لالو کھیت سے لیاقت آباد تک
جب بھی پاکستان کے کامیاب ترین اسٹیج ڈراموں کی تاریخ لکھی جائے گی تو بے سروسامانی کے دورِ تخلیق اور پیشکش کے باوجود بے مثال مقبولیت اور بے پناہ کامیابی حاصل کرنے والے کھیلوں میں خواجہ معین الدین کے ڈرامے تعلیم بالغان، مرزا غالب بندر روڈ پہ اور لال قلعے سے لالوکھیت سرفہرست لکھے جائیں گے۔ لالوکھیت (جو اب لیاقت آباد سے موسوم ہے، اب بھی ذہنوں میں لالوکھیت ہی کے نام سے رچابسا ہے) ایسی بستی ہے جو سماجی، سیاسی اور ادبی لحاظ سے کراچی میں منفرد اور اہم رہی ہے۔ ابراہیم جلیس نے اس پہ اپنا مشہور کالم ”ہم بھی لالوکھیت میں اور تم بھی لالوکھیت میں“ لکھا تو کہا کہ کراچی میں فی مربع گز شاعر و ادیب سب سے زیادہ لالوکھیت میں رہتے ہیں۔
مزاحیہ اداکار عمرشریف نے لال قلعے کی رانی اور لالوکھیت کا راجہ نامی ڈرامہ تخلیق کیا، اور ویسے بھی ان کے اکثر ڈراموں اور مکالموں میں کہیں نہ کہیں کودتا پھاندتا، پتھراو کرتا لالوکھیت گھس ہی آتا ہی، کیوں کہ ان کی پرداخت بھی اسی علاقے میں ہوئی ہے۔ یہی وہ بستی ہے جو ہمیشہ سے جماعت اسلامی کے پروفیسر عبدالغفور احمد کا حلقہ انتخاب رہی اور وہ یہاں سے قومی اسمبلی کے لیے کامیاب ہوتے رہے۔ کبھی کراچی کے مضافات اور اب پھلتے پھولتے اور پھیلتے ہوئے شہر کے قلب میں آجانے والی یہ آبادی جو درمیانی، نچلے درمیانی اور غریبوں پہ مشتمل ہی، شہر کی علمی، ادبی، سیاسی اور کھیلوں میں نمایاں اور ممتاز نظر آنے والی شخصیات کی رہائش اور پرورش گاہ ہے۔ اس بستی کے جنوب اور مشرق میں گھومتی بل کھاتی لیاری ندی قدرتی حد بناتے ہوئے اسے پیرالٰہی بخش کالونی، نشتر روڈ اور گلشن اقبال سے جدا کرتی ہی، تو مغرب کی جانب گجرو نالہ جو راولپنڈی کے نالہ لئی جیسا ہی، وہ اسے ناظم آباد سے علیحدہ کرتا ہے، شمال میں ایک سڑک پار کرتے ہی فیڈرل بی ایریا شروع ہوجاتا ہے، لیکن سڑک کے اس پار بھی بھٹو دور کے لسانی ہنگاموں کے کشتگان کی قبروں پہ مشتمل شہید مینار اور فیڈرل کپیٹل ایریا لالوکھیت میں شامل ہیں۔
کہتے ہیں جب مولانا کوثر نیازی نے جماعت اسلامی چھوڑی تو کسی نے کہا تھا: کوئی جماعت سے نکل بھی جائے، پھر بھی جماعت اس کے اندر سے نہیں نکلتی۔ اسی طرح کوئی لالوکھیت سے نکل کر کہیں بھی گیا لالوکھیت اس کے اندر سے نہیں نکلا۔ تین ہٹی کے پل سے آنے والی سڑک اسے شرقاً غرباً دو برابر کے حصوں میں تقسیم کرتی ہے تو ناظم آباد سے گجرو نالہ کے اوپر سے آتی ہوئی شارع اسے شمالی جنوبی دو حصوں میں بانٹتی ہوئی گزرتی ہے۔ شمالی حصہ جو ناظم آباد ختم ہوتے ہی گجرو نالہ سے شروع ہوتا ہے تو لیاری ندی تک گلشن اقبال کی حدوں کو چھوتا ہے، اس کے آغاز ہی میں گورنمنٹ سیکنڈری اسکول ہے جو کسی زمانے میں یہاں کا اکلوتا گورنمنٹ سیکنڈری اسکول تھا۔ اسی کے تنگنائے میں قومی ہاکی ٹیم کے سابق کپتان اصلاح الدین کھیل کر اولمپین بنے اور اسی اسکول کی ہاکی ٹیم سے قومی ٹیم تک کا سفر طے کیا۔ یہاں سے ذرا آگے ہی عالمی شہرت یافتہ قوال حاجی غلام فرید صابری مرحوم کی رہائش گاہ آجاتی ہے۔ اسکول کے ساتھ ہی سنیوں کی مسجد اور اس کے مقابل شیعوں کی امام بارگاہ ہے جو اچھے وقتوں کی یگانگت اور بھائی چارے کی علامت ہیں۔ بائیں طرف جاتی سڑک ملباری پان والے کی دکان کے پہلو سے ہوتی فیڈرل کیپٹل ایریا کی طرف چلی جاتی ہے۔ مسجد کے ساتھ سے جو سڑک مرکزی امام بارگاہ، ایرانی ریسٹورنٹ اور فرنیچر مارکیٹ کی طرف رخ کیے ہوئے ہے، اسی سڑک پہ ذرا اور آگے بڑھ جائیں تو شاہجہاں پوریوں کا محلہ ہے، اسی محلے میں ایم کیو ایم کے عامر خان کا گھر ہے جنہوں نے حال ہی میں ایم کیو ایم حقیقی کو خیرباد کہہ کر ایک بار پھر پیر صاحب (الطاف حسین اپنے حلقے میں اسی نام سے پکارے جاتے ہیں) کے حلقہ ارادت میں شمولیت اختیار کرلی ہے۔
یہاں سے قدم بہ قدم چلتے جائیں تو مسجد بلال ہے جس کے ساتھ والی گلی میں کبھی وفاقی شرعی عدالت کے جج مفتی شجاعت علی قادری اور مولانا سعادت علی قادری کا قیام ہوا کرتا تھا اور ساتھ ہی ایم کیو ایم کے چیئرمین عظیم احمد طارق رہتے تھے۔ یہیں مرکزی امام بارگاہ سے متصل اس زمانے کا لالوکھیت کا ایک ہی سلیقے کا ریستوران کیفے دولت تھا جہاں عام دنوں میں ادبی اور سیاسی شخصیات چائے کی پیالی میں طوفان اٹھاتی تھیں اور ایام عزا میں اہلِ تشیع کے سیاہ پوش عزاداران قابض ہوتے تھے۔ لالوکھیت کے اسی حصے میں وہ سپر مارکیٹ ہے جو بھٹو دور کے لسانی ہنگاموں میں جل جانے کے بعد بھٹو صاحب نے بنواکر دی تھی، اور جب وہ اس کے افتتاح کے لیے آئے تو لوگوں نے پاوں کی زینت ہاتھوں میں لے کر فضا میں اچھالنی شروع کردی تو معاملہ فہم اور عوامی مزاج کو سمجھنے والے اس ذہین لیڈر نے کہا ”مجھے پتا ہے جوتے مہنگے ہوگئے ہیں“۔
اسی سپر مارکیٹ کے پیچھے کالم نگار، عالم اور سیاسی لیڈر حافظ بشیر احمد غازی آبادی کا مسکن، ساتھ میں سید علی کوثر کی عوامی بیٹھک اور ایوب خان کی مسلم لیگ کا دفتر تھا، جہاں رات گئے تک محفل جمتی تھی۔ پھر ایوب مخالف تحریک میں لوگوں نے علی کوثر کا گھر اور مسلم لیگ کا دفتر پھونک ڈالا۔ علی کوثر جگت چچا تھے۔ان کی محفل میں قاری ظاہرالقاسمی، غازی انعام نبی پردیسی، حافظ بشیر غازی آبادی اور اس وقت کی بہت سی ممتاز شخصیات کی روز کی شرکت معمول تھا۔ سپر مارکیٹ کے سامنے سے سڑک پار کرتے ہی پیٹرول پمپ اور اس کے سامنے لالوکھیت کا مکان نمبر ایک ہے جس کے مکین ماسٹر تاج الدین کبھی لیاقت علی خان کے اسٹاف میں تھے اور ان کا دعویٰ ہے کہ اس گھر کا سنگ بنیاد لیاقت علی خان نے رکھا تھا۔ یہاں سے سیدھے چلیں تو مشہور نباض حکیم مرسلین کا مطب ہے جس کے آس پاس ہی یاور علی، واجد علی المعروف بہ مٹکے والے قوال اور سامنے کے حصے میں قوس بناتی ہوئی گلی میں اصلاح الدین اور ہاکی کے ایک دوسرے اولمپک کھلاڑی عارف بھوپالی کا گھر تھا۔
