گھر کے باہر لٹو کھیلتے کھیلتے للّو کی لڑائی ہو گئی اُس سے بڑی عمر کے ایک لڑکے سے۔ لڑکے نے کھیل میں چیٹنگ کی تھی اور للو کے لٹو کو اپنے لٹو سے خوب مارا۔ للو کو اپنے لٹو کی پٹائی ذرا پسند نہیں آئی اور نتیجے میں اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، بس اُس بڑے لڑکے کو ہی ایک گھونسا رسید کر دیا۔
للو کے بھائی بلّو نے منظر دیکھا تو وہ بھی میدانِ جنگ میں ٹوٹ پڑا۔ پھر دونوں بچوں نے مل کر اُس بڑے لڑکے کو دو تین اور گھونسے رسید کر دیۓ۔ اور جب وہ لڑکا گر کے دھول میں لت پت ہو گیا تو یہ دونوں اپنے لٹو لے کے بھاگے اور بجائے اپنے گھر کے سیدھا پڑوس میں اپنی نانی کے ہاں پہنچ گئے۔ اُنہیں پتہ تھا کہ اب اُس لڑکے کی ماں شکایت لے کے ان کے یہاں پہنچے گی اور پھر امی کے ہاتھوں شامت آنے سے کوئی روک نہیں سکتا، دادی بھی نہیں، چھوٹے چاچو بھی نہیں، یہاں تک کہ ابّا بھی نہیں۔
خیر، شامت تو نہیں آپائی کیونکہ اُس بڑے لڑکے نے چھوٹے بچوں کے ہاتھوں پٹ جانے کی شرمندگی سے اپنے گھر میں کوئی شکایت نہیں کی۔ مگر معاملہ یہاں ختم نہیں ہوا کیوں کہ چھوٹے چاچو اپنی بارہویں کلاس کی پڑھائی کرتے کرتے دونوں بھتیجوں پر کھڑکی سے نظر رکھے ہوئے تھے اور ساری واردات کے چشم دید گواہ ہو چکے تھے۔ بچوں کو نانی کے گھر بھاگتے دیکھ کے انھوں نے اطمینان کا سانس لیا اور کتابیں رکھ کے باورچی خانے کی طرف چلے آئے جہاں بھابھی اور دادی افطار کی تیاری کر رہی تھیں۔ کل سے امّاں کہہ رہی تھیں کہ مُروڈ ہاپوس آم کا ایک ڈبہ بھابھی کی ماں کے گھر دے آؤ مگر یہ پڑھائی کا بہانہ کر رہے تھے۔ اب اماں سے کہہ کے چاچو نے ڈبہ اٹھایا اور چل پڑے للو اور بلّو کی نانی کے گھر۔
اُنکے ہاں سلام دعا کے بعد آم کا ڈبہ دیا اور دونوں بچوں کے کالر پکڑ کے دوسرے کمرے میں لے آئے۔
"ہاں، اب بتاؤ کیا کر آئے ہو؟ گلی میں غنڈہ گردی کر رہے ہو؟ سب دیکھا ہے میں نے۔"
للو بلّو روہانسے ہو گئے۔ امی ابّو کی ڈانٹ کے ڈر سے چاچو سے لپٹ گئے۔ للو نے کہا، "چاچو بچا لو ہمیں۔" بلو نے کہا، "شروع اُس لڑکے نے کیا تھا۔ غلطی اُسکی تھی۔"
چاچو بولے، "غلطی کسی کی بھی ہو، دُوسروں کی غلطی سے اپنی غلطی صحیح نہیں ہو جاتی۔ چلو اب اسکی سزا بھگتنے کو تیار ہو؟"
بلو نے کہا، "کیسے؟"
چاچو نے کہا، "جیسا میں بتاتا ہوں ویسا کرنا ہوگا۔ پہلے تو گھر چلو۔"
گھر پہنچ کے چاچو نے کہا، "سزا یہ ہے کہ تمہیں اس لڑکے سے معافی مانگنی ہوگی۔ کیسے ہوگی میں بتاتا ہُوں۔ پہلے تو دادی سے کہہ کر ایک رکابی میں افطاری کا سامان جمع کرو۔ کہنا کہ پڑوس میں اپنے دوست کے یہاں دینا ہے۔"
پھر اُنہوں نے اُن سے بہت ساری باتیں کی اور بتایا کہ اپنی غلطی مان کے معافی کیسے مانگی جائے۔
کُچھ دیر میں بچوں نے دادی کو منا کے رکابی بھر کے پھل، سموسے، بھجیا اور ساتھ میں آم اور اناناس کے شربت لے لائے۔ اُسے اچھے خوبصورت سے ایک کپڑے سے ڈھانکا اور لے چلے اُس بڑے لڑکے کے گھر۔
چاچو اُنہیں ہدایتیں دیئے جا رہے تھے کہ کیا کیا کہنا ہے۔ وہاں پہنچے تو وہ لڑکا اُنہیں چاچو کے ساتھ آتا دیکھ خود ہی ڈر گیا۔ مگر للو نے جلدی سے اُس لڑکے کے ہاتھ میں رکابی تھما دی اور بولا، "یہ افطاری ہے ہماری طرف سے تمہارے لیے۔ ساتھ میں یہ بھی کہنا ہے کہ میں اپنی اُس حرکت کے لیے شرمندہ ہُوں۔ مُجھے معاف کر دینا۔"
لڑکا حیرت سے اُسے دیکھنے لگا۔ بلّو نے کہا، "میں بھی بہت شرمندہ ہوں۔ معاف کر دینا۔ چاچو نے بتایا ہے کہ اپنی غلطی مان کے معافی مانگ لینے میں کوئی شرمندگی نہیں۔"
لڑکے نے رکابی لے لی اور پیچھے کھڑی حیرت سے بچوں کو دیکھتی اپنی ماں کو دے دی۔ ماں نے لڑکے کے کان میں کچھ کہا۔ لڑکے نے ہاتھ بڑھا کر بلّو سے ہاتھ ملایا پھر للو سے ہاتھ ملاتے وقت بولا، "چلو معاف کیا اور سب بھول جاتے ہیں۔ اب کھیل میں ہم لڑائی جھگڑا نہیں کرینگے۔"
دونوں بچے ایک ساتھ بولے، "نہیں کریں گے۔"
لڑکے کی ماں نے تینوں بچوں کو گلے لگا لیا اور مسکراتے ہوۓ چاچو سے کہا، "شکریہ بیٹا۔"
واپس ہوتے وقت للو بولا، "مُجھے ایسا لگتا ہے میں بہت ہلکا پھلکا ہو گیا ہوں۔"
بلو بولا، "مُجھے اتنا اچھا لگ رہا ہے کہ اب تو میں اُڑ سکتا ہوں۔"
پھر دونوں بچے ہاتھ پھیلا کے لہراتے ہوئے اپنے گھر کی طرف دوڑ پڑے۔***