فن مصوری کو اگر ہم پنجاب کے حوالے سے پرکھیں تو عبدالرحمن چغتائی ، استاد اللہ بخش اور ایسے کئی نام سامنے آئیں گے مگر ایک نام جسے قطعی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا وہ ہے ' اَمرتا شیرگل' ۔ یہ وہ نام ہے جسے پنجاب کی ایسی خاتون مصور کہا جا سکتا ہے جس نے فن مصوری میں مغرب اور مشرق کے امتزاج کو لافانی انداز میں متعارف کروایا ۔
اَمرتا شیر گل کون تھی ؟ اگر آپ یہ سوال مشرقی پنجاب میں آرٹ کے کسی چاہنے والے سے کریں گے تو آپ کو اس کا مفصل جواب مل جائے گا ، مگر آپ یہی سوال اگر پاکستانی پنجاب میں دہرائیں گے تو اس کا جواب آپ کو شاید ہی مل پائے ۔
اپنی موت سے ایک سال قبل اَمرتا نے اپنے ایک خط میں لکھا تھا:
”میں اور وکٹر ایک دوسرے سے بہت پیار کرتے ہیں پر ہمارے پاس ایک دوسرے سے کہنے کو کچھ بھی نہیں ہے۔ جب ہم دونوں اکیلے ہوتے ہیں تو گھنٹوں چپ سادھے خاموش بیٹھے رہتے ہیں۔ وہ جمائیاں لینے لگتا ہے اور میں گہر ی سے دبیز ہوتی ہوئی اداس خاموشی میں دھنستی چلی جاتی ہوں ۔ ہم ایک دوسرے سے توقع کرتے ہیں کہ پہل کی جائے اور جب یہ سب ناقابل برداشت ہو جاتا ہے تو ہم میں سے ایک اٹھتا ہے اور شطرنج یا اسی طرح کا کوئی صبرآزما کھیل تجویز کرتا ہے ۔“
یہ اَمرتا کی زندگی کا بانجھ پن تھا یا شدت اور سرگرمی سے زندہ رہنے کی خواہش جس نے اسے اس تیزی سے ہڑپ کر لیا کہ وہ اپنی پینٹنگوں کی نمائش سے آٹھ روز قبل ہی اس دنیا کو چھوڑ چکی تھی ۔ اس نمائش کے لیے 14 دسمبر 1941ء کا دن مقرر تھا ۔ 6 دسمبر 1941ء کو جب وہ موت کے منہ میں گئی تو وہ فقط 28 برس کی تھی ۔
اَمرتا اپنے وقت کے مشہور سنسکرت ،ہندی اور فارسی کے سکالر اور صوفی شاعر سردار امراﺅ سنگھ کی بیٹی تھی ۔ اس کی ماں میری انتونتی (Marie Antoinette) یورپ کے ملک ہنگری کی ایک مغنیہ اور موسیقار تھی ۔ اَمرتا بودا پسٹ میں 30 جنوری 1913ء کو پیدا ہوئی ۔” میری“ کا اپنی بیٹی کے بارے میں کہنا تھا:
” وہ ایک خوبصورت بچی تھی جس کے ریشمی کالے بال گردن سے بھی نیچے آتے تھے۔ اس کی بڑی بڑی آنکھیں دنیا کو حیرانگی سے اس طرح دیکھتی تھیں جیسے اس کا فوری احاطہ کرنا چاہتی ہوں ۔“
پانچ برس کی عمر میں ہی اس کی کھینچی لکیریں فقط لکیریں نہ تھیں۔ ان میں کوئی نہ کوئی شکل یا ہیئت نظر آتی تھی ۔ ہنگری کے ماہر نفسیات Ft. Ujhalui کے بقول:
” سات سالہ اَمرتا کے آگے ایک روشن مستقبل تھا جسے وہ اپنی ذہانت سے حاصل کر پائے گی ۔“