وہیں طیبہ مسجد کے سامنے تاریخ سندھ کے مصنف نادرِ روزگار شخصیت اعجازالحق قدوسی نے اپنی تحقیقی اور
علمی زندگی گزاری اور وہیں آخری سانس لے کر رخصت ہوگئے۔ روزانہ شام ڈھلے جب پشت پہ ہاتھ باندھے سفید کرتے پاجامے میں ملبوس یہ باریش عالم ٹہلتا تھا تو کوئی اسے ذرا بھی اہمیت نہ دیتا، لیکن یہ وہ لوگ تھے جو مقصد کی دھن میں مگن اپنے کام میں لگے رہتے۔ ”نہ ستائش کی تمنا، نہ صلے کی پروا“۔ یہیں ایک طرف نوابزادہ نصراللہ کی پاکستان جمہوری پارٹی کے اس وقت کراچی کے صدر ڈاکٹر امیر احمد جو بعد میں مختصر مدت کے لیے صوبائی وزیر تعمیرات بھی رہے۔ ان کا کلینک جو مریضوں سے پر رہتا تھا، رفتہ رفتہ سیاست کی نذر ہوکر ایسا اجڑا کہ پھر نہ بس سکا۔ قلندر صفت مرنجاں مرنج ڈاکٹر سے یہ بھاری پتھر زیادہ دیر نہ اٹھایا گیا اور اس خانہ خراب سیاست سے کنارہ کش ہوگئی، لیکن ٹھرک کہاں جاتی ہے وہ لاکھ کہیں ”گوشے میں قفس کے مجھے آرام بہت ہے“ دلچسپی کا میدان سیاست ہی ہے چاہے فکری اور زبانی ہی کیوں نہ ہو۔ اب تو وہ اپنی ڈاکٹر بیوی کے انتقال کے بعد شاعر بھی ہوگئے ہیں۔
وہیں ذرا آگے نرسری کے سامنے بہار کوٹی کی محفلِ شعر و سخن روز کا معمول تھا۔ شام ہوتے ہی کھلے قطعہ میں چھڑکاو کے بعد کرسیاں لگ جاتیں اور شعرا کی آمد شروع ہوجاتی۔ اسی اجڑے دیار میں مسجد فاروق اعظم کے سامنے سے گزرنے والی پتلی سی سڑک جو قاسم آباد پر ختم ہوتی ہی، کے شروع ہی میں جمعیت العلماءپاکستان کراچی کے جنرل سیکریٹری جواں مرگ سید ارشاد علی کا گھر تھا۔ اسی راستے پہ چلتے جائیں تو اس کے ایک جانب ہاکی کے اولمپک کھلاڑی سید شاہد علی اور جماعت اسلامی شعبہ خواتین کی رہنما صبیحہ شاہد علی، پروفیسر نثار، غزل کے گلوکار سید آصف علی جو پہلے نعت خوان تھی، کے مکانات تھے۔ آگے وہ محلہ ہے جس میں تحریک استقلال کے محفوظ یار خان، نیشنل عوامی پارٹی کے رہنما علاءالدین عباسی اور روزنامہ حریت کے ایڈیٹر جن کا نام ذہن سے نکل گیا، اور ساتھ ہی مشہور شاعر جاذب قریشی، جاسوسی ناول نگار ایچ اقبال اور عمرشریف کی رہائش گاہ تھی۔
تب بقول اطہر شاہ خان عرف جیدی، آنہ لائبریریاں ہوا کرتی تھیں اور ان کا کاروبار زوروں پر تھا۔ کتابیں گو سستی تھیں لیکن خریدنے کی استطاعت پھر بھی نہ تھی، ان حالات میں ایک آنہ روز کرائے پر کتابیں دینے والی یہ لائبریریاں اہلِ ذوق کی تسکین کا بڑا سہارا تھیں۔ اب تو یہ ہے کہ ”تسکیں کو ہم نہ روئیں جو ذوق نظر ملے“۔ یہیں قمر بھائی کی قمر لائبریری پر
