ہم اپنی زندگی کا آغاز ایک خلیے سے کرتے ہیں جو ایک سے دو، دو سے چار، چار سے آٹھ اور تقسیم در تقسیم ہوتا ہوا دو لاکھ کھرب خلیوں تک جا پہنچتا ہے۔ ہر خلیہ ہزار ہا دفعہ تقسیم ہوا ہے۔ تقسیم کا یہ عمل پوری عمر جاری رہنتا ہے۔ جس وقت میں آپ یہ پوسٹ پڑھ رہے ہیں، اس دوران بھی یہ تقسیم کا عمل آپ کے اندر مسلسل جاری ہے۔ بوڑھے خلیے ریٹائر ہو رہے ہیں اور نئے ان کی جگہ لے رہے ہیں۔ اس دوران زندگی کی پورے پروگرام یعنی ڈی این اے نے کاپی ہونا ہے اور اس زمین پر زندگی کے پورے نظام کے پیچھے یہ کاپی ہونے کا طریقہ ہے۔
اس میں ایک مسئلہ ہے اور وہ زندگی کی ایک حقیقت ہے۔ ہر بار جب خلیہ تقسیم ہو گا، ڈی این اے اپنے سرے سے کچھ چھوٹا ہو جائے گا۔ یہ ٹیلیومیئر ڈی این اے ہے۔ جس طرح تسمے کے آخر میں ایک کیپ چڑھی ہے، یہ ویسا ہی ہے۔ کروموزوم کو رگڑ سے بچاتا ہے۔ جب یہ بہت چھوٹا ہو جاتا ہے تو پھر یہ گر جاتا ہے اور یہ خلیے کہ لئے ایک سگنل ہے کہ بس اب کہانی ختم۔ اب یہ مزید تقسیم نہیں ہو گا اور پھر رفتہ رفتہ مرتے خلیے ہمارا بڑھاپا ہے۔ بالوں کی سفیدی، چہرے کی جھریاں، دفاعی نظام میں ہوتی کمزوری اور اس کے علاوہ کئی اور بیماریوں کا راز اسی میں ہے۔
لیکن یہ کہانی ابھی مکمل نہیں۔ ایک اینزائم ہے ٹیلومریز۔ یہ انزائم اس ٹیلومئیر کی مرمت کرتی ہے اور ہمیں زیادہ عرصے تک جوان رکھتی ہے۔ اس نظر سے دیکھا جائے تو سدا جوانی کا راز بڑا آسان ہے۔ ٹیلومیریز کی بڑی بوتل پی لیں اور بوڑھے نہیں ہوں گے۔
لیکن نہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ انسانی جینیات سے ہمیں پتہ لگتا ہے کہ ہماری زندگی ایک بڑے ہی باریک توازن میں ہے۔ اگر ٹیلومیریز تھوڑا سا بھی زیادہ ہو جائے تو کچھ خطرناک کینسر بننے کا خطرہ زیادہ ہو جاتا ہے۔ (کچھ مشکوک اشتہارات اگر ٹیلومیریز کی بنیاد پر زندگی بڑھانے کے نام پر چلتے ہیں، انہیں دیکھیں تو سمجھ جائیں کہ جوانی کی خواہش کے نام پر آپ کو دھوکہ دیا جا رہا ہے)۔
اس پسِ منظر کے بعد اب دیکھتے ہیں اس کہانی کے اصل باب کو۔ کیا ہمیں ٹیلومئیر کی لمبائی پر کسی قسم کا کنٹرول ہے؟
اس پر سب سے پہلے ان ماؤں کو سٹڈی کیا گیا جن کے بچے ایبنارمل تھے۔ ان کے گراف سے پتہ لگا کہ زندگی کی مشکلات سے اس کی لمبائی پر فرق پڑتا ہے اور زیادہ عرصے تک سٹریس میں رہنے کا مطلب جلد آنے والا بڑھاپا ہے لیکن اسی تحقیق میں ایک امید بھی چھپی تھی۔ ان ماؤں میں سے ایک گروپ ایسا تھا جس پر اس کا کچھ اثر نہیں تھا۔ اس گروپ کے تجزئے سے ہمیں بڑی اہم معلومات یہ ملی کہ زندگی کے بارے میں اپنی سوچ سے اپنی خلیوں میں ہونے والے پراسس پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔
