'' لکیریں ہیں تو رہنے دو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ "
( میگھنا گلزار کی فلم ' راضی ' پر تبصرہ )
یہ 2012 ء تھا ۔ لاہوراور امرتسر کے درمیان واہگہ بارڈر پر 14 اکست کی شام قومی جھنڈے اتارنے کی خصوصی تقریب اس لحاظ سے کچھ منفرد بن گئی تھی کہ یہ ایک فلم کی ' فرسٹ لُک ' تقریب بھی تھی ۔ سرحد پرانڈیا کی جانب اس فلم کے بڑے بڑے پوسٹر آویزاں تھے اور اس فلم کے بنانے والے جن میں اس کے اداکار ، موسیقار اور دیگر بھی شامل تھے ، سبھی وہاں موجود تھے ، فلم کا ' پرومو ' بھی پیش کیا گیا تھا ۔ فلم بنانے والوں نے اُس شب رات بارہ بجے اس فلم کے بارے میں پریس کانفرنس کرکے اس فلم کا پریچے کروایا تھا اور گلزار ، جو ہندوستان اور پاکستان کی دوستی کے علم برداروں کی پہلی صف میں شامل رہے ہیں ، کی درج ذیل نظم بھی پڑھی گئی ۔ اِدھر پاکستان کی جانب ، دونوں ملکوں میں دوستی کی خواہاں پاکستانی عوام کی بھی ایک بڑی تعداد ہاتھوں میں موم بتیاں لئے کھڑی تھی ؛
لکیریں ہیں تو رہنے دو
کسی نے روٹھ کر غصے میں شاید کھینچ دی تھیں
انہی کو بناؤ اب پالا
اور آؤ کبڈی کھیلتے ہیں
لکیریں ہیں تو رہنے دو۔ ۔ ۔
میرے پالے میں تم آؤ
مجھے للکارو
میرے ہاتھ پر تم ہاتھ مارو اور بھاگو
تمہیں پکڑوں، لپیٹوں ، پاؤں کھینچوں
اور واپس نہ جانے دوں
تمہارے پالے میں جب کوڈی کوڈی کرتا جاؤں میں
مجھے تم بھی پکڑ لینا
مجھے چھونے نہیں دینا
وہ سرحد کی لکیریں
کسی نے غصے میں یوں کھینچ دی تھیں
انھی کو بناؤ اب پالا
اور آؤ کبڈی کھیلتے ہیں
لکیریں ہیں تو رہنے دو۔ ۔ ۔
یہ فلم بٹوارے کے بعد ، کھینچی گئی لکیر جو پاکستان کے صوبہ سرحد اور کشمیر سے گزرتی ہے پر ۱۹۴۸ ء کے دنوں میں جاری دونوں ملکوں کی جنگی جھڑپوں کے پس منظر میں دو ایسے سپاہیوں کی کہانی ہے جن میں سے ایک بٹوارے کی لکیر کے پرلی طرف سے مہاجر ہوا پاکستانی ہے جبکہ دوسرا ہندوستانی ، جو اس لکیر کے اِس طرف سے اُدھر گیا ہوا ہے ۔ یہ وجے راز کی فلم ' کیا دلی کیا لاہور ' تھی ۔ یہ آرٹ فلم تو تھی لیکن باکس آفس پر ایک ناکام فلم تھی ۔ پڑھے لکھے طبقے نے بھی اس فلم کی کچھ زیادہ پذیرائی نہ کی کیونکہ وہ بوسنیا کی فلم ' No Man's Land ' کہیں پہلے دیکھ چکے تھے جس نے ۲۰۰۱ ء کا ' آسکر برائے بہترین بدیسی فلم ' کا ایوارڈ جیتا تھا ۔
یوں تو دونوں ملکوں کی آپسی مخاصمت اور ان میں ہوئی جنگوں پر بنی فلموں کی تاریخ وقت میں خاصی پیچھے جاتی ہے لیکن میں چیتن آنند سے بات شروع کروں گا جسے فلم ' حقیقت ' ، ۱۹۶۴ ء میں انڈیا ۔ چین کی جنگ پر فلم بنانے کا تجربہ تھا اور اس نے ۱۹۷۳ ء میں ' ہندوستان کی قسم ' نامی فلم بنائی تھی جس کا پس منظر ۱۹۷۱ ء کی جنگ تھی ۔ یہ سلسلہ یہیں نہیں تھما اور گووند نہلانی کی ' وجیتا ' سے چلتا ہوا حال ہی میں بنی فلم ' راضی ' تک آن پہنچا ہے ۔
