بندر روڈ سے کیماڑی اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"... "ماں" دنیا کا ایک شیریں ترین لفظ ہے اور ماں وہ شخصیت ہے جو اپنی اولاد کیلئے بیش بہا نعمتوں... صالحہ رشید کی رپورٹ پریاگ راج ۹؍ نومبر ، پریس ریلیز ادبی تنظیم بزم یاراں کے زیر اہتمام یوم اردو...
میری چلی رے گھوڑا گاڑی
بابو ہو جانا فٹ پاتھ پر
یہ آیا ریڈیو پاکستان
ہے گویا خبروں کی دوکان
تو اس کے گنبد کو پہچان
کہیں مسجد کا ہو نہ گمان
کہ ہوتا ہے درسِ قرآن
کہیں گمشدگی کا اعلان
بابو ہو جانا فٹ پاتھ
یہ آئی لکشمی بلڈنگ
کبھی کی سب سے بڑی بلڈنگ
جو لالو کھیت سے بھی دیکھو
نظر آتی تھی یہی بلڈنگ
ہے جن کا اس میں اک دفتر
اب وہ رکھتے ہیں کئی بلڈنگ
بابو ہو جانا فٹ پاتھ پر
ہمارے بچپن میں پاکستان میں ٹیلی ویژن نہیں ہوتا تھا بلکہ ریڈیو ہوا کرتا تھا۔ ریڈیو پاکستان کراچی سے اتوار کی صبح بچوں کا پروگرام آیا کرتا تھا۔ اس پروگرام میں اکثر یہ گیت نشر ہوتا تھا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اس زمانے میں یہ گیت بچوں اور بڑوں میں يكساں طور پر مقبول تھا۔ اس کے تخلیق کار مہدی ظہیر تھے اور اس کی دھن بھی انہوں نے ہی ترتیب دی تھی۔ یہ گیت احمد رشدی کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا تھا او ریڈیو پاکستان سے پہلی دفعہ سن 1954 میں نشر ہوا۔ اس طرح بچپن سے ہی ہمارے دل و دماغ میں لکشمی بلڈنگ کی عظمت بیٹھی ہوئی تھی۔ لالو كهیت اور لکشمی بلڈنگ کا فاصلہ تقریباً دس کلو میٹر ہے۔ ایک اور اتفاق یہ تھا کے مهدی ظہیر اسی سرکاری بستی کے باسی تھے جہاں ہم رہتے تھے یعنی کہ فیڈرل کیپٹل ایریا اور ہمارے ہی محلے میں ایم اے رزاق بھی رہتے تھے جو ریڈیو کے ڈراموں میں صوتی اثرات کا بندوبست بھی کرتے تھے۔ مثال کے طور پر ٹرین کی آواز، رکشے کی آواز، طوفانی ہوا چلنے کی آواز وغیرہ وغیرہ۔ اس گیت میں بھی گھوڑا گاڑی کی آواز اور دیگر آوازوں کا بندوبست ایم اے رزاق نے ہی کیا تھا۔
لکشمی دیوی کی یہ مورتی بمبئی کی لکشمی بلڈنگ کی ہے۔
پھر یوں ہوا ہم بچپن سے جوانی تک کا سفر طے کرتے ہوئے 1982 میں برسرِ روزگار ہو گئے۔ ہمارا پہلا دفتر لکشمی بلڈنگ کے قریب ہی واقع ایک عمارت میں تھا اور ہم روز لکشمی بلڈنگ کے درشن کرتے ہوئے گزر جاتے تھے۔
لکشمی بلڈنگ پانچ منزلہ عمارت ہے۔ نہ صرف قیامِ پاکستان کے وقت بلکہ 1955 تک یہ کراچی کی سب سے بلند و بالا عمارت ہونے کا اعزاز رکھتی تھی لیکن 1955 میں جب "قمر ہاؤس" کا افتتاح ہوا تو لکشمی بلڈنگ نے کراچی کی سب سے بلند عمارت ہونے کا اپنا یہ اعزاز کھو دیا، کیونکہ "قمر ہاؤس" کی عمارت "لکشمی بلڈنگ" سے بھی بلند تھی۔
نامور مورخ عثمان دموئی اپنی کتاب کراچی تاریخ کے آئینے میں "لکشمی بلڈنگ" کے بارے میں لکھتے ہیں کہ؛
"اس عمارت کی آرکیٹیکٹ کمپنی میسرز ڈی۔ایچ دارو والا اینڈ کمپنی کراچی تھی جبکہ کنٹریکٹر ہندوستان کنسٹرکشن کمپنی تھی"