اس دریافت کے بعد اب دس ہزار سے زیادہ سائنسی پیپر ٹیلومئیرز کی لمبائی پر کی جانے والی تحقیق پر لکھے جا چکے ہیں اور وہ اب ہمیں بڑا واضح جواب دیتے ہیں کہ ہاں، ٹیلومئیر کی لمبائی پر ہمارا کنٹرول ہے اور بیرونی عوامل سے زیادہ اس میں اندرونی عوامل کا ہاتھ ہے اور زندگی کے لئے منفی سوچ سے زیادہ نقصان دہ کچھ اور نہیں۔ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، لاس اینجلس میں ان لوگوں کی سٹڈی کی گئی جو کسی مشکل مریض کا خیال رکھتے ہیں۔ ٹیلیومئیر برقرار رکھنے میں جس عمل نے سب سے زیادہ ان لوگوں کی مدد کی، وہ یہ تھا کہ اگلے دو ماہ روزانہ بارہ منٹ کے لئے مراقبہ کیا جائے۔
ایسا ہے کیوں؟ فرض کیجئے۔ آپ کی عادت منفی سوچ رکھنے کی ہے۔ آپ کے دفتر میں اچانک آپ کا باس آپ کو کمرے میں بلاتا ہے۔ آپ کے ذہن میں فوری خیال آتا ہے کہ شاید یہ مجھے نوکری سے نکالنے لگا ہے۔ اس سے تیار ہونے کے لئے آپ کی شریانیں سکڑ جائیں گی۔ کارٹیزول کا لیول جسم میں بڑھ جائے گا اور اس کا زیادہ دیر تک بڑھا لیول ٹیلومئیر پر برا اثر مرتب کرے گی۔
اگر آپ اسی چیز کو مثبت لیتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ شاید مجھے کوئی نیا کام ملنے والا ہے تو اس کے جوش میں خون تیزی سے پمپ ہو گا اور دماغ تک پہنچے گا۔ کورٹیزول کا لیول اوپر جائے گا لیکن ایک سپائک کی شکل میں اور اس کا آپ کے ٹیلومئیر پر کوئی اثر نہیں۔
انفرادی اثر سے آگے جب ہم اس کو سماجی طور پر دیکھتے ہیں تو ہمیں مزید چیزیں پتہ لگتی ہیں اور نکلنے والے نتائج حیرت انگیز ہیں۔ بچپن سے یہ اثرات شروع ہو جاتے ہیں۔ خوف کے سائے میں پلنے والے بچوں کے ٹیلومئیر پر برا اثر ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں اچھی کمیونیٹی، خوشگوار اور لمبی ازدواجی زندگی، پرانی اور لمبی دوستیاں یہ سب ٹیلومئیر برقرار رکھنے میں معاون ہیں۔
ٹیلومئیر کی سائنس ہمیں یہ بتاتی ہے کہ ہم سب کا ایک دوسرے پر کس قدر انحصار ہے۔ آپ جب دوسروں کی مشکلات میں مدد کر رہے ہیں، اپنے پر آنی والی مشکلات کا بغیر امید کا دامن ہاتھ سے چھوڑے مقابلہ کر رہے ہیں، مثبت سوچ رکتھے ہیں اور دوسروں میں مثبت سوچ کا فروغ کر رہے ہیں تو اس کا اثر آپ کی اور دوسروں کی بائیولوجی پر ہے۔ تو کیوں نہ ہم اپنے اور دوسروں کے ٹیلومئیر کی لمبائی برقرار رکھنے کی کوشش کریں؟
نوٹ: اس پوسٹ کا ماخذ الزبتھ بلیک برن کی پریزینٹیشن ہے۔ انہوں نے یہ اینزائم 1980 میں دریافت کی جس پر انہیں 2009 میں نوبل پرائز دیا گیا۔ ویڈیو نیچے دئے گئے لنک سے دیکھ لیں۔
https://www.ted.com/…/elizabeth_blackburn_the_s…/transcript…
طویل عمری کے اعداد و شمار پر کی گئی پوسٹ کے لئے
https://www.facebook.com/groups/ScienceKiDuniya/permalink/976042852564251/
طوالت کی وجہ سے دو ٹاپک چھوڑ دئے، ان میں سے ایک ٹیلومئیر اور ٹیلومیریز کا سسٹم ہے اور دوسرا کورٹیزول۔ ان پر پوسٹ پھر کبھی۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