اس سے پہلے کہ میں ' راضی ' پر بات کروں ، یہ ذکر اہم ہے کہ انڈیا ۱۹۶۵ ء کی جنگ کے پس منظر میں براہ راست کوئی فلم نہ بنا پایا جس کی ایک سے زیادہ وجوہ ہو سکتی ہیں البتہ ۱۹۷۱ ء کی جنگ کے پس منظر میں وہاں دس سے زائد فلمیں بنیں ۔ چیتن آنند کی فلم ' ہندوستن کی قسم ' ہو یا گووند نہلانی کی ' وجیتا ' یا پھر ۲۰۱۷ ء میں بننے والی ' غازی اٹیک ' یہ ساری فلمیں باکس آفس پر کامیاب نہ ہوئیں ۔
میرا خیال ہے کہ عوام ، وہ خواہ کسی ملک کے ہوں ، جنگ سے نفرت کرتے ہیں اور یہی وجہ رہی ہو گی کہ یہ تمام فلمیں لوگوں کے دل میں گھر نہ کر سکیں ۔ ( پاکستانی فلم ' قسم اُس وقت کی , ۱۹۶۹ ء ' کا بھی یہی حال ہوا تھا ) ان ساری فلموں میں واحد فلم جو کامیاب ہوئی وہ ۱۹۹۷ ء کی کمرشل فلم ' بارڈر' تھی جسے ' جے پی دتا ' نے بنایا تھا ۔ اس فلم کی کامیابی کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ اس میں ' انٹی وار ' پیغام بہت واضح طور پر دیا گیا تھا ۔ یہ فلم کے اختتام اور اس کے گیتوں ، جو جاوید اختر نے لکھے تھے ، میں کھلے طور نظر آتا ہے ۔
اب اکیس برس بعد ۲۰۱۸ ء میں ریلیز ہوئی فلم ' راضی ' وہ فلم ہے جس نے باکس آفس پر کامیابی حاصل کی ہے ۔ لگ بھگ ۴۰ کروڑ انڈین روپے کے بجٹ سے بننے والی یہ فلم ۱۱ مئی ۲۰۱۸ ء کو ریلیز ہوئی اور اب تک ۱۸۰ کروڑ انڈین روپے سے زائد کا بزنس کر چکی ہے ۔ کیا یہ فلم ' انٹی وار ' کا پیغام دیتی ہے ؟ یا یہ کہ دائیں بازو کی انتہا پسندی ، الٹرا قوم پرستی جس نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ، نے انڈین عوام کا موڈ بھی بدل دیا ہے ؟ یہ وہ اہم سوال ہے جو میرے ذہن میں اس وقت آیا تھا جب میں نے' ہرنیدر ایس سیکا ' کا ناول ، ' کالنگ سہمت ' ( Calling Sehmat ) جس پر یہ فلم بنی ہے ، پڑھا اور پھر اس پر بنی فلم ' راضی ' دیکھی ۔
یہ فلم گلزار اور راکھی کی بیٹی ' میگھنا گلزار ' کی ہداہت کاری میں بنی پانچویں فلم ہے ۔ ۴۴ سالہ میگھنا نے اپنے فلم کیرئیر کا آغاز اپنے والد کی فلم ' ہو تو تو ، ۱۹۹۹ ء ' کا سکرین پلے لکھ کر کیا تھا ۔ یہ ایک سیاسی فلم تھی اور آپ اسے ایک حد تک بائیں بازو کے نظریات سے ہم آہنگ فلم بھی کہہ سکتے ہیں ۔ ' راضی ' سے پہلے کی چار فلموں میں سے ' دس کہانیاں ' کو چھوڑ کر باقی تین نہ تو سیاسی تھیں اور نہ ہی سماجی ۔ دس کہانیاں البتہ سماجی مسائل پر مبنی دس کہانیوں پر مشتمل مختصر فلمیں تھیں ۔ اس ضمن میں وہ امریکہ میں بنی کچھ مختصر فلموں سے متاثر تھی ۔
' راضی ' البتہ ایک سیاسی فلم