’’میں تمہارے ضلع میں ڈپٹی کمشنر رہا ہوں‘‘۔ عمر رسیدہ بیورو کریٹ کی آنکھوں میں چمک تھی۔
بیورو کریٹ ایک دن بھی ڈپٹی کمشنر رہا ہو، اس کا ذکر کرتے ہوئے آنکھوں میں چمک ضرور آتی ہے۔ شفیق الرحمن نے لکھا ہے کہ مصنف ایک بار بھی لندن گیا ہو تو اپنی کتاب کا دیباچہ جب بھی لکھے گا، لندن ہی سے لکھے گا۔
’’آپ کب ڈپٹی کمشنر رہے ہیں، ہمارے ضلع میں؟‘‘
’’بہت عرصہ پہلے۔ نوجوانی کا زمانہ تھا‘‘
’’پھر بھی کبھی جانا ہوا وہاں؟‘‘
’’نہیں، پھر کبھی نہ جانا ہوا‘‘۔
یہ ہے وہ نکتہ جو سمجھ میں آ جائے تو ’’ضلع ناظم‘‘ والی تبدیلی بھی سمجھی جا سکتی ہے! ایک نوجوان بیورو کریٹ کی اس ضلع کی فلاح و بہبود میں کتنی دلچسپی ہوسکتی ہے، جہاں اس کا بعد میں کبھی گزر نہیں ہوگا! وہ جتنا عرصہ رہے گا، اس باس کو خوش کرنے کی کوشش میں لگا رہے گا جو لاہور بیٹھا ہے یا پشاور یا کراچی۔ سالانہ رپورٹ اچھی مل گئی، دو یا تین سال کا عرصہ گزرا گیا، اللہ اللہ خیر سلا! جنرل پرویز مشرف پر بہت سے الزامات ہیں جن میں سے اکثر بجا ہیں مگر یہ جو اس نے ضلعی حکومتوں کا ڈول ڈالا تھا، یہ ایک قدم تھا جو درست سمت میں تھا! ضلع ناظم، جس پارٹی کا بھی تھا، اس نے اسی ضلع میں، اسی علاقہ میں رہنا تھا۔ اس کا جینا مرنا وہیں تھا۔ اس کے عزیز و اقارب وہیں رہتے تھے۔ اس نے وہیں سیاست کرنی تھی۔ ووٹ لینے تھے۔ اسے اپنی شہرت کا خیال رکھنا تھا۔
ضلعی حکومتوں کے قیام کی زد دو گروہوں پر پڑی۔ ایک نوکر شاہی کا وہ گروہ جس سے ڈپٹی کمشنری چھین لی گئی۔ دوسرا سیاست دانوں کا وہ گروہ جو صوبائی حکومتوں پر قابض تھا۔ ان دونوں کی ملی بھگت سے ضلع ناظم سسٹم کو قتل کیا گیا۔ نوکر شاہی دوبارہ سر یر آرائے تخت ہوگئی۔ پنجاب کا معاملہ تو یہ ہے کہ ہر شخص کو معلوم ہے۔ شاہی خاندان نوکرشاہی کے اس گروہ کے ہاتھوں میں یرغمال ہے جو ایک خاص گروہ، علاقے اور خاص برادری سے تعلق رکھتا ہے۔ ضلعی حکومتوں کے ختم ہونے سے ملک چار سو سال نہیںتو دو سوسال پیچھے ضرور چلاگیا!
پرسوں پنجاب کے بارہ اور سندھ کے آٹھ اضلاع میں بلدیاتی انتخابات ہوئے۔ سپریم کورٹ نے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر یہ انتخابات کروائے۔ سندھ کے آٹھ اضلاع کی بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ سارے شمالی اور شمال مشرقی سندھ میں واقع ہیں۔ گویا بلدیاتی انتخابات سندھ کے ایک کنارے سے شروع کیے گئے ہیں۔ مگر پنجاب کے بارہ اضلاع کس حساب سے چنے گئے؟ تھوڑا سا بھی غور کیا جائے تو ’’حکمت‘‘ سمجھ میں آ جاتی ہے! سات اضلاع وسطی پنجاب سے ! مغربی پنجاب سے صرف دو (بھکر اور چکوال) اور جنوبی پنجاب سے صرف تین (وہاڑی ، بہاولنگر اور لودھراں)! گمان غالب یہ ہے کہ جہاں جہاں جیت کے امکانات روشن تھے، وہاں وہاں اس سرگرمی کا انتظام کیا گیا!
