وکیل حق زہراس ، ذاکر اہل بیت اطہار ع علامہ ناصر عباس شہید
اپنا مرثیہ لکھنا کافی مشکل کام ہے۔ اس وقت میری جو کیفیت ہے وہ صرف میں ہی جانتا ہوں۔ فیض نے کہہ تو دیا تھاکہ جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گےاور انہوں نے حالِ دل لکھا بھی اور خوب لکھا لیکن غالب نے کہا کہ ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے۔ تخلیق کوئی بھی ہوجس قدر تخلیق کار کرب سے گزرے گا اس قدر لفظوں میں بولنے ، دھڑکنے ،تڑپنے ، رونے ، سلگنے اور مچلنے کے احساس کی لو تیز سے تیز تر ہوتی جائیگی۔ ذرا دیکھئے جب جمال احسانی نے یہ شعر لکھا ہوگا تو شاعر کرب کی جس لذت سے گزرا ہوگا اس کی ہمیں کیا خبر۔
چراغ بجھتے چلے جارہے ہیں سلسلہ وار
میں خود کو دیکھ رہا ہوں فسانہ ہوتے ہوئے
لفظوں کی اثر گیری کل بھی اسی جذبے اور طاقت سے موجود تھی جیسی اب ہے لیکن اب اپنا حال یہ ہے کہ نہ ہم بات کرتے ہوئے، بات کو پہلے تولتے ہیں اور نہ ہی لکھتے ہوئے یہ سوچتے ہیں کہ ہم کیا لکھ رہے ہیں۔ اس لیے قبروں کے بڑے بڑے قبرستان کتابوں کی صورت میں گرد آلود لائبریروں میں پتھرائی ہوئی آنکھوں سے اپنے قاری کا راستہ دیکھ رہے ہیں۔
میرے قارئین میں سے کسے نے یہ ٹھیک ہی تبصرہ کیا ہے کہ میں جانے والوں کو ہی یاد کیوں کرتا ہوں ، اسکا جواب میں کیا دوں ہاں بس اتنا کہہ سکتا ہوں کہ یہ بجھتے ہوئے سلسلہ وار چراغ آج بھی میرے دل میں روشن ہیں اور جب تک میں خود فسانہ نہیں ہو جاتا مجھ پہ واجب ہے کہ ان چراغوں کو یاد رکھوں۔ آپ ہی بتائیے کہ آپ کیا اپنے چراغو ں کو فراموش کر سکتے ہیں ؟
15دسمبر 2013ء میری زندگی کا ایک ایسا دن کہ جسے گزرے بظاہر تو 3285 دن بیت چکے لیکن آج بھی اس رات ساڑھے گیا رہ بجے کے عمل میں چلنے والی گولیوں کی تڑتڑاہٹ اور جسم سے نکلنے والے خون کی بوند بوند اور درد کی کیفیت کا وہ لمحہ مجھ میں رک سا گیا ہے۔ میں ان گزرے لمحوں میں بظاہر تو زندہ ہوں لیکن مجھ میں اور سرد خانے میں رکھی ہوئی لاشوں میں فرق بس یہی ہے کہ وہ لکھ نہیں سکتے۔
15 دسمبر 2013ء میرے بھائی علامہ ناصر عباس کی شہادت کا دن، وہ صرف میرے بھائی نہ تھے بلکہ اس بات کا ادراک تو مجھے انکے جانے کے بعد ہوا کہ وہ تو ایک ایسے ہر دل عزیز تھے کہ ان کے لیے نہ جانے کتنی آنکھیں اشک بار ہوئیں اور نہ جانے کتنے گھروں میں انکا سوگ منایا گیا۔
ہمارے سابق وزیرِ اعظم محترم عمران خان اس نظام سے نالاں ہیں کہ ان پر چلنے والی گولیوں کے بعد FIR پنجاب میں انکی اپنی حکومت ہوتے ہوئے بھی درج نہیں ہو سکی۔ میرے محترم ، میرے پیارے غصہ اور ناراضی کس بات کی؟ اگر FIR درج ہوبھی جاتی تو کیا ہوجاتا ؟ خدا آپکو سلامت رکھے آپ بچ تو گئے لیکن کتنے ہی ایسے مظلوم ہیں جو ان ظالم درندوں کے ظلم سے بچ بھی نہ سکے انکی FIR بھی درج ہوئی لیکن کیا ہوا؟