یہ وہ زمانہ تھا جب یورپ میں پہلی جنگ عظیم کے کالے بادل چھائے ہوئے تھے ۔ اَمرتا نے اپنا بچپن بوڈا پسٹ میں گزارا ۔ 1921ء میں اس کے والدین نے ہنگری چھوڑنے اور ہندوستان آنے کا فیصلہ کیا ۔ ہنگری سے انڈیا آتے ہوئے وہ پیرس میں رُکے ۔ یہاں آٹھ سالہ اَمرتا کو پیرس کی آرٹ گیلریاں، میوزک کنسرٹ اور پیرس کی تاریخی عمارات دیکھنے کا موقع ملا ۔ دیگر چیزوں کے علاوہ لیونارڈڈونچی کی مونالیزا نے بھی اَمرتا کے ذہن پر نقش چھوڑا ۔
انڈیا آنے پر اَمرتا کا خاندان شملہ (پنجاب) میں رہائش پذیر ہوا ۔ جنوری 1924ء میں ”میری“ اَمرتا اور اِندو کو لے کر اٹلی چلی گئی ۔ کیوں وجہ واضح نہیں ۔ ایک خیال یہ ہے کہ ”میری“ چاہتی تھی کہ اَمرتا اور اِندو کو نشاةِ ثانیہ کے آرٹ اور اطالوی زبان سے روشناس کرایا جائے ۔ جبکہ دوسرے خیال کے مطابق ”میری“ کا افیئر ایک یورپی مجسمہ ساز کے ساتھ تھا جس کے ہمرا ہ وہ اٹلی گئی تھی اور اپنی بیٹیوں کو بھی ہمراہ لے گئی تھی ۔ دونوں بہنوں کو فلورنس کے سکول Sante Annuciater میں داخل کرایا گیا ۔ یہ سکول اشرافیہ کے بچوں کے لیے تھا اور آرتھوڈوکس (دقیانوسی) روایات کا حامل تھا ۔ سکول کا نظم و ضبط اَمرتا کی طبیعت کے برعکس تھا ۔ اسے برہنہ خاکہ کشی کرنے کے الزام میں سکول بدر کر دیا گیا ۔ انڈیا واپسی پر ”میری“ نے دونوں بہنوں کو شملہ کے کونونٹ میں داخل کرا دیا ۔ یہاں بھی چرچ کی لازمی حاضری اور نظم و ضبط آڑے آیا ۔ اَمرتا نے وہاں سے ایک خط اپنے والد کو لکھا جس میں اس نے تمام مذاہب کو رد کرتے ہوئے خود کو لادین قرار دیا ۔ یہ خط اس کے والد تک تو نہ پہنچ پایا البتہ پرنسپل کے ہتھے ضرور چڑھ گیا ۔ بس ، اسے شملہ کونونٹ سے بھی نکال باہر کیا گیا ۔
روایات سے بغاوت ، برہنہ خاکہ کشی و ڈرائنگ اور موسیقی سے لگاﺅ اَمرتا کی بلوغت کی عمر کا خاصہ تھے ۔ وہ پیانو اور وائلن بہت اچھا بجاتی تھی ۔ مشہور جرمن موسیقار بیتھوون (Bethoven) کے بارے میں وہ لکھتی ہے:
”وہ نہ صرف کمپوزر ہونے کے ناطے ایک ذہین انسان تھا بلکہ ایک مضبوط ارادے کا انسان تھا ۔“
اَمرتا کی والدہ لکھتی ہیں:
”اسے انسانی جسم کی ہئیت میں بہت دلچسپی تھی اور اس نے چارکول سے خاکہ کشی اور زندہ کرداروں کی برہنہ مصوری شروع کر دی تھی ۔“
سولہ برس کی عمر تک پہنچے پہنچتے وہ غریب، مار کھاتی عورتوں اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتی خواتین کی کئی تصاویر بنا چکی تھی ۔