سید شاہد علی اولمپین، غزل سنگر آصف علی اور کتنے ہی لوگوں سے ملاقات ہوجاتی تھی۔ ان شخصیات کا ذکر اور لالوکھیت کی مزید باتیں ان شاءاللہ آئندہ، کیوں کہ ”کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیاں کے لیے“۔ لیاقت آباد یا لالوکھیت جو کبھی کراچی کی سیاسی زندگی کا اعصابی مرکز ہوا کرتا تھا وہ آج بھی کسی ہنگامہ آرائی میں ”وحشت نہ گئی اپنے جنوں کی“ کی تصویر بن جاتا ہے۔
جہاں ڈاک خانہ اور لیاقت آباد تھانہ سے لے کر الاعظم اسکوائر کی حد تک اس کی کپڑا مارکیٹ اور خور ونوش کی اشیاءکی تھوک مارکیٹ بہت بڑا تجارتی اور کاروباری مرکز ہے، وہیں ڈاک خانہ کی چورنگی کے اطراف کباب اور نہاری سے لے کر مچھلی اور ربڑی تک لذتِ کام و دہن کے لیے سب کچھ دستیاب ہے۔ غروب آفتاب کے بعد یہاں کبابوں کی خوشبو اور کٹاکٹ کا شور نہ چاہتے ہوئے بھی قدموں کو روک لیتا ہے۔ یہیں نایاب جامع مسجد کے پہلو میں وہ ریسٹورنٹ ہے جس کی ایک میز کے ساتھ دیوار پر چھوٹے صالح محمد قوال اور دوسری پر حاجی غلام فرید صابری کے وہاں ملنے اور سریرآرائے محفل ہونے کے اوقات درج تھے۔ سرپھروں اور آشفتہ سروں کی اس بستی کا نصف ثانی یا جنوبی حصہ فردوس کالونی کے پار سے شروع ہوتا ہے جہاں لیاقت آباد کا وہ شہر خموشاں ہے جس میں جانے کتنے گنج ہائے گراں مایہ آسودہ خاک ہیں اور جہاں کی بے ترتیب قبروں کی آغوش میں کتنے ہی نامور نام و نمود سے بے نیاز ابدی نیند سورہے ہیں۔ ان میں کتنے ہی اپنی فانی زندگی میں سنگ بدست رہے ہوں گے اور کتنے ہی نشانہ سنگ۔
یہیں سڑک کے ساتھ عامل لیاقت منجم اور ان کے ماہنامہ آئینہ قسمت کا دفتر اور انجمن ذوالفقار حیدری ہوا کرتی تھی جس کے نوحہ خواں محمد علی عرف سچے اہلِ تشیع میں بے حد مقبول تھے اور ابھی سال بھر پہلے امریکا میں انتقال ہوا جب کہ جعفر طیار سوسائٹی میں ان کی تدفین ہوئی۔ یہیں لالوکھیت کا اولین رفاعی ہسپتال تھا جو انجمن پنجابی سوداگران دہلی نے قائم کیا تھا، جس کے برابر میں حبیب بینک اور بعد میں بینک آف عمان دبئی میں منیجر ہونے والے باغ و بہار توقیر احمد جعفری رہتے تھے۔ اس حصے میں، جو اے ایریا سے شروع ہوکر سی ون ایریا پہ سندھی ہوٹل کے آخری بس اسٹاپ اور مشرقی سرحد پہ تمام ہوتا ہے کبھی جاسوسی ناولوں کے مشہور مصنف ابن صفی کا گھر اور ان کی کتابوں کا اولین اشاعت خانہ تھا۔ قبرستان سے ذرا آگے اثناءعشری مسجد کے ساتھ ہی اپنے زمانے کے مشہور اور ایوب دور کے کراچی بدر طالب علم لیڈر علی مختار رضوی رہتے تھے جن کا گھر طلبہ سیاست اور گہماگہمی کے لیے اس بستی میں معروف تھا۔ ان کے پہلو ہی میں لب ِسڑک نیشنل بینک کے ملازمین کی انجمن کے بانی اور مدت تک بے تاج بادشاہ اسلام حسین جو بائیں بازو کے مستند مزدور لیڈر اور دانشور تھی، کا گھر تھا۔ یہیں سے سڑک پار کرتے ہی انگارہ گوٹھ میں سرور سنبھلی دن بھر فکرِ سخن میں ڈوبے رہتے اور شام ڈھلے کیفے حیات کی راہ لیتے جہاں رات گئے تک شعراءاور صحافی حضرات کے آنے جانے کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔
اثناءعشری مسجد کے مقابل دوسری جانب استاد قمر جلالوی کا مسکن تھا جن کے بغیر شہر کی ہر محفلِ مشاعرہ پھیکی سی لگتی تھی۔ پھر ایک دن انہوں نے چپکے سے آنکھیں موند لیں تو اسی سڑک پہ آغا مرتضیٰ پویا کے والد نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی جس میں علامہ رشید ترابی اور بہت سے شعرا نے شرکت کی۔ جہاں استاد قمر جلالوی اپنی دل گداز غزلیں اور رقت آمیز مرثیے تخلیق کررہے ہوتے تھی، وہیں ان کے گھر کے ساتھ والی گلی میں محمود احمد عباسی اپنی 35 سالہ تحقیق کا نچوڑ انتہائی متنازع کتاب ’خلافت یزید و معاویہ‘ تصنیف کررہے تھے جو آج بھی وجہ
¿ نزع و فساد ہے اور جس کے جواب میں مولانا مودودیؒ کو ’خلافت یزید و معاویہ‘ لکھنی پڑی جس نے ایک اور بحث چھیڑ دی۔ محمود احمد عباسی کی محمود اکیڈمی سے لالوکھیت تھانے کی طرف چلیں تو آخری کونے کے سرے پر کیفے حیات تھا جو اپنی وسعت کے لحاظ سے منفرد تھا اور جس کے طویل ہال میں غروب آفتاب کے بعد سے پو پھٹے تک شاعروں اور صحافیوں کے آنے جانے اور بحث و تکرار کا سلسلہ چلتا رہتا تھا۔
جناب سرور سنبھلی کی میز سب سے زیادہ آباد رہتی جہاں محمد نیاز، کرّار نوری، انوار عزم، نازش حیدری، عارف سنبھلی، نقاش کاظمی، عشرت انجم اور اشرف شاد نظر آتے تھے۔ ان دنوں دو آنے کی چائے ملتی تھی اور سرور سنبھلی ریٹائرڈ پولیس انسپکٹر، زیادہ تر یہ بوجھ ان ہی کی جیب ہلکی کرتا تھا۔ یہ بے فکروں کی محفل تھی، جب کہ اس کے قریب ہی بہار کوٹی مرحوم کی محفل مختصر اور قلیل وقت کے لیے ہوتی، نصف شب سے پہلے بساط لپیٹ دی جاتی۔ وہ انتہائی نفیس انسان تھے اور ان کی محفل میں مہمانوں کی خدمت اور تواضع ان کے نواسے سیف الاسلام کوٹی کے سپرد تھی جو اب کراچی کی کسی فرم میں آرٹ ڈائریکٹر ہیں۔
یہاں سے مزید آگے سندھی ہوٹل کی طرف چلیں تو جامعہ کراچی کے نام نہاد تھنڈر اسکواڈ والے مرد شریف قیصر خان اور سید ضامن علی شہید جیسے دلیر اور بے لوث انسان رہتے تھے جنہوں نے اپنے گھر میں طلبہ کے لیے مفت کوچنگ سینٹر اور جمنازیم بنا رکھا تھا۔ سابق مسٹر پاکستان خورشید حسن خان اس جمنازیم کی رونق تھے۔ یہاں سے چلیں تو بلوچوں کی مختصر سی بستی ناگمان ولیج کے ساتھ ہی مسجد اقصیٰ کے قریب ہاکی کے اولمپین کھلاڑی حنیف خان کا گھر تھا جس کے آزو بازو جماعت اسلامی کے رشید بلوچ، ہمارے اسکول کے کیمسٹری کے استاد آل حسن بھی رہتے تھی، اور ذرا فاصلے پر پیپلز پارٹی کے ستار ولی اور پھر محمود احمد مدنی کے چچا کا گھر تھا۔ نیاز احمد مدنی اپنی دلچسپ باتوں اور سماجی سرگرمیوں کی وجہ سے جمعیت کے کارکنوں میں کافی مقبول تھے۔ وہیں سامنے وہ ٹمبر مارکیٹ ہے جہاں بھٹو صاحب کے خلاف تحریک کے زمانے میں پیپلزپارٹی کے ایک کارکن اللہ بندے نے ہجوم پر فائرنگ کی، جواباً مشتعل ہجوم نے اس کے گھر کو آگ لگادی اور اسے ہلاک کرکے لاش چوراہے پہ کھمبے سے لٹکا دی تھی۔ پھر مدتوں یہ ایک محاورہ بنارہا کہ کسی کو دھمکی دینی ہوتی تو کہا جاتا ”اللہ بندے بننا ہے کیا تجھے بھی!“
