سلویا ہیتھرو پر اتری تو لمبی پرواز کی تھکن سے اُس کا انگ انگ ٹوٹ رہا تھالیکن وطن کی مانوس خوش بو اور ہوا کے علاوہ ایر پورٹ کی گہماگہمی نے اس کی طبیعت بشاش کردی ۔ اس نے خوش دلی سے ادھر اُدھر نظر دوڑائی اچانک اس کی نظر درمیانی عمر کے روشن آنکھوں اور دمکتے دانتوں والے باوقار اور خوش لباس سیاہ فام پر پڑی جو اسے نہایت چاہت بھر ی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔اس وجیہہ مرد کی آنکھوں میں عجب والہانہ پن تھا۔سلویا کو اُس کا اس اشتیاق سے دیکھنا بہت بھلا لگا،اس دوران اُن کی نظریں بھی ملیں اور سلویا کو خیال بھی آیا کہ بڑھ کر اجنبی سے تعارف حاصل کرلے مگروہ بے حد تھکی ہوئی تھی اور اجنبی بھی بھیڑ بھاڑ میں نظروں سے اوجھل ہوگیا تھا۔
سلویا جلد گھر پہنچنا چاہتی تھی تاکہ شاور لے کر گہری نیند سو سکے۔راستے بھر محبت سے چھلکتی دو روشن آنکھیں اس کے ساتھ سفر کرتی رہیں۔ اچانک بیٹی کو اپنے سامنے دیکھ کرماما، پر شادی مرگ کی سی کیفیت طاری ہوگئی ،اُن کا بس نہ چلتا تھا کہ خوشی سے رقص کرنے لگیں ۔ سلویا کو بھی اپنی مسکراتی ماما سے بہت محبت تھی وہ عام برطانوی لڑکیوں سے مختلف تھی اسے حیرت ہوتی کہ لوگ کیسے اپنے والدین کو اولڈ ہومز میں جمع کر کے فراموش کردیتے ہیں ،سلویا کی اپنی ماما سے سہلیوں ایسی بے تکلفی تھی۔وہ سری لنکا سے بھی برابر ان سے رابطے میں رہتی اور وہاں کے جزائر اور چائے کے باغات کی خوش نمائی کے قصے سناتی رہتی، ادھر ماما سنہالیوں اور تامل ٹائیگرز کی معرکہ آرائیوں کی خبریں سن کر دھلتی رہتیں۔ وہ اپنے داماد سجاد اور بیٹی کی سیمابی مراج سے خوب آگاہ تھیں۔سلویا کو تو خیر اجنبی زمینوں کی ثقافت اور فن سے گہری دل چسپی تھی ہی سجاد کو بھی پاکستانی کلچرل اتاشی کی حیثیت سے دن رات فن کاروں اور وہاں کے ثقافتی ورثے سے جڑا رہنا پڑتا ہوگا۔ ماما یہ سوچ کر مطمعن ہو جاتیں کہ ان کا پاکستانی داماد ان کی بیٹی کو خوش ہی نہیں رکھتا اس کا ہم مزاج بھی ہے۔جب سلویا نے ابتدا میں انہیں بتا یا کہ پاکستان کے کلچرل اتاشی نے اسے پرپوز کیا ہے تو انھیں کچھ عجیب سا لگالیکن جب انہوں نے سلویا کے لہجے اور اکسائٹمنٹ پر توجہ دی تو اپنے تحفظات کو نظر انداز کردیا۔سلویانے شادی کا پہلا سال وہیں لندن میں گزارا پھر سجاد کا تبادلہ سری لنکا میں کردیا گیا ۔ وہاں گزارے ہوئے ڈھائی سال سلویا اور سجاد کے لیے یادگار تھے ،ان دونوں کی ہر شام کسی تقریب میں گزرتی جہاں وہ سری لنکا کے فن کاروں کے کمال فن سے حظ اٹھاتے۔ سجاد خوش مزاج انسان تھا اس کی ہمرہی میں سلویا کو تحفظ کا احساس ہوتا لیکن اسے یہ شکایت ضرور تھی کہ وہ اپنی گوناں گوں مصروفیت کے باعث اسے زیادہ وقت نہیں دے پا تا ۔سلویا نے اس کا حل یہ نکالا کہ اکیلی ہی جزائر کی سیر کو نکل جاتی اور وہاں موسیقی کے فن کاروں ،ادیبوں اور مصوروں سے ملتی ،ان کا کام دیکھتی اور بہت خوش رہا کرتی لیکن یہ سب کچھ ڈھائی سال میں ہی ختم ہوگیا سجاد ایک ہولناک حادثے کا شکار ہوکر جاں بحق ہوگیا۔ ٹریلر نے اس کی کار کا کچومر نکال دیا تھاَ ۔ما ما کو اس خبر سے بہت رنج ہوا وہ سجاد کو اس کے اچھے اطوار اور مہذب رویے کے باعث پسند کرتی تھیں ۔ سلویا اپنے شوہر کی نعش کے ساتھ پاکستان گئی اور اس کے کفن دفن اور دیگر تقریبات میں شریک رہی اور پھر واپس سری لنکا لوٹ آئی اس نے کچھ دن میں یہاں کے معاملات نمٹائے اور آج تنہا واپس اپنی ماما کے پاس گھر آگئی تھی۔
ایک دن جب ماما شاپنگ کے لیے گئی ہوئی تھیں اور وہ کافی کا کپ سنبھالے اپنے مستقبل کے حوالے سے پریشان سی بیٹھی تھی ، ڈور بیل بول اٹھی۔ سلویا نے کسلمندی سے دروازے کو دیکھا اور خود کلامی کے انداز میں بڑبڑائی: یہ ناوقت کون آگیا؟ اس نے میجک آئی سے آنکھ پیوست کردی اور پھر اس کا دل جیسے دھڑکنا ہی بھول گیا۔ نہایت نفیس سوٹ ذیب تن کیے دروازے پر وہی سیاہ فام اجنبی کھڑا تھا،اس نے کپکپاتی انگلیوں سے دروازہ کھولااور مسکراتے ہوئے مہمان کو اندر آنے کی دعوت دی۔وہ پورے اعتماد اور بے تکلفی سے چلتا ہوا لاونچ میں دھرے صوفے پر آکر بیٹھ گیاپھر اسے پُرشوق نظروں سے دیکھتے ہوئے چلبلاتی آواز میں بولا: تم مجھے دیکھ کر حیران ہورہی ہوگی، دیکھو میں نے تمہیں ڈھونڈ نکالا،میں جینفرہوں ایک چھوٹے سے بینک کا مینیجر اور تم یقیناًسلویا ہو تم یقیناًبھولی نہیں ہوگی کہ کچھ ماہ قبل ہماری ملاقات ہیتھرو پر ہوئی تھی۔
سلویا نے مسکرا کر سر اثبات میں ہلایا: ہاں، لیکن اسے ملاقات تو نہیں کہہ سکتے لیکن آپ مجھے یاد رہے۔
جینیفر دھیمے سے مسکرایا : تم مجھے بھول بھی کیسے سکتی تھیں ؟جب کہ میں رات دن بھوسے میں گری ہوئی سوئی کی طرح تمہیں شہر بھر میں تلاش کررہا تھا اور دیکھو آج میں تمہارے روبرو موجود ہوں۔
یہ سب سن کر سلویا کے دل میں لڈو سے پھوٹ رہے تھے لیکن اس کے نسوانی پندار نے اسے مجبور کیے رکھا تھا کہ وہ خود کو سمیٹے بیٹھی رہے ،اس نے تعجب سے سوال کیا : لیکن آپ نے میرے لیے یہ جوکھم کیوں اٹھایا؟ ہم تو ایک دوسرے سے متعارف تک نہیں تھے اور پھر مجھے ڈھونڈ کیسے لیا؟