1929ء میں آرٹ کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے پیرس چلی گئی ۔ Academy of the Grand Chaumiere میں داخلہ لیا اور Pierre Vaillant کی شاگردی میں مصوری شروع کی ۔ اس نے Ecele Des Beaux Arts میں بھی تعلیم حاصل کی ۔ پنجاب سے تعلق رکھنے والی اَمرتا پہلی ہندوستانی لڑکی تھی جس کو اس ادارے میں داخلہ ملا تھا ۔ یہاں اس نے پروفیسر Lucian Simon کے ساتھ کام کیا ۔ پیرس میں پانچ سالہ پڑاﺅ اور اس دوران گاہے بگاہے ہنگری کے دوروں نے اَمرتا کو مکمل آرٹسٹ بنا دیا تھا ۔ پیرس کی بوہیمین زندگی نے بھی اس پر اپنا اثر چھوڑا تھا ۔ وہ پیرس کے تاریک کونوں اور دھوئیں سے بھرے کیفوں میں نت نئے تجربے کرتی ۔ پیرس کی اَمرتا ایک اور طرح کی اَمرتا تھی ۔
اَمرتا کی مصوری سے لگن رنگ لائی اور 1932 ء میں اس کی پینٹنگ "Torso" نقادوں کی توجہ کا مرکز بنی ۔ 1933ء میں اس کی پینٹنگ "Young Girls" کو گولڈ میڈل سے نوازا گیا ۔ یہ پینٹنگ یوں تو ایک بیس سالہ مصورہ کی ایسی پینٹنگ تھی جو Cezanne کے اسٹائل سے گہری حد تک متاثر تھی لیکن اس نے اَمرتا شیر گل پر Salon Des Tuileries کے دروازے کھول دئیے ۔ 1934ء میں Salon میں اَمرتا کے فن پاروں کی نمائش ہوئی ۔ پروفیسر Lucian Simon نے اَمرتا کے کام کو یہ کہتے ہوئے سراہا:
”میں ایک دن یہ کہتے ہوئے فخر محسوس کروں گا کہ وہ میری شاگرد رہی ہے ۔“
اَمرتا کو خود پر بہت اعتماد تھا اور پیرس میں اس خود یقینی کو مزید تقویت ملی ۔ اپنے والدین کے نام ایک خط میں وہ مرد و زن کے روایتی جنسی رشتوں پر تنقیدکرتے ہوئے زن و زن کے رشتے کی حمایت کی ۔ اس کے والدین اَمرتا کے اس طرز زندگی سے ناخوش تھے ۔ اس کا بھتیجا Vivan Sundaram لکھتا ہے:
” اَمرتا کی ماں اپنی بیٹی کے بوہیمین طرز زندگی کو پسند نہیں کرتی تھی اور چاہتی تھی کہ وہ کسی کھاتے پیتے شخص سے شادی کر کے اپنا گھر بسا لے ۔“
اَمرتا اس کے برعکس شادی سے انکاری تھی ۔ اسے لگتا تھا کہ خاتون پارٹنر کے ساتھ زیادہ اچھی زندگی بسر کی جا سکتی ہے اور ایک زمانے میں اس نے زندگی کے اس انداز کو اپنایا بھی ۔
اس کے والدین نہیں چاہتے تھے کہ وہ ہندوستان واپس آئے پر اَمرتا واپس لوٹ آئی ۔ بقول اَمرتا یہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ وہ مغرب سے حاصل کئے تجربے کو اپنی دھرتی پر آزمانا چاہتی تھی ۔ اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ میری دھرتی میں آرٹ کی چھاﺅں بہت گھنی ہے ۔ وہ لکھتی ہے:
” انڈیا میں اجنتا کا ایک فریسکو یا Musee Gausent کا فقط ایک مجسمہ ہی سارے نشاة ثانیہ پر بھاری ہے ۔“
