لانس حوالدار غلام جعفر شہید
عمر 39 سال
تاریخ ِ شہادت 16 اگست 2007 بروز جمعتہ المبارک
ـــ
غالباً کوہاٹ کا ذکر ہے، غالباً کیا یقیناً۔ ہم ٹل سے کسی سٹڈی پیریڈ کے لیے آرٹلری ہیڈکوارٹر آئے ہوئے تھے، جب پتہ لگا کہ سگنلز سینٹر مین کوئی تقریب ہے اور رات کے بڑے کھانےکے بعد ڈرامے کے لیے
آرمی ٹروپے کی ٹیم آئی ہوئی ہے۔ دعوت نامہ ملنے پر ہم ایک سو چوہترمیڈیم (جی ہاں وہی کوہان والے تین تیروں والی میڈیم رجمنٹ) کے افسر تقریب میں شرکت کے لیے پہنچ گئے۔ جسے آج کل لوگ سٹینڈ اپ کامیڈی اور گئے وقتوں میں ون مین شو کہتے تھے، وہی والا آئٹم کرنے ایک صوبیدار صاحب سٹیج پر آئےتھے
فوج کا سٹینڈرڈ چٹکلہ اپنے تیکھے کھٹ مٹھے انداز میں پیش کرتے کہ
بیٹا آپ کے ابو کیا ہیں
جی وہ فوج میں میجر ہیں
وہ کیا کرتے ہیں۔ جو مما کہتی ہیں وہی کرتے ہیں
اور پھر پسرِ صوبیدار سے یہی سوال کہ آپ کے ابو کیا کرتےہیں اور وہ جگت جواب کہ پتہ نہیں۔ کچھ نہ کچھ تو کرتے ہوں گے۔
اور جب بات جوانوں تک پہنچی تو بچہ ایک بھولپن میں کہتا ہے ابو تو گھر سے دور اپنی یونٹ میں ہوتےہیں۔ اور امی گھر میں ان کے چھٹی آنے کا انتظار کرتی ہیں۔ اور پھر یہاں سٹیج پر ٹروپے والے صوبیدار صاحب کے موسیقانہ لہجے میں ایک مانوس لوک دھن کے کومل سُر گونجے
ادھی ادھی راتیں وچ باری دےکھلونی آں
ہنجواں دےہارتیرےپچھےمیں پرونی آں
نالےبھرنی آں ٹھنڈےٹھنڈےساہ
تاریاں توں پچھ چن وے
وےمیں تیرےپچھےہوئی آں تباہ
لاریاں توں پچھ چن وے
ساری رات اپنےفوجی کاراہ تکنےوالی فوجنوں کی زندگیوں میں ان گنت دُکھ ہوتےہیں۔ کوئی تاروں بھری رات سےپوچھ کر تو دیکھے
اور پھردوراڈے وطن بستا پردیسی جب وقت پڑنےپرجان کی بازی کھیل جائےتو ان آسمان کےتاروں سےبھی زیادہ دکھوں میں سب سے بڑے کسی کےلوٹ کر آنےوالی آس کےٹوٹ جانےوالےدُکھ کااضافہ ہوجاتا ہے۔
لانس حوالدار غلام جعفر ون سیون فور میں سگنل ٹریڈ کا این سی او تھا جو وزیرستان میں لڑتا ہوا شہید ہوا۔
جعفر میری یونٹ کا شہید ہے۔ گئی رتوں میں ملتان سے لاہور کو پلٹتے رابرٹ فراسٹ کے نقشِ قدم پر چلتے میں نے اس راستے کو منتخب کیا جو ’لیس ٹریولڈ بائے‘ تھا تو چناب کے پانیوں کی قربت اور جھنگ شہر کی ہمسائیگی میں موضع دھروپہ میں غلام جعفر کے پاس دعا کو دو حرف بکھیرنے کو بھی رُکا۔
واپس پلٹنے سے پہلے جعفر کے بیوی بچوں اور والد سے ملاقات ہوئی۔ اتنالیس برسوں کی آبیاری کے بعد وداع ہوجانے والے بیٹے کی جدائی کی پھانس دل میں لیے سردار بخش نے ہمدردی کے دو بول سنے تو میرے سامنےرو دیا۔ جوان ہوتے بچے آنکھوں میں ایک فخریہ چمک لیے اپنے شہید باپ کو یاد کرتے تھے۔
فوجن کو معلوم تھا کہ جعفر کی کل کبھی نہیں آئے گی، مگر آنکھوں کی جوت میں آساں والی چھاں ابھی بجھی نہیں تھی۔
ایس شمع کیتا ساڑ کے سواہ
انگاریاں توں پچھ چن وے
ساری رات تیرا تکدی آں راہ ۔ ۔ ۔
مگر صاحبو ایک ختم ہوجانے والی زندگی کے دُکھوں سےپرے وہ لوگ شہید کے وارث بھی تو تھے،
تو میں انہیں ایک رشک سےدیکھتاتھا۔ کل کوایک بپاہوئےحشر کی افراتفری میں کہیں رب نے ڈاکخانہ ملانے کا اذن دیا تومیں فٹ سے موضع دھروپہ تحصیل شورکوٹ ضلع جھنگ کی قطار میں کھڑا ہوجاؤں گا۔
آخر کو جعفر میری یونٹ کا شہید ہے ۔۔۔
سولہ اگست کو ہمارے شہیدکی برسی تھی۔ اللہ غلام جعفر سے راضی ہو۔
مضمون کیسے لکھا جائے؟
مضمون کیسے لکھا جائے؟ بطور مڈل اسکول، ہائی اسکول یا پھرکالج اسٹوڈنٹ ہر کسی کا واسطہ ایک نہیں بلکہ بیشترمرتبہ...