7 جولائی 1999
ـــ
گلگت سےکچھ کچھ شمال کارُخ کریں اوردریائےگلگت کےساتھ ساتھ وہ سڑک پکڑ لیں جوسیدھی شندورنیشنل پارک کی اورچلتی چلی جاتی ہے، وہی جہاں شندور کاپولو میلہ سجتا ہے۔ تین گھنٹے کی مسافت پرجبکہ آپ گوپس میں ہوں تووہاں دریائےیاسین دریائےگلگت میں گرتا ہے۔
ویڈیو لنک
گوپس سے اگر آپ شندور کا راستہ چھوڑیں تو ایک روڈ دریائے یاسین کی قربت میں اسی نام کی وادی کے بل کھاتے راستوں پر چلتی ہندر نام کے گاؤں کو پہنچتی ہے۔ یہاں فلک بوس پہاڑوں کی چھاؤں میں بچھی ہریاول کے بیچ ایک عالی شان یادگار حوالدار لالک جان شہید، نشانِ حیدر کو یاد کرتی ہے۔
18 دسمبر 1998 کا ذکر ہے گلتری کی سرحدوں کی نگہبان 12 ناردرن لائٹ انفنٹری رجمنٹ کوایک گشت لائن آف کنٹرول کےپار بھیجنے کا حکم ملا۔ اس گشت میں کیپٹن علی اور ندیم کی قیادت میں حوالدار لالک جان بھی تھا۔ غذر کی یاسین وادی کا نشانِ حیدر، ہمارا شیردل لالک جان شہید تین دن تین راتوں پرمحیط یہ گشت ہمالیائی دسمبر کی بے مہر ہواؤں میں ایک اجنبی سرزمین کے برفاب ویرانے میں بغیر کسی روک ٹوک کےدندناتا پھرا اور واپسی پر یہ خبر لایا کہ کنٹرول لائن سےدس میل اندرتک ہندوستانی فوج کاکہیں پتہ نہیں تھا۔
صاحبویہ ان ہراول دستوں میں سے ایک تھا جن کی فراہم کردہ معلومات پر آپریشن کوہ پیما کی بنیاد رکھی جانی تھی۔
آپریشن کوہ پیما، جسکی خبر1999 کےمئی میں ہندوستان کوہوئی تو اس خطےمیں کارگل کی جنگ لڑی گئی۔
جولائی 99 کے پہلےہفتے کا ذکر ہے، تولولنگ کی چوٹیاں ہندوستانی قبضےمیں جاچکی تھیں اور جانی پہچانی ٹائیگرہِل کی جنگ زوروں پر تھی۔ تب قادر پوسٹ پر حوالدار لالک جان سمیت 22 جوان تعینات تھے۔
12 ناردرن لائٹ انفنٹری کی قادر پوسٹ نے 7 جولائی تک پے درپے ہندوستانی حملوں کو پسپا کرتےہوئے مادرِ وطن کو سولہ جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ 5 جولائی کو ایک شدید حملے کی لہر آئی تو دلیری سے لڑتا ہوا سپاہی بخمل جان کی بازی ہار گیا۔ اسے بعد از شہادت ستارۂ جرات سے سرفراز کیا گیا۔
سات جولائی کو کیپٹن احمد تازہ نفری اورگولہ بارودلےکرپہنچے تو ایک کٹی پھٹی پوسٹ پر ختم ہوتےایمونیشن اور راشن کے باوجود ایک مجروح لالک جان ابھی تک ثابت قدم تھا۔ اس کےجسم پرگولیوں کے زخم تھے مگر ان میں سے کوئی ابھی تک جان لیوا ثابت نہ ہوا تھا۔
ہمارےسپاہی نےپوسٹ پررک کرلڑائی جاری رکھنےکی درخواست کی۔
اسی دن شام کی دوری پرقادرپوسٹ کےآگےکی ڈھلوان پرایک ہندوستانی بنکرسےنمٹنےکوگولہ بارودلیے لالک جان سب سےآگے تھا۔ ایک سرعت کےعالم میں انجام دیئےاس حملےمیں بنکرتوناکارہ ہوگیامگر ہندوستانی گولیوں نےلالک جان کاسینہ چھلنی کر دیا
اگلے دنوں میں قادر پوسٹ خالی کرکے ہماری سپاہ پس قدمی کرگئی لالک جان کا بے جان وجود اس تباہ شدہ بنکر سےمتصل ڈھلان سے واپس نہ لایا جاسکا۔ بعد کی رتوں میں یونٹ کی کمانڈو ٹیم اپنے نشانِ حیدرکےجسدِخاکی کو نکال لانے کے لیےٹائیگرہِل کی بلندیوں کی ناک کے عین نیچےنقب لگائیں گی۔
وہیں اسی پوشیدہ گھاٹی میں انہیں لالک جان ملےگا، کچھ اس شان سےکہ ایک برفاب بےجان جسم نےاپنےہتھیارکوبعدازمرگ بھی چھاتی سےلگارکھاتھا
اس بےجان مگرجری وجودکوغذرکی یاسین وادی میں ہندرگاؤں کی پتھریلی زمین میں دفنادیاگیا کہ یہی مٹی ہمارےشہیدکوپیاری تھی۔
ـــ
لالک جان اپنےبھائی کےساتھ
گلگت سےشندور کونکلیں توجہاں گوپس نام کاقصبہ ہےوہاں یاسین کی حسین بل کھاتی وادی شمال کونکلتی ہے۔ تھوڑاآگے پربتوں کےسائےسےڈھکےگاؤں ہندرمیں ایک عالیشان یادگارہمارے حوالدار کو یادکرتی ہے
نشانِ حیدرکاپانچ کونوں والاچمکتا ستارہ ہےاوراوپرسبز پٹی پرایک بہت محبوب نام جگمگارہاہے
’لالک‘
بہت سال نہیں بیتےکہ میں سکردوسےگلگت کامسافرہوا۔ ریٹائرمنٹ کی عرضی ڈالنےپرہیڈکوارٹرمیں فارمیشن کمانڈرکےروبروہماری پیشی تھی۔ ہم سکردوسےاپنی ذاتی سوزوکی مہران خودڈرائیوکرکےنکلے، اس نیت سےکہ ایک مائل بہ ریٹائرمنٹ میجرکاانٹرویوکرنےکےمقابلےمیں آپریشنل ایریاکمانڈرکی اورمصروفیات ہوں گی
اورانہیں وقت نکالنے میں شاید چند دن لگ جائیں۔ ایسے میں ہم اپنی گاڑی پر آزادانہ گھوم پھرسکیں گےاور ہوسکےتو شاید گوپس کےراستے ہندرجائیں تولالک جان کوسلام کر آئیں۔
ہمیں نہیں معلوم تھا کہ ہمارا سامنا ایک اتاؤلے میجر جنرل سے ہونے جا رہا ہےجوہماری عرضی پر بھاؤ کھائےبیٹھے ہیں کہ موقع ملتے ہی ہماری تھوڑی بہت بیدارہوتی خودی کو پرزے پرزے کردیں۔
صاحبو ایک تابڑ توڑ انٹرویو میں اپنی بے عزتی خراب کروا ہم باہر نکلے توحکم کے انوسارواپس سکردو پہنچ کردم لیا۔ ہم اس دن لالک جان سےملنے نہیں جاسکے۔ بعدمیں بھی نہیں جاسکے۔ یہ وہ یاتراہے جوابھی تک ہم پر ادھارہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...