اَمرتا کو اپنے باپ سے گلہ تھا کہ انہوں نے اس کی واپسی کو اپنے نام پر بٹہ سمجھا تھا ۔ وہ خود کو راست پر سمجھتی تھی ۔ اس نے اپنے والد کو لکھا:
”میرے لیے یہ بات اداسی کا باعث ہے کہ آپ اپنے نام کی عزت کو میری محبت پر مقدم رکھتے ہیں ۔ میں نہ پہلے بے راہ رو تھی اور نہ ہی اب ہوں ۔“
ہاں البتہ اَمرتا محبت ، جنس اور مرد و زن کے رشتوں کے بارے میں اپنے مخصوص خیالات رکھتی تھی ۔ وہ ایک خط میں لکھتی ہے:
”میں محبت سے ہمیشہ سرشار رہتی ہوں اپنے لیے خوش قسمتی اور مدمقابل کے لیے بدقسمتی کے ساتھ۔ میں محبت میں گرفتار تو ہوتی ہوں مگر اس سے قبل کہ کوئی نقصان ہو جائے میں محبت کے دام سے دامن بھی چھڑا لیتی ہوں ۔ میں ایک ایسی شرابی ہوں جو اس وقت شراب سے ہاتھ کھینچ لیتا ہے جب یہ مزہ دینے لگتی ہے ۔ یوں میری شخصیت کا جذباتی توازن شاذونادر ہی بگڑتا ہے ۔“ اس خط کا حوالہ ”اَمرتا کی سوانح“ میں موجود ہے جسے اقبال سنگھ نے لکھا ہے ۔
احمد سلیم اپنی تالیف کردہ کتاب "Amrita Sher Gill: A Personal View" میں لکھتا ہے:
” اَمرتا کی زندگی کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ وہ اس محبت کے خلاف اپنی بھرپور حفاظت کرتی ہے جو اسے غلام بنا لے ۔ یہ الگ بات ہے کہ اسے ایسی محبتوں کا کئی بار سامنا کرنا پڑا ۔ لیکن وہ پیار جو آزادی کی طرف لے جا تا ہے اور جسے وہ گلے لگانا چاہتی تھی اسے اپنی زندگی میں خال خال ہی ملا اور شاید ایک بار ہی ، جسے اس نے اپنی موت تک گلے لگائے رکھا ۔“
1934ء میں جب وہ ہندوستان واپس آئی تو وہ بوہیمین نہیں تھی ۔ اس نے خوش دلی سے ساڑھی سمیت مقامی لباس اپنائے ۔ اس نے دھتکارے ہوئے غریب لوگوں کو اپنے کینوس کا موضوع بنایا ۔
وہ واپس کیوں آئی؟ نقادوں اور سوانح لکھنے والوں کے لیے یہ ایک متنازع سوال ہے ۔ کچھ کا خیال ہے کہ وہ پال گوگین کی طرح سوچتی تھی ۔ جس طرح گوگین Tahiti جزائر جانے کا خواہش مند تھا اسی طرح اَمرتا اپنی دھرتی پر واپس آنا چاہتی تھی ۔ کچھ کا خیال ہے کہ اَمرتا کو پیرس میں رہتے ہوئے یہ احساس ہو گیا تھا کہ وہ یورپ میں وہ نام نہیں کما سکتی جو اسے اپنی دھرتی دے سکتی ہے ۔
نقادوں اور سوانح لکھنے والوں کے یہ خیالات کچھ زیادہ اہم نہیں ہیں۔ میرے لیے تو اہم بات یہ ہے کہ اَمرتا نے اپنی مختصر سی زندگی میں پنجاب کو کیا دیا ۔ ان گنت اعلیٰ پینٹنگز جن میں سے کئی تو ماسٹر پیس ہیں ۔ اس نے جب دیس واپس آ کر پینٹ کرنا شروع کیا تو اس پر مغربی تربیت کی چھاپ بہت نمایاں تھی ۔ "Three Girls"، ”مدر انڈیا“، "Begger"، "Two Women"، "Untouchables" ایسی پینٹنگز ہیں جن پر پیرس کی چھاپ ہے۔ ان میں رنگ ، لائٹ اور شیڈ سب پیرس کی تربیت کا اثر دکھاتے ہیں ۔ لیکن مغرب کا یہ اثر آہستہ آہستہ ماند پڑتا گیا ۔ اَمرتا نے سارے ہندوستان کا سفر کیا ۔ دہلی ، امرتسر ، لہور ، ہڑپہ ، شملہ ، گورکھپور ، الیورہ ، حیدرآباد دکن ، الٰہ آباد ، ممبئی اور نہ جانے کہاں کہاں اس نے ان سب جگہوں پر ہندوستان کے تمام قدیم مقامات دیکھے ۔ اس کے بعد اس کی پینٹنگز میں مغرب کا اثر ماند پڑتا گیا ۔”پہاڑی عورتیں“ ، ” پہاڑی مرد“ ، ” پھل بیچنے والا“ ، دلہن کا غسل خانہ” ،” بازار جاتی ہوئیں جنوبی ہندوستانی لڑکیاں“ ، ”دی برہمچاری“ ، ” سیستا“ اور ”کہانی سنانے والا“ اس بات کی غماز ہیں کہ اَمرتا پیرس کے سحر سے آزاد ہو گئی تھی ۔ اَمرتا کی پینٹنگز کی پہلی سولو (Solo) نمائش نومبر 1937ء میں فلیٹیز ہوٹل لہور میں منعقد ہوئی جسے نہ صرف سراہا گیا بلکہ لہور میں ایسی پینٹنگز کی شاید یہ پہلی نمائش تھی جس کے موضوعات استاد اللہ بخش اور چغتائی کے موضوعات سے ہٹ کر تھے ۔
اَمرتا کے والدین چاہتے تھے کہ اس کی شادی کسی مقامی عزت دار گھرانے میں کر دی جائے لیکن اَمرتا راضی نہ تھی ۔ وہ 1938ء میں ہنگری چلی گئی اور اپنے کزن وکٹر ایگن (Victor Egan) سے شادی کر لی ۔ وکٹر کو وہ گذشتہ کچھ برسوں سے پسند کر رہی تھی ۔ اس کے والدین اس شادی سے خوش نہ تھے ۔ اَمرتا کو خود بھی اس شادی کے کامیاب ہونے پر شک تھا ۔ ہنگری جاتے ہوئے اس نے لکھا تھا:
”میں اپنی متوقع شادی سے خوفزدہ ہوں ۔ ویسے بھی میں شاید ایک آئیڈل بیوی نہ بن پاﺅں ۔“
شادی کے بعد اَمرتا اور وکٹر ایک سال تک ہنگری میں رہے پھر ہندوستان آ کر گورکھپور کے ایک گاﺅں ساریا میں بس گئے ۔ وکٹر وہاں شوگر مل میں میڈیکل آفیسر تھا ۔ چھوٹے سے اس گاﺅں کی زندگی اَمرتا کے لئے اکیلے پن کو گھیر لائی اور شادی سے پہلے والے خوف سر اٹھانا شروع ہو گئے ۔ وہ اپنی بہن کو 1941ء میں ایک خط میں لکھتی ہے:
”میں نروس بریک ڈاﺅن کی کیفیت سے گزر رہی ہوں اور میں تو تمہاری طرح رو بھی نہیں سکتی۔ ایسا لگتا ہے جیسے کچھ طاقتیں میرے اندر اور اردگرد کی چیزوں کے توازن کو بگاڑ رہی ہیں ۔“
اَمرتا گورکھپور میں کچھ زیادہ پینٹ نہ کر پائی ۔ صرف "Ancient Story Teller", "The Swing Resting"، Woman resting on charpoy"، "Haldi Grinders" ہی سامنے آئیں ۔