مقامی حکومتوں کے انتخابات جمہوری نظام کی جڑ ہیں۔ وفاق اور صوبوں کی سطح پر جمہوریت کے جتنے بھی مظاہر ہوں، جمہوریت کے ثمرات عوام تک مقامی حکومتوں کے قیام کے بغیر نہیں پہنچ سکتے۔ کچھ حضرات کو یہ تشویش ہے کہ بلدیاتی انتخابات کے نتیجے میں جو مقامی حکومتیں وجود میں آئیں گی، ان کے اختیارات محدود ہوں گے۔ انہیں فنڈ قلیل مقدار میں دیئے جائیں گے، ٹیکس لگانے کی آزادی نہیں ہوگی، صوبائی دارالحکومت اپنی برتری کو قائم و دائم رکھنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔
بظاہر یہ خدشات درست ہیں، مگر یہاںایک نکتہ اور ہے جس پر غور کرنا ضروری ہے! ہمارے ہاں مقامی حکومتوں کے انتخابات میں تسلسل کا فقدان رہا ہے۔ اگر ضلعی حکومتوں کا گلا نہ گھونٹا جاتا تو اب تک معاملہ آگے بڑھ چکا ہوتا۔ لمحہ موجود میں زیادہ توجہ اس پہلو پر مرتکز کرنی چاہیے کہ بلدیاتی انتخابات باقی ماندہ اضلاع میں بھی جلد ازجلد منعقد کیے جائیں اور پھر مقامی حکومتوں کو کام کرنے کا موقع دیا جائے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ، ان حکومتوں کے قدم مضبوط تر ہوتے جائیں گے۔ اپوزیشن اپنی سرگرمیاں دکھائے گی۔ صوبائی حکومتوں پر دبائو پڑے گا۔ ووٹ لینے کے لئے اور اپنے آپ کو کامیاب ثابت کرنے کے لئے مقامی سیاستدان اقتدار میں آ کرسنجیدگی سے کام کریں گے۔ کارکردگی دکھانا پڑے گی! پھر وقت کے ساتھ ساتھ تجربہ حاصل ہوگا، روایات بنیں گی، عوام کی تربیت ہوگی! اور صوبائی حکومتیں اختیارات کی تقسیم پر مجبور ہو جائیں گی! وقت کے پہیے کو روکا نہیں جاسکتا! بلدیاتی انتخابات باقاعدگی سے ہوتے رہیں اور مقامی حکومتیں زندہ رہیں تو مشکلات حل اور راستے آسان تر ہوتے جائیں گے!
رہا اسلحہ کا استعمال، لڑائی جھگڑا ، قتل و غارت اور وزیروں کا پروٹوکول سمیت عمل دخل تو یہ برائیاں ہمارے سماج کا حصہ ہیں! یہ سب کچھ ایک دن یا ایک ماہ یا ایک برس میں ختم نہیں ہوگا۔ اس کے لئے بھی تربیت کا تسلسل درکار ہے۔ جس افراط سے اسلحہ ملک کے طول و عرض میں موجود ہے۔ اس کا مظاہرہ ایسے مواقع پر لامحالہ ہوگا! ہمارے ہاں شکست تسلیم کرنے کی روایت یوں بھی کمزور ہے، نیم خواندہ امیدوار کے پیچھے سینکڑوں مسلح حمایتی ہوں، پھر وہ علاقے کا چودھری بھی ہو تو شکست کیسے تسلیم کرے گا! انتخابات شفاف ہوں تب بھی تعلیم عام ہونے تک شکست تسلیم کرنے اور حریف کو مبارکباد دینے کا کلچر عام نہیں ہوگا! جدی پشتی نشستوں کا سلسلہ اس وقت منقطع ہوگا جب زرعی اصلاحات آئیں گی۔ بھارت نے یہ بھاری پتھر آزادی کے چار سال بعد ہی اٹھا لیا تھا۔ ہمارے ہاں، جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے، یہ انقلابی اقدام مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ بلوچستان، اندرون سندھ اور جنوبی پنجاب میں جمہوریت اپنی اصل روح کے ساتھ اس وقت جلوہ گر ہو گی جب ہاریوں اور مزارعوں کو بنیادی حقوق ملیں گے!
بلدیاتی انتخابات کا انعقاد خوش آیند ہے! مسائل ضرور ہیں، مشکلات بھی ہیں، مگر آغاز تو ہوا ہے! اگر تسلسل رہا اور طالع آزمائی آڑے نہ آئی تو ہماری بستیاں جمہوریت کی کرنوں میں ضرور نہائیں گی۔ ؎
دل ناامید تو نہیں، ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