تعارف تو محض ایک تکلف ہے ہم افریقی ان فضولیات پر یقین نہیں رکھتے سچ تو یہ ہے کہ ائرپورٹ پر تم پر نظر پڑتے ہی میں نے اپنا آپ تمہارے سانسوں کی ڈور سے باندھ دیا تھااور ہم سیاہ فام جس بات کو دل میں ٹھان لیں اسے انجام کرکے چین لیتے ہیں۔میں تمہاری تلاش سے خاصا بد دل ہوچلا تھا کہ کل شام بازار میں اچانک تم نظر آئیں تمہارے ساتھ ایک بوڑھی خاتون بھی تھیں ،بس پھر میں نے نہایت خاموشی سے تمہارا پیچھا کیا اور تمہارا گھر دیکھ کر چلا گیا اور آج…
سلویا مسکائی : مگر آپ نے اپنا آپ میری سانس کی ڈور سے باندھ لینے جیسا بڑا فیصلہ مجھ سے ملے اور میری مرضی جانے بغیر کیسے کرلیا؟
تمہاری مرضی… مجھ سے الگ کیسے ہوسکتی ہے سلویا؟ یہ تو قدرت کا فیصلہ ہے۔جینیفر نے پُر تیقن لہجے میں بات ختم کی۔
ٓآپ اتنے یقین سے یہ کیسے کہہ رہے ہیں ؟ میری ترجیہات کچھ اور بھی تو ہوسکتی ہیں۔ سلویا نے دھیمے لہجے میں کہا۔
بس میں نے تمہیں دیکھا اور پھر میرے پاس کوئی اور انتخاب ہی نہیں رہ گیا تھا۔اس نے سادگی سے سلویا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات مکمل کی۔
آپ کمال کرتے ہیں اور اگر میں یہ پیشکش قبول کرنے سے انکار کردوں۔سلویا نے اس کے جذبے کی شدت کا اندازہ لگانے کے لیے سوال کیا۔
جینیفر نے گردن گھما کے دھیمے دل سوز لہجے میں کہا: ہاں آپ مجھے مسترد کرسکتی ہیں لیکن میرے سینے میں جو چراغ روشن ہوچکا ہے وہ تو گُل ہونے سے رہا۔ اس نے کافی کا سپ لے کر بات جاری رکھی:ہمارے لیے محبت عبادت اور محبوب دیوتا کا درجہ رکھتا ہے۔
سلویا نے دل ہی دل میں اسے سراہتے ہوئے جوابا کہا:آپ کی باتیں مجھے حیران کررہی ہیں،اب ایسا کہاں ہوتا ہے ؟
جینیفر طنزیہ انداز سے مسکرایا:ہاں، یہ ایک جدید دنیا ہے لیکن جس زمین سے میں آیا ہوں وہاں ہمارے پرکھوں نے ہمیں روایت کے احترام کی تعلیم دی ہے ہم آج بھی اپنی روایات کی پاس داری کرتے ہیں ۔
سلویا اس کی خوش کلامی سے متاثر ہوتے ہوئے دھیمے لہجے میں بولی:مجھے سوچنے کا وقت دیں۔
وہ کھلکھلا کے ہنسا: جناب!محبت تو سراسر خسارے کا سودہ ہے،خود سے دست بردار ہوجانا،یہ ایک پوتر اور پُر اسرار جذبہ ہے، ایسا نہ ہوتا تو میں بے نام ونشان آپ کو کھوجنے کیسے نکل کھڑا ہوتا؟ بہت جوکھم اٹھائے ہیں میں نے، اس میں سوچنے سمجھنے کی گنجایش نہیں ہوتی محترمہ۔ یہ سب سن کر سلویا کو اس پر بہت پیار آیا: آپ نے میرے لیے کتنی تکالیف برداشت کیں۔
وہ مسکرایا : زندگی اور موت کے کھیل میں یہ سب تو ہوتا ہی ہے۔
اوہ میرے خدا ! آپ نے مجھے ایک نظر دیکھا اور میں آپ کے لیے اتنی اہم ہوگئی تھی؟ مگر یہ تو اچھا خاصا پاگل پن ہے۔
جینیفر نے اثبات میں گردن ہلائی:محبت ہوش مندوں کے گھر مہمان نہیں ہوتی،میرے لیے تو یہ کسی خوش نصیبی سے کم نہیں۔اس میں سوچنا کیسا؟ دماغ تو شیطان کی سواری ہے۔