ستمبر 1941ء میں وکٹر اور اَمرتا لہور آ گئے ۔ انہوں نے مال روڈ پر ایکس چینج بلڈنگ (سر گنگا رام بلڈنگ ) میں فلیٹ نمبر 23 میں رہنا شروع کیا ۔ اس وقت لہور کے ادبی اور فنی افق پر فیض احمد فیض ، احمد شاہ بخاری ، گوربخش سنگھ ، کرتار سنگھ دگل، امرتاپریتم ، سنگت راے ، گی ڈی کھوسلہ ، عبدالرحمن چغتائی ، بی سی سانیال، بیون پریتم (اَمرتاکا بچپن کا ڈرائنگ ماسٹر) ، روپ اور میری کرشنا کرشن کھنہ ، ستیش گجرال اور خشونت سنگھ جیسے لوگ تھے ۔ جلد ہی اَمرتا نے لہور کے فنی اور ادبی حلقوں میں اپنی جگہ بنا لی ۔ اس کی زندگی میں رونق اور تازگی بھی لوٹ آئی اور وہ اپنی پینٹنگز کی دوسری سولو نمائش کی تیاری کرنے لگی ۔ نمائش کی تاریخ 14 دسمبر 1944ء طے ہوئی ۔ یہ نمائش پنجاب لٹریری لیگ ہال چیئرنگ کراس لہور میں منعقد ہونا تھی ۔ لیکن ہفتہ قبل اَمرتا یہ دنیا چھوڑ کر جا چکی تھی ۔ اس کی موت پر H.L. Prasher نے لکھا:
” جب اس کی موت پر دھیان کیا جائے تو یوں سوچ آتی ہے جیسے کنگ لیئر کو کورڈیلیا کی موت پر دکھ ہوا ہو گا ۔“
وہ اَمرتا کی موت کو کیٹس کی موت سے ملاتا ہے اور شیلے کے اس نوحے کو یاد کرتا ہے جو اس نے کیٹس کی وفات پر لکھا تھا ۔ ایک سوگوار کا کہنا تھا کہ اس کا چہرہ جو ہمیشہ جوانی کی خوبصورتی کا نمائندہ تھا کفن میں موت کا سرد بھیانک تاثر دکھا رہا تھا ۔ عبدالرحمان چغتائی نے کہا:
”میں یقین ہی نہیں کر پایا کہ وہ مر گئی ہے اور ابھی بھی مجھے یقین نہیں ہے ، وہ زندہ ہے ۔ وہ ہمیشہ زندہ رہے گی ۔“
فیض احمد فیض نے کہا:
”اَمرتا شیرگل اپنے وقت اور اپنی عمر کی ایک جینئیس تھی ۔“
سٹیٹس مین نے اَمرتا کے کام کو یوں پرکھا:
” روایات اور قدرت کے مصنوعی مظاہر سے بغاوت کرتے ہوئے ، پرانے اور نئے مصوروں سے اثر لیتے ہوئے،اس نے اپنی انفرادی شخصیت کو کھلا موقع دیا اور گوگین اور اجنتا کے اثرات لیتے ہوئے اپنا منفرد سٹائل بنایا ۔ اس کے ہاں خوبصورتی کا تصور بھی منفرد تھا جسے کئی نقادوں نے بدصورتی سمجھا ۔ اس طرح کے آرٹ میں اَمرتا پنجاب ہی نہیں بلکہ ہندوستان بھر میں منفرد مصورہ ہے ۔“
اَمرتا اپنے بارے میں لکھتی ہے:
”میں انفرادیت پسند ہوں ۔ میں ایک نئی تکنیک کو رواج دے رہی ہوں جو روایتی طور پر ہندوستانی نہیں لیکن اس کی اساس ہندوستانی ہی ہے ۔ میں بنیادی طور پر ہندوستانی اور خصوصی طور پر غریب ہندوستانی زندگی کو مصور کر رہی ہوں ۔“
