لال حویلی، جو پنڈی(پاکستان) کے مشہور تاریخی عمارتوں میں سے ایک ھے، راجہ بازار(پرانا بوہڑ بازار) میں واقع سو سال پرانی ہندو طرز تعمیر ھے۔ اسکی تاریخ کی بھی ایک دلچسپ کہانی ھے۔ دراصل یہ حویلی تاج محل کی طرح محبت کی ہی نشانی ھے۔
بٹوارےسے قبل یہ حویلی جہلم کے ایک ہندوسرمایہ دارراج دھن سہگل کی ملکیت تھی جس نے اسے شہر کے وسط میں سیالکوٹ سےتعلق رکھنےوالی محبوب رقاصہ باندبائی(بدھابائی) کوجس پروہ ایک شادی کےموقع پردیکھتےہی فریفتہ ھوگیا،تحفتادی۔ سہگل اورباندبائی نےشادی کےبعداسی حویلی میں سکونت اختیار کی۔
اسکوشاہکاربنانےکیلیےسہگل نےاسکی تزئین وآرائش کرکےبےتحاشاپیسہ لٹایا۔حویلی میں باندبائی کیلیے مسجد اور اپنے لئے مندربھی تعمیرکروایا۔ تقسیم ہندسےان دونوں کی محبت بھی تقسیم ھوگئی۔ 47 کے بٹوارے کے بعد اسے کشمیری مہاجرخاندان کوالاٹ کیاگیا۔ 50 برس پہلےحویلی کےسرخ رنگ کیوجہ سےاسےلال حویلی کہاجانےلگا۔
1985میں اس حویلی کےنیچےشیخ رشیداحمدکتابیں بیچاکرتےتھے۔ جی ہاں وہی شیخ رشید جوآجکل اپنی چٹکلے بازی اورقیاس آرائیوں کیوجہ سےمنفردسیاستدان ھیں۔ بقول شیخ صاحب1985میں انہوں نےاسے5لاکھ میں کشمیری خاندان سےخریدلیاتھا جوآج بھی انہی وفاقی وزیرکی ملکیت بلکہ وجہ شہرت ھےکہنازیادہ مناسب ھوگا۔