سلویا نے بہت غور سے اسے دیکھا: تم بہت دل چسپ باتیں کرتے ہومگر…
اس نے بات کاٹ کر تیز آواز میں کہا: یہ اگر مگر ہی سارے فساد کی جڑ ہے،تمہیں میری خوشی مجھے دینی ہوگی۔
سلویا نے ہنستے ہوئے کہا:تم بچّوں کی طرح ضد کرتے ہوئے اچھے لگتے ہو لیکن میں چاکلیٹ نہیں ایک زندہ عورت ہوں،اچھا سنو میرے دوست بن جاؤ۔
اُس نے مایوسی سے دھرایا: دوست؟یعنی میں تمہیں منظور نہیں ہوں۔
سلویا نے جواب دیا:جینیفر میں تم میں جاذبیت محسوس کرتی ہوں لیکن ہمیں ایک دوسرے کو سمجھنے کا وقت ملنا چاہیئے۔
وہ ایک خاص انداز میں مسکراتا ہوا اٹھا:یہ ایک گنجان دنیا ہے آدمی کھو جائے تو مشکل سے ملتا ہے ،میں اب چلتا ہوں۔
نہیں ، تم میری زندگی میں یوں اچانک ہل چل مچا کر جا نہیں سکتے۔سلویا کی آواز میں تندی اور تحکم تھا۔
وہ مسکرا کر بیٹھتے ہوئے گویا ہوا:یعنی تم مجھے دوبارہ کھونے کا خطرہ مول لینے کو تیار نہیں ہو۔
سلویا مسکرائی: مجھے تمہاری محبت پر شک نہیں رہا لیکن …
لیکن ویکن کچھ نہیں ،تمہارے دل میں بھی چاہت کا نور جگمگا اٹھا ہے مگر تم اعتراف نہیں کررہیں۔
جینیفر میرا مستقبل غیر محفوظ ہے، میں الجھی ہوئی ہوں۔
وہ کھلکھلاکے ہنسا:کل کس چڑیا کا نام ہے؟یہ خوف ان دیواروں اور دروازوں کی دین ہے،ہم اسی لیے جنگلوں میں مست پھرتے ہیں کیوں کہ ہمارا ماضی اور مستقل بس لمحہ موجود ہے۔
سلویا نے تیزی سے کہا:کیسی لایعینی باتیں کررہے ہو؟
جینیفر نے سنجیدگی سے سوال کیا:کیا تم یقین سے کہہ سکتی ہو کہ کل تک تم زندہ رہو گی؟
سلویا نے کچھ بے یقینی سے جواب دیا: ہاں، کیوں نہیں مجھے کیا ہوا ہے۔
جینیفر نے تعجب سے اسے دیکھا : تمہاری یادداشت کتنی کم زور ہے، کیا سجاد جانتا تھا کہ وہ جس سفر پر جارہا ہے اس سے زندہ واپس نہیں آسکے گا؟
سلویا نے مایوسی سے نفی میں سر ہلایا:لیکن وہ تو ایک حادثہ تھا۔
جینیفر تڑختی آواز میں بولا:یہ سب کسی بھی وقت کسی کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے… کیا نہیں؟
سلویا نے کچھ سوچتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا:ہاں یہ ممکن ہے۔
جنیفرنے سوالیہ لہجے میں کہا:تو پھر؟ کہاں کا مستقبل،کیسی منصوبہ بندی،بس لمحہ موجود ہی ہماری دست رس میں ہے۔
سلویانے اس کے منطقی انداز کلام میں بہتے ہوئے ڈوبی ہوئی آواز میں کہا: جینیفر!میرے اندر روشن دیا چاند کی طرح دمک اٹھا ہے۔
وہ مسکرا کے اٹھا اورقریب آکر بولا:تو مجھے اپنے حسین ہونٹوں پر محبت کی پہلی مہر ثبت کرنے کی اجازت دو۔
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔
“