آتے ہیں۔ایک زمانہ تھا جب لنڈے کی اشیا کا استعمال صرف مفلوک الحال یا پھر مڈل کلاس کے لوگ کرتے تھے لیکن رفتہ رفتہ اس کا فیشن Gentry میں بھی پھیل گیا۔اس جینٹری کو یہ اضافی سہولت حاصل تھی کہ یہ بآسانی لنڈے کی خرید کردہ اشیا کو ڈائریکٹ امپورٹ ثابت کرسکتے تھے۔یہ خوش حال طبقہ جب لنڈے کی خرید و فروخت میں شامل ہوا تو یہی سستے بازار رفتہ رفتہ ڈیفنس اور سینٹارس کے ریٹ لگانے شروع ہو گئے جس کا براہ راست اثر ان مسحق اور نادار لوگوں پر پڑا جو اپنی بنیادی ضرورت پوری کرنے کے لیے لنڈے کا رخ کرتے تھے۔
ایک زمانہ تھا جب لوگ لنڈے کی چیزیں پہننا خاصا معیوب سمجھتے تھے اور اپنے منہ سے کبھی اس بات کا اعتراف نہ کرتے کہ ان کے پہناوے میں لنڈے کے اجزائے ترکیبی شامل ہیں۔اس میں ہر عمر کے لوگ شامل ہیں۔صنف و جنس کے اعتبار سے خواتین اس میں زیادہ فعال تھیں،آج بھی خواتین اور لنڈے کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ نوجوان لڑکوں کے علاوہ بڑی عمر کے مرد بھی آپ کو لنڈے بازار میں چہل قدمی کرتے دکھائے دیں گے۔یاد رکھیں یہ کوئی اچھنبے کی بات ہرگز نہیں ہے۔ہمارے عہد میں ہر کسی کی یہ کوشش رہی کہ وہ لنڈے کی چیزیں تو پہنے لیکن کسی کو یہ احساس نہ ہو کہ لنڈے کا مال زیب تن کیا ہوا ہے۔جدید بلکہ مابعد جدید عہد میں ہمارے نوجوانوں نے بھی لنڈے کو خاصا سنجیدہ لینا شروع کیا جس کی وجہ سے ان کی زیبائی اور ملبوسات کو چار چھوڑ پورے آٹھ چاند لگ گئے ہیں۔دورِ حاضر کی یہ تبدیلی بھی خوش گوار ہے کہ اب لنڈے کے ساتھ وابستہ شرم و حیا کے احساسات میں خاصا ٹھہراؤ آ چکاہے اور لوگ اب بڑے دھڑلے اور اعتماد کے ساتھ اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ہم نے لنڈے کا کوٹ، جیکٹ،جرسی،سویٹر،لانک کوٹ اور شال لے رکھی ہے۔لنڈے نے ہر کسی کو مطمئین کیا ہے کیوں کہ اعلی ورائٹی کے ساتھ پائیدار کپڑے مل جاتے ہیں۔لنڈے کے جوتے اور پرس بھی خاصے مقبول ہیں جس کی وجہ سے جہاں ذوق جمال کو تسکین ملتی ہے وہاں سوسائٹی میں ذرا کھڑاک اور رعب دار بھی قائم ہو جاتا ہے۔گاوں دیہات کے رہنے والوں کے لیے لنڈے کی چیزیں کسی نعمت سے کم نہیں ہیں۔وہ اپنی کم آمدنی کے باوجود لنڈے سے تسلی بخش کپڑے خرید کر اپنا سیزن آرام سے گزار لیتے ہیں۔لنڈے نے ہمارے existening living style میں کئی نئے اضافے کیئے جس نے ہمارے ذوق جمال کی نئے سر سے تربیت شروع کر دی ہے۔خواتین کو اس حوالے سے بڑا فائدہ رہا کہ اب ان کے پہناوے میں کیپ شال کا خوش گوار اضافہ ہو چکا ہے،کیپ شال جہاں آدھے عبائے کا کام کرتی ہے وہاں سردیوں میں اس کا فنکشن گرم سوئیٹر والا بھی ہے،یہ معاملہ سٹول کا بھی ہے،رنگا رنگ ورائٹی میں دستیاب سٹول آپ ہر سوٹ کے ساتھ میچنگ کرکے پہن سکتے ہیں،اس سے جہاں خواتین کی شخصیت میں نئے رنگ و آہنگ پیدا ہوئے وہاں پردے کے کچھ بنیادی معاملات کو تقویت بہم پہنچی ہے۔بات مت بھولیں کہ ہم چاہے جو کچھ بھی بن جائیں تاہم ہمارا تعلق ایک زیرِ تعمیر معاشرے اور معاشرت کے ساتھ ہے جہاں لنڈے کا بازار ہماری تمناؤں کو پورا کرنے کے لیے اہم تسکینی فریضہ انجام دے رہا ہے۔لنڈے نے صرف لوگوں کو خوب صورت ہی نہیں بنایا بلکہ ان کو معاشرے میں اعتماد کے ساتھ چلنے پھرنے میں سہولت بھی فراہم کی ہے۔۔۔۔(جاری ہے)
۔۔۔۔۔۔۔