قیام پاکستان سے قبل یہ کراچی کی سب سے بلند عمارت ہوا کرتی تھی، جو بندر روڈ پر عین تجارتی علاقے میں واقع ہے۔ اس عمارت کے اوپر پہلے لکشمی دیوی جو ہندو دھرم کے مطابق دولت کی دیوی ہے کی مورتی نصب تھی اور اس کے ساتھ ہی عمارت کی پیشانی پر جلی حروف میں انگریزی زبان میں لفظ لکشمی تحریر تھا لیکن قیام پاکستان کے بعد نہ صرف لکشمی دیوی کی وہ مورتی ہٹا دی گئی بلکہ لفظ لکشمی بھی مٹا دیا گیا۔ لکشمی کے وہ حروف جس فولادی فریم پر لگائے گئے تھے اُس فریم کا ڈھانچہ ابھی تک عمارت پر دیکھا جا سکتا ہے۔ اس عمارت کی تعمیر میں استعمال ہونے والا پتھر خصوصی طور پر جےپور سے منگوایا گیا تھا۔ اُس زمانے میں نجی شعبے میں یہ کراچی کی وہ پہلی عمارت تھی جس میں آئرن لِفٹ کا انتظام بھی کیا گیا تھا۔ اس عمارت کا ڈیزائن شکاگو اور نیویارک کی بلند و بالا عمارتوں کے طرز پر بنایا گیا تھا۔ جبکہ اندرونی تزئین و آرائش ڈیکو آرٹ کے اصولوں کے تحت کی گئی تھی۔اس عمارت پر ایک گھڑیال بھی نصب ہے جو کہ اب ناکارہ ہو کر حکومتی توجہ کا منتظر ہے۔ اس عمارت کو تعمیر کرنے والی کمپنی ہندوستان کنسٹرکشن کمپنی لمیٹڈ موجودہ ہندوستان کی سب سے بڑی کنسٹرکشن کمپنی ہے اور اس کی نیٹ ورتھ کئی ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔
لکشمی بلڈنگ کراچی کا افتتاح 24 دسمبر 1938ء کو برصغیر کی مشہور سیاسی و سماجی شخصیت مسز سروجنی نائیڈو نے کیا تھا۔ آپ کو بُلبل ہند بھی کہا جاتا تھا۔
سروجنی نائیڈو برطانوی ہندوستان کی اُن چند خواتین میں شامل تھیں جنہوں نے انگریز حکمرانوں کے خلاف آزادی کی جدوجہد میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کیا تھا۔ آپ آل انڈیا کانگریس کی پہلی خاتون صدر بھی رہ چکی تھیں۔ سیاست کے علاوہ آپ کو علم و ادب اور شاعری سے بھی گہرا لگاؤ تھا۔ آپ کی مشہورِ زمانہ کتاب Muhammad Ali jinaah The Ambassador of Peace ہے۔ اس کتاب کی وجہ سے اُس وقت کی سیاست میں محمد علی جناح کا لقب ہندو مسلم اتحاد کے سفیر کی حیثیت سے مشہور ہو گیا تھا۔ آپ ہندوستان کی سیاست میں ہندو مسلم اتحاد کو ضروری خیال کرتی تھیں۔ اسی لیے آپ نے عملی طور پر ہندو مسلم اتحاد کو اپنی سیاست کا اہم جزو بنایا تھا۔ لیکن وائے افسوس 1947 میں قیامِ پاکستان کے ساتھ ہی سروجنی نائیڈو کے نام کی وہ تختی جو لکشمی بلڈنگ کراچی میں نصب تھی اکھاڑ پھینکی گئی اور فسادات کے دوران اس عمارت کے اندر کچھ ہندوؤں کو قتل بھی کر دیا گیا تھا۔
اتفاق سے ہمیں اُس دن کے سندھ کے اخبار "دی گزٹ" کا ایک تراشہ ملا جس میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ یہ شہر کی بلند ترین عمارت ہے اور اس میں اوپر کی منزلوں تک رسائی کے لیے جدید ٹیکنالوجی کی شاہکار آئرن لِفٹ بھی نصب کی گئی ہے۔ مزید براں کمپنی کے مینجنگ ڈائریکٹر جناب سنتھیانام کی طرف سے کراچی کے شہریوں کو یہ مژده بھی سنایا جا رہا ہے کہ کمپنی کی اس نئی برانچ کے افتتاح سے مقامی شہریوں کو روزگار کے نئے اور بہتر مواقع میئسر آئیں گے۔
