پک گئے ہیں کان یہ سن سن کر کہ قبائلی علاقوں کو انگریز نے بھی نہیں چھیڑا تو پاکستانی فوج وہاں کیوں داخل ہوئی ؟جس چینل کو کھولیں کوئی نہ کوئی بزرجمہریہ فلسفہ بگھار رہا ہوتا ہے۔
سبحان اللہ سبحان اللہ ! چونکہ انگریز حکومت نے قبائلیوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا تھا تو اب حکومت پاکستان کے لیے اس معاملے میں انگریز آقائوں کی پیروی لازم ہے۔ انگریزوں پر یہ پالیسی آسمان سے اتری تھی اس لیے اس مقدس پالیسی کو ترک کرنا عذاب الٰہی کو دعوت دینے کے متراف ہوگا۔
پاپوش میں لگائی کرن آفتاب کی
جو بات کی خدا کی قسم لاجواب کی
اللہ کے بندو!بات کرتے وقت کچھ تو سوچ لیا کرو۔ اتنے بڑے بڑے مناصب سے تم ریٹائر ہوئے‘ جن کا ذکر تمہارے ناموں کا جزولاینفک بن گیا ہے۔ اور کچھ نہیں تو ان عہدوں ہی کا خیال کر لیا کرو‘ خلق خداکیا کہے گی کہ یہ لوگ سوچنے سمجھنے سے عاری ہیں ؟ بقول میرؔ ؎
ہوا جو دل خوں، خرابی آئی، ہرایک اعضا میں ہے فتور اب
حواس گم ہیں، دماغ گم ہے، رہا سہا بھی گیا شعور اب
انگریزوں کی غیرملکی حکومت کو آخر غلاموں کی فلاح وبہبود سے کیا دلچسپی ہوسکتی تھی ؟ روس وسط ایشیا پر قبضہ کررہا تھا۔ برطانوی حکمرانوں نے اسے ہر حال میں برطانوی ہند کی سرحدوں سے دور رکھنا تھا۔ اسی لیے تو واخان کی پٹی پیدا کی گئی جہاں آج بھی پتھر کے زمانے کی غربت کا دور دورہ ہے۔ افغانستان کو Bufferریاست بنایا گیا تاکہ روس (بعد میں سوویت یونین) اور برطانوی ہند دونوں ایک دوسرے سے مکمل لاتعلق رہیں۔ یہ تھا وہ پس منظر… جس میں افغان سرحد سے متصل قبائلی علاقوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا۔ وہاں شاہراہیں بنیں نہ ریل کی پٹڑیاں بچھیں۔ ایڈورڈ کالج بنا نہ اورینٹل کالج۔ یونیورسٹی بنی نہ مقامی حکومتیں وجود میں آئیں۔ ڈسٹرکٹ بورڈ، میونسپل کمیٹی… کچھ بھی نہ بننے دیا گیا۔
پاکستانی حکومتوں کا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ انگریز کی یہ غفلت شعار پالیسی آزادی کے بعد بھی جاری رکھی گئی۔ قبائلیوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا۔ وہاں کارخانے بنے نہ زراعت کو ترقی دی گئی۔ کالج بنے نہ یونیورسٹیاں۔ پولیٹیکل ایجنٹوں کے ذریعے ملکوں اور خانوں کو رشوتیں دی جاتی رہیں۔ سمگلروں کی پیٹھیں ٹھونکی جاتی رہیں۔ فاٹا سے ایک ایک سینیٹ کی سیٹ پندرہ پندرہ کروڑ روپے میں بکتی رہی اور عام قبائلی دووقت کی روٹی کو محتاج رہا۔ تنگ آکر اس نے بندوق اٹھالی۔
یہ نام نہاد دانشور چاہتے ہیں کہ قبائلی علاقے اسی حال میں رہیں۔ اس خدا کی قسم… جس نے انسانوں کی ہدایت کے لیے پیغمبر بھیجے‘ یہ قبائلی علاقوں کے دشمن ہیں۔ نرگسیت کا شکار، اپنی آواز سننے کے شائق، اپنی موٹی عقلوں کے اسیر… یہ بزرجمہر چاہتے ہیں کہ ان کی اپنی اولادیں امریکہ اور یورپ کی یونیورسٹیوں میں پڑھیں‘ بڑے بڑے مناصب پر فائز ہوں، سلطنتوں جیسے وسیع کاروبار کریں، ایک جہاز سے اتریں تو دوسرا تیار ہو۔ لیکن قبائلیوں کے بچے غلیل اور بندوق سے آگے نہ بڑھیں۔ کتاب پڑھیں نہ ان کے پاس لیپ ٹاپ ہوں۔ حیرت ہے کہ قبائلی علاقوں کے ان خیرخواہوں
نے ابھی تک خیبر پختونخوا کے گورنر انجینئر شوکت اللہ کے خلاف فتویٰ نہیں دیا۔ مہمند ایجنسی میں جب گورنر ایک بڑے جرگے سے خطاب کرنے والے تھے، تو انہیں حسب روایت کلاشنکوف کا تحفہ پیش کیا گیا لیکن گورنر نے قبول کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ یہ دور علم کے فروغ کا دور ہے‘ اگر قلم کا تحفہ دیا جاتا تو انہیں خوشی ہوتی۔ کیا عجب مدقوق ذہن یہ اعتراض جڑدیں کہ کلاشنکوف کا تحفہ رد کرکے پختونوں سے بہادری چھیننے کی کوشش کی گئی ہے !