وہیں حکیم شہزاد احمد کا مطب تھا جو شاید سن پچاس کی دہائی سے قائم و دائم ہے۔ طویل قامت، جناح کیپ لگائے اور گھنی مونچھوں کے نیچے دلکش مسکراہٹ حکیم صاحب کی شناخت تھی۔ ان کے مطب کے ساتھ ہی پیاسی کے کلیم اللہ اور ان کے بھائی فہیم اللہ اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ ملتے تھے۔ اسی لالوکھیت میں کراچی کی مزدور انجمنوں کے بیشتر رہنما رہائش پذیر تھے اور شہر کی سیاسی و سماجی زندگی میں ہلچل یہیں سے شروع ہوتی تھی۔ جب میر تقی میر دہلی سے لکھنو پہنچے تو اپنا تعارف یوں کرایا تھا:
کیا بود و باش پوچھو ہو پورب کے ساکنو!
ہم کو غریب جان کی، ہنس ہنس پکار کی
دلّی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کی
اس کو فلک نے لوٹ کے ویرانہ کردیا
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کی
آغا شورش کاشمیری مرحوم کہا کرتے تھے: تعلیم بڑھ رہی ہے، علم گھٹ رہا ہے۔ سو لالوکھیت کی آبادی بڑھ گئی، پھیلاو زیادہ ہوگیا، مگر وہ لوگ نہ رہے جو اس کی شان اور پہچان تھی، کچھ مرگئے کچھ وہاں سے نکل گئے، لیکن جو وہاں سے نکل گئے لالوکھیت ان میں سے نہیں نکل سکا۔
مضمون بشکریہ
مظفر الحق
وہیں حکیم شہزاد احمد کا مطب تھا جو شاید سن پچاس کی دہائی سے قائم و دائم ہے۔ طویل قامت، جناح کیپ لگائے اور گھنی مونچھوں کے نیچے دلکش مسکراہٹ حکیم صاحب کی شناخت تھی۔ ان کے مطب کے ساتھ ہی پیاسی کے کلیم اللہ اور ان کے بھائی فہیم اللہ اپنی مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ ملتے تھے۔ اسی لالوکھیت میں کراچی کی مزدور انجمنوں کے بیشتر رہنما رہائش پذیر تھے اور شہر کی سیاسی و سماجی زندگی میں ہلچل یہیں سے شروع ہوتی تھی۔ جب میر تقی میر دہلی سے لکھنو پہنچے تو اپنا تعارف یوں کرایا تھا:
کیا بود و باش پوچھو ہو پورب کے ساکنو!
ہم کو غریب جان کی، ہنس ہنس پکار کی
دلّی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کی
اس کو فلک نے لوٹ کے ویرانہ کردیا
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کی
آغا شورش کاشمیری مرحوم کہا کرتے تھے: تعلیم بڑھ رہی ہے، علم گھٹ رہا ہے۔ سو لالوکھیت کی آبادی بڑھ گئی، پھیلاو زیادہ ہوگیا، مگر وہ لوگ نہ رہے جو اس کی شان اور پہچان تھی، کچھ مرگئے کچھ وہاں سے نکل گئے، لیکن جو وہاں سے نکل گئے لالوکھیت ان میں سے نہیں نکل سکا۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“