یہ گنیش ہاتھی کی مورتی لکشمی بلڈنگ بمبئی کی ہے۔
لکشمی انشورنس کمپنی کے مینجنگ ڈائریکٹر جناب سنتھیانام اپنی ذات میں خود ایک انجمن تھے۔ پنڈت سنتھیانام 1885 میں تامل ناڈو میں ایک راسخ العقیدہ برہمن خاندان میں پیدا ہوئے۔ آپ کم عمری میں ہی یتیم ہو گئے تھے۔ اس لیے آپ کی تعلیم و تربیت کا بیڑا آپ کے بڑے بھائی نے اٹھایا جو وکالت کے شعبے سے وابستہ تھے۔ اعلیٰ تعلیم و تربیت کے لیے سن 1906 میں آپ کو انگلستان بھیج دیا گیا۔ وہاں پر آپ نے کنگز کالج، کیمبرج سے کامیابی کے ساتھ اپنا تعلیمی سفر مکمل کیا اور ہندوستان واپسی کی راہ لی۔ ہندوستان واپسی کے بعد آپ کی زندگی میں اُس لمحے ایک ایسا موڑ آیا جب آپ کو خاندان کی طرف سے یہ مژده سنایا گیا کہ سمندر کے اوپر سے گزرنے کی وجہ سے آپ کا مذہب ختم ہو گیا ہے اور یوں سنتھیانام کے اہل خانہ نے ان سے ہر قسم کے تعلقات ختم کر لیے۔ یہاں تک کہ جس بھائی نے انہیں اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان بھیجا تھا وہ بھی آپ سے لاتعلق ہونے پر مجبور ہو گیا۔ خاندان کی طرف سے قطع تعلق کے بعد آپ کی زندگی اب پہلے جیسی نہ رہی تھی۔ سماج میں سب کچھ تنہا اپنے بل بوتے پر کرنا تھا۔ اُس زمانے میں کسی بھی تنہا فرد کے لیے سماج میں کوئی مقام بنانا انتہائی کٹھن اور دشوار تھا۔ لیکن آپ نے ہمت نہیں ہاری۔ ثابت قدمی، محنت اور لگن سے آپ نے اپنی زندگی کا نئے سرے سے آغاز کیا۔
حسنِ اتفاق سے انگلستان میں ہی آپ کی ملاقات لالہ لجپت رائے سے ہو چکی تھی اور اس ملاقات میں وہ آپ کو باضابطہ طور پر لاہور آنے کی دعوت بھی دے چکے تھے۔ یوں آپ نے اپنے کیریئر کا آغاز لالہ لجپت رائے کی سرپرستی میں کیا۔ کچھ ہی برسوں میں آپ ایک کامیاب وکیل بننے کے ساتھ ساتھ رشتہ ازدواج میں بھی منسلک ہو گئے۔ آپ کی زندگی کا یہ سفر آہستگی سے کامیابی کے ساتھ آگے بڑھ رہا تھا کہ اس دوران ایک افسوسناک سانحہ رونما ہوا۔ یہ 1919 کا سال تھا، پنجاب میں ہونے والے جلیانوالہ باغ کے ہولناک سانحے نے برطانوی ہند کے طول وعرض میں ایک بھونچال برپا کر دیا تھا۔ جنرل ڈائر کی بربریت کے خلاف مقامی ہندوستانیوں کے دلوں میں انتقام کی آگ بھڑک رہی تھی۔ کرفیو کے باوجود لوگ گھروں سے باہر نکل کر جنرل ڈائر کے ظلم کے خلاف سراپا احتجاج تھے۔ جیسے ہی مظاہرین کے خلاف انگریز سرکار کی طرف سے مقدمہ عدالت میں پیش کیا گیا تو اُسی لمحے سنتھیانام نے جلیانوالہ باغ کے متاثرین/ مظاہرین کی طرف سے اس مقدمے کو لڑنے کا فیصلہ کر لیا۔