اَمرتا اس زمانے سے تعلق رکھتی ہے جب فن ِمصوری کے افق پر خواتین خال خال ہی نظر آتی تھیں اور مارڈن ازم پر مردوں کا ہی غلبہ تھا ۔ اَمرتا کے علاوہ تین نام ہی ایسے ہیں جو قابل ِذکر ہیں ۔ یہ جرمنی کی Kathe Kollwitz ، امریکہ کی Geogia O'Keeffe، اور میکسیکو کی فریدا کوہلو (Frida Kohlo) ہیں۔ اَمرتا اور فریدا کے کام میں مماثلت بھی ہے اور فرق بھی ۔ مماثلت اس طرح سے،کہ اَمرتا نے مغرب اور ہندی فن کو ایک دوسرے میں سمو کر اپنا منفرد انداز بنایا جبکہ فریدا نے پیرس کے مارڈن ازم کو میکسیکن فوک کے ساتھ ملا کر مصوری کی ایک نئی جہت تشکیل دی ۔ فرق اس طرح سے کہ اَمرتا کی پینٹنگس میں آٹوبایوگرافیکل اثر بہت کم ہے جبکہ فریدا کوہلو کے ہاں یہ اثر خاصی بہتات سے ہے ۔
اََمرتا کا کام آپ کو بے شک بہت زیادہ شاندار نہ لگے لیکن یہ لازمی طور پر ماڈرن ہے ۔ وہ اپنے موضوعات (Subjects) کو سادہ کرنا جانتی ہے اور صرف ان کی لازمی جزئیات کو پکڑتی ہے ۔ وہ بڑے کینوس پر اس سجاوٹی انداز میں آئل سے پینٹ کرتی ہے جس طرح اجنتا کے فریسکو پینٹ کئے گئے ہیں ۔ رنگوں کا جو امتزاج وہ استعمال کرتی ہے اس میں راجپوت اور مغل منی ایچر کا اثر بھی ہے اور پنجاب کارنگ بھی ۔ اس کی مصور کردہ خواتین میں محبت تو ہے مگر اداسی بھی جھلکتی ہے یہ اداسی ہجر ہے ، تشنگی ہے ، یا پھر مرد کی زیادتیوں کا عکس اس کا فیصلہ دیکھنے والوں پر منحصر ہے ۔ ان خواتین میں کہیں اَمرتا کی اپنی شخصیت بھی جھلک مارتی ہے جس نے اپنی مختصر زندگی میں متنوع تجربات کئے ۔
Yashodhara Dalmia اَمرتا کی سوانح میں لکھت ہے ۔:
” اَمرتا کی اچانک موت نے لوگوں کو عرصے تک حیران کئے رکھا اور اس کی مو ت اب بھی ایک معمہ ہے مگر بہت سے لوگوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ سر عبدالقادر اور لیڈی عبدالقادر کے گھر پکوڑے کھانے سے وہ پیچش کا شکار ہوئی ۔ البتہ کچھ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ امرتا حاملہ تھی اور بچہ نہیں چاہتی تھی ۔ وکٹر نے اس کا حمل گرانے کی کوشش کی لیکن حمل گرانے کا یہ عمل بگڑ گیا اور زیادہ خون بہہ جانے سے امرتا کی موت واقع ہوئی ۔ وکٹر نے اس کا علاج کیا ۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر سِکری ، Dr. Kaliseh اور ڈاکٹر رگوبیر سنگھ بھی اسے بچانے کی کوششں کرتے رہے ۔ مگر کوئی علاج کارگر نہ ہوا اور وہ 6 دسمبر 1941ء کو رات کے سمے اس جہان فانی سے رخصت ہو گئی ۔ اس نے خشونت سنگھ کے حوالے سے اُس کا بھی موقف لکھا ہے جو قرین قیاس تو ہو سکتا ہے لیکن اسے یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ امرتا کو ، اس کے بائی سیکسوئل فطرت کو تحقیر کے ساتھ تحریر کرے ۔