15 جنوری 1996ء ایک بہت بڑے شاعر سید محسن نقوی کو بھرے بازار میں گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا ہے ۔ انکی بھی FIR درج ہوئی ، کیا ہوا؟ 27 دسمبر 2007ء کو دختر ِ مشرق محترمہ بے نظیر بھٹو جیسی عظیم لیڈر کو اور ہاں مجھے لگتا ہے کہ محترمہ پر اور آپ پر گولیاں چلانے ولا ہاتھ ایک ہی ہے ۔ لیاقت علی خان کو بھی اس فہرست میں شامل کیا جا سکتا ہے جو اس ظلم و بربریت کا شکار ہوئے۔ محترمہ بینظیر بھٹو کے قاتل اتنے مضبوط تھے کہ آصف علی زردار ی اپنی صدارت میں بھی نہ پکڑ سکے۔ انکی بھی FIR درج ہوئی کیا ہوا؟ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی سسکیاں اور آہیں کسے یاد نہیں، اسکی بھی FIR کاٹی گئی پھر کیا ہوا؟ عمران ڈئیر آپ پر حملے سے کچھ دن پہلے 12 اکتوبر 2022ء ذاکر نوید عاشق بی۔اے کو بر سرِ منبر مجلس پڑھتے ہوئے سامع کا بھیس بدل کر بیٹھے ہوئے درندے نے مارڈالا، انکی بھی FIR درج ہے، قاتل پکڑا بھی گیا ، پھر اب سز ا میں کس بات کی دوری ؟ بے باک صحافی ارشد شریف کا قتل تو ابھی کل کی بات ہے ۔ ان کی ضعیف والدہ نے بھی FIR بڑی مشکلوں سے درج کروائی ہے۔ سپریم کورٹ کے عالی وقار ججز بھی کیس میں اچھی خاصی دلچسپی لے رہے ہیں ۔ لیکن نتیجہ تب تک نہیں آ سکتا جب تک تماشہ ختم نہیں ہو جاتا۔ جانے کتنےہی ایسے مظلوم موجود ہیں جن کی FIRs بھی لکھی جا چکیں لیکن قاتل دیدہ دلیری سے دندناتے پھر رہے ہیں۔ ایک کالم میں سب کا تذکرہ تو ممکن نہیں اسکے لیے مکمل کتاب چاہیے ۔
اس ملک میں پتلی تماشہ کب تک ہوتا رہیگا ، کب خون آلود قاتلوں کے ہاتھوں سے دستانے اور انکے رخ
سے نقاب کھینچ کر پھینک دی جائے گی۔ اور بقول فیض ہماری آنکھیں وہ منظر کب دیکھ پائیں گی کہ ۔۔۔۔
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
جب ظلم و ستم کے کوہِ گراں
روئی کی طرح اڑ جائیں گے
اب میں اپنے ان پیاروں کو کیسے فراموش کردوں، انکے لیے کیوں نہ لکھوں ۔ اگر میں بھی نہیں لکھوں گاتو اور کون لکھے گا۔ اب قلم کار اور ہمارے اینکر(کچھ کو نکال دیں مگر کسے؟) بغیر لفافوں کے لکھتے اور بولتے ہی کب ہیں؟
ناصر عباس، آج صرف آپ کو یاد کرنے کا دن تھا، لیکن مجھے یقین ہے کہ آپ مجھ سے ناراض نہیں ہونگے کیونکہ میں نے جن ہستیوں کا ذکر کیا ہے۔ وہ آپ کے دل میں بھی بستی تھیں، وہ آپ کے بھی پیارے تھے۔محسن نقوی کےلیے ہم دونوں تڑپے ، محترمہ بینظیر کے لیے ہم دونوں مل کے روئے ۔ نوید عاشق ہم دونوں کا بھائ تھا۔ آخرمیں بس اتنا عرض ہے کہ اس ملک کے تمام ادارے مل کر اس ملک کی بقاء ، ترقی اور امن کے لیے سوچیں ۔ ایسا نہ ہو اور خدا نہ کرے کبھی بھی ایسا ہو، جسے سوچتے ہوئے بھی روح کانپ جاتی ہے۔