کانگریس کی جماعت جلیانوالہ باغ کے سانحے کے سلسلے میں حکومتی اقدامات سے مطمئن نہیں تھی۔ اس لیے کانگریس نے سانحے کی تحقیقات کرنے کے لیے شملہ میں ایک کمیٹی تشکیل دی جس میں انہوں نے اپنی رپورٹ پیش کی۔ جس کے نتیجے میں جنرل ڈائر کو برطرف کر دیا گیا۔ دوسری جانب سنتھیانام اس دوران حکومت کے خلاف مختلف تحریکوں اور مظاہروں میں حصہ لیتے رہے جس کے نتیجے میں اُن کو کئی بار جیل کی ہوا بھی کھانی پڑی۔
سن 1920 میں سانتھیانام نے مہاتما گاندھی کی "سِوِل نافرمانی تحریک" کے دوران اپنے دوسرے ساتھیوں کی طرح وکالت کا پیشہ چھوڑ دیا۔ اس بےروزگاری کے عالم میں لالہ لجپت رائے دوبارہ ان کی مدد کو آئے اور انہوں نے ایک خالص سودیشی انشورنس کمپنی قائم کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ اس طرح لکشمی انشورنس کمپنی وجود میں آئی تو لالہ لجپت رائے نے اس کمپنی کا مینجنگ ڈائریکٹر آپ کو ہی بنایا۔ اس انشورنس کمپنی کی بدولت آپ کو پورے برصغیر کے تجارتی حلقوں میں بہت پذیرائی ملی۔
لکشمی انشورنس کمپنی (ایل آئی سی) کے دفاتر ہندوستان کے ساتھ ساتھ مشرقی افریقہ میں بھی قائم ہوئے۔ اس کمپنی نے لاہور، کراچی اور بمبئی سمیت کئی شہروں میں بڑی بڑی سرکاری اور رہائشی عمارتیں تعمیر کیں۔ ابھی اس کمپنی کا سفر جاری تھا کہ تقسیمِ ہند کا تاریک دن نمودار ہوا۔ برطانوی سرپرستی میں کانگریس و مسلم لیگ کی سیاست اس خطے کو متحد کرنے میں بری طرح ناکام ہو گئی اور ملک تقسیم ہو گیا۔ ہندو مسلم فسادات پھوٹ پڑے اور بڑے پیمانے پر لوگ اپنے آبائی گھروں کو چھوڑ کر نقل مکانی پر مجبور ہو گئے۔ یہ سنگین حالات پنڈت سنتھیانام کے لیے تکلیف دہ تھے، انہوں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا کہ ہندوستان یوں تقسیم ہو جائے گا اور اس کے ساتھ پنجاب بھی دو ٹکڑوں میں بٹ جائے گا۔
اُن دنوں آپ دمہ کے مرض میں مبتلا تھے، اس لیے ڈاکٹروں کی ہدایت کے مطابق آپ اپنے خاندان کے ہمراہ علاج کی غرض سے کشمیر میں رہ رہے تھے۔ پنجاب کا شہر لاہور جہاں پر آپ کئی برسوں سے مستقل طور پر سکونت اختیار کر چکے تھے اب وہاں پر واپس جانے کے راستے مسدود ہو چکے تھے، مجبوراً آپ کو نہ چاہتے ہوئے بھی لاہور کے بجائے دہلی جانا پڑا۔ واضح رہے کہ تقسیم کے فوراً بعد ہی لکشمی انشورنس کمپنی کا صدر دفتر لاہور سے دہلی منتقل ہو گیا تھا لیکن سنتھیانام نے کمپنی کو دوبارہ جوائن نہیں کیا۔ دہلی میں آپ "وزارت امداد و بحالی" کی مشاورتی کمیٹی کے رکن بن گئے اور آپ نے مکمل طور پر اپنے آپ کو اُن متاثرین کے لیے وقف کر دیا جو تقسیم کی وجہ سے بےپناہ مصائب کا شکار تھے۔ یہ متاثرین دوردراز کے علاقوں سے اپنے آبائی گھروں سے بےگھر ہو کر اب ریلیف کیمپوں میں سکونت پذیر تھے۔ تقسیم کے جان لیوا صدمے سے آپ پھر کبھی باہر نہ نکل سکے اور محض 64 برس کی عمر میں سن 1949 میں دہلی میں آپ کا انتقال ہو گیا۔
تازہ ترین خبریں
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اُردو مضمون لوری
ادبی تنظیم بزم یاراں کے زیر اہتمام یوم اردو کی مناسبت سے تقریب کا انعقاد