پاکستانی فوج کیوں نہ قبائلی علاقوں میں داخل ہو اور وہاں کیوں نہ پڑائو ڈالے ؟ کیا یہ پاکستان کی اپنی فوج نہیں ؟ کیا یہ بھارت یا روس کی فوج ہے ؟ ایک سو ایک مثالیں موجود ہیں، پاکستانی فوج نے پاکستان کے جس علاقے میں بھی کنٹونمنٹ بنایا وہاں ترقی ہوئی اور عوام کا معیار زندگی بلند ہوا۔ پنوں عاقل کو دیکھیے‘ بے آب وگیاہ صحرا میں سڑکوں اور تعلیمی اداروں کا جال بچھا دیا گیا۔ اٹک اور اسلام آباد کی درمیانی پٹی کو دیکھیے۔ انگریز اس علاقے کو پالیسی کے طورپر صنعت سے محروم رکھتے رہے تاکہ فوجی بھرتی کم نہ ہو۔ مسلح افواج نے یہاں بیسیوں کارخانے لگائے اور تعلیمی اداروں کے جال بچھادیے۔ حویلیاں، سنجوال، واہ اور کامرہ کی خواندگی کی شرح ملک کے باقی حصوں سے کہیں زیادہ ہے۔ جنرل اسرار گھمن نے اپنے قیام ٹیکسلا کے زمانے میں پورا ایجوکیشن سٹی قائم کیا جس سے سب سے زیادہ فائدہ مقامی آبادی اٹھارہی ہے۔ قبائلی علاقوں میں کنٹونمنٹ قائم ہونے سے بچے اور بچیاں زیورتعلیم سے آراستہ ہوتی ہیں ، بڑوں کو ملازمتیں ملتی ہیں اور عوام کو صاف ستھرا ماحول میسر آتا ہے۔
کچھ حضرات بظاہر پاکستانی فوج کی تعریف میں رطب اللسان رہتے ہیں لیکن اسی سانس میں یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ پاکستان ہی کے کچھ حصے پاکستانی فوج کے لیے ممنوعہ علاقے قراردیے جائیں۔ یہ حضرات ہرمسئلے کو کفرواسلام کا متنازعہ بناکر ماحول کو 440وولٹ میں تبدیل کردیتے ہیں۔ طالبان سے مذاکرات کے مسئلے ہی کو لے لیجیے۔ یہ ایک متنازعہ ایشو ہے۔ ایسے مسائل پر اجماع کبھی ہو بھی نہیں سکتا۔ چار افراد مذاکرات کے حق میں ہوتے ہیں تو چھ مخالف۔ دونوں طرف دلائل ہیں، دونوں طرف فوائد ہیں اور نقصانات بھی۔ حمایت کرنے والے بھی محب وطن ہیں اور مخالفت کرنے والے بھی۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ مکالمے کے بجائے فتوے لگائے جارہے ہیں۔ دودن پیشتر ایک معاصرنے فتویٰ لگایا ہے کہ طالبان سے مذاکرات کی مخالفت کرنے والے اسلامی اساس کے خلاف ہیں، ملک کو سیکولر بنانا چاہتے ہیں، مغربی مشروب کے دالدہ ہیں، جہاد کے خلاف ہیں، جنرل ضیاء الحق سے نفرت کرتے ہیں اور قادیانیوں کو غیرمسلم قراردیے جانے پر خفا ہیں۔ معاصر اسی پر اکتفا نہیں کرتا، یہ الزام بھی لگاتا ہے کہ ’’نجانے ان میں سے کتنے گمراہ ہیں جو غیرملکی اشاروں پر ناچتے اور ڈالر کھاکر غیروں کا ایجنڈا اس ملک میں نافذ کرنے کی کوشش کررہے ہیں‘‘۔
پاکستان کی جدید صحافت میں ایسی بیماراور پست ذہنیت کا مظاہرہ شاید ہی اس سے پہلے ہوا ہو۔ بلیک میلنگ کی یہ روایت بھی ضیاء الحق ہی نے ڈالی تھی۔ ریفرنڈم میں پوچھا یہ گیا تھا کہ کیا آپ اسلامی نظام کے حامی ہیں ؟۔ اگر جواب ہاں میں تھا تو اس کا مطلب یہ تھا کہ ضیاء الحق مزید پانچ سال کے لیے حکومت کریں گے۔ یہی انداز اس معاصر نے بھی اپنایا ہے کہ اگر آپ طالبان سے مذاکرات کے حامی نہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ شرابی ہیں، قادیانیوں کے حامی ہیں اور ڈالر کھارہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر لاکھوں کروڑوں پاکستانی مذاکرات کے حامی ہیں تو لاکھوں کروڑوں ہی مخالف بھی ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ مذاکرات کے حامی کل کے بدلے ہوئے حالات میں مخالف ہوجائیں اور مخالفت کرنے والے حمایت کرنے لگ جائیں۔
بھارت کا معروف ایکٹر شتروگھن سنہا‘ جو پاکستان کی بدترین دشمن ’’بی جے پی‘‘ کا کارکن ہے‘ ضیاء الحق کا اتنا گہرا دوست تھا کہ آج بھی اس خاندان کی تقاریب میں شامل ہونے کے لیے بھارت سے خصوصی طورپر آتا ہے۔ وہ کئی کئی دن ایوان صدر میں ٹھہرتا تھا۔ ضیاء الحق کے بجائے اگر کوئی اور ایسا کرتا تو اسلام کے نام نہاد ٹھیکیدار اس پر فتووں کی بارش کردیتے۔ حرم کعبہ میں نوے دن کے اندراندر انتخابات کرانے کا عہد بھی قوم کو نہیں بھولا۔ ہائے مومن کہاں یاد آگیا ؎
ناصحا! دل میں تُو اتنا تو سمجھ اپنے کہ ہم
لاکھ ناداں ہوئے، کیا تجھ سے بھی ناداں ہوں گے؟