7، دسمبر بروز اتوار کشمیری شال سے ڈھکی اَمرتا کی میت اس کے فلیٹ سے اٹھائی گئی ۔ اس کے جنازے میں تیس سے چالیس لوگ تھے ۔ مال ، لوئر مال اور راوی روڈ سے ہوتے ہوئے یہ لوگ راوی کنارے پہنچے جہاں اَمرتا کے والد امراﺅ سنگھ نے اس کے جسد خاکی کو آگ کے سپرد کر دیا گیا اور راکھ راوی کے پانیوں کے حوالے کر دی گئی ۔
اَمرتا کی موت کے بعد ' پنجاب لٹریری لیگ ' نے اُس کی یاد میں ایک تعزیتی اجلاس معنقد کیا جس میں چغتائی ، بی سی سانیال ، مرے کرشنا ، روپ اور بہت سے دوسرے شامل تھے ۔ بی سی سانیال نے کہا کہ اَمرتا کا کام لافانی ہو گیا ہے ۔لیگ نے اَمرتا کی تصاویر کی ایک مصور فہرست (catalogue) بھی مرتب کی اور اس کی پینٹنگز کی وہ نمائش بھی منعقد کرائی جس کا انعقاد 14 دسمبر کو ہونا تھا یہ ذرا تاخیر سے 21 دسمبر 1941ء تا 7 جنوری 1942 ء تک لیگ کے ہال میں جاری رہی ۔ لیگ نے جو آرٹ اور ادب پر ایک جرنل بھی نکالتی تھی ، اگست 1942 ء میں اَمرتا شیر گل پر ایک خصوصی شمارہ بھی نکالا ۔
گو دہلی میں قائم نیشنل گیلری آف مارڈن آرٹس میں اَمرتا کی پینٹنگس محفوظ کی گئیں ہیں پردیکھنے والے بتاتے ہیں کہ یہ ذخیرہ کچھ زیادہ اچھی حالت میں نہیں ہے ۔
اَمرتا کی سوانح لکھنے والوں میں سے کچھ نے اس کے جنسی رویوں (Bi-sexual behaviors) پر زور دیا ہے ، کچھ نے اس کی شخصیت کی دیگر کمزوریوں جیسے اکھڑپن پر بات کی ہے ۔ کچھ نے اس تضاد کو ابھارا ہے کہ وہ خود تو اشرافیہ سے تھی جبکہ دھتکارے ہوئے غریب لوگوں کو کینوس پر ڈھالتی تھی ۔ لیکن ان سب سے قطع نظر یہ کہنا سب سے زیادہ مناسب ہوگا جو راما چندرن کے الفاظ میں ایسے ہے:
”وہ لمس اور ذوق کے اعتبار سے تجربے کرنے والی ایک ایسی عورت تھی جو بیک وقت بولڈ بھی تھی اور باقیوں سے واضح تفریق بھی رکھتی تھی ۔ جس نے بھرپور جیا اور جس نے خود کو ہر طرح کے اثر کو قبول کرنے کے لیے خود کو کھلے دل سے پیش کیا ۔ مگر اس کی شخصیت میں ایک مضبوط توازن بھی تھا جس نے اسے بہکنے سے بچائے رکھا ۔“
اَمرتا کی موت نے ہمیں ایک ایسی ذہین آرٹسٹ سے محروم کر دیا جو اپنی زندگی میں دوسری سولو نمائش بھی نہ کر پائی پر آج جب ہم اس کے کام کو دیکھتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ 28 برس کی عمر میں کیٹس کی طرح اس دنیا سے رخصت ہونے والی مصورہ اگر زندہ رہ پاتی تو پنجاب کی مصوری کا کینوس کہیں کا کہیں جا چکا ہوتا ۔ یہ کہنا بھی غط نہ ہو گا کہ وہ برصغیر پاک و ہند کے افق پر وہ ابھرتا ستارہ تھی جس نے ماڈرن آرٹ کی جھلک ہمیں دکھائی اور خود معدوم ہو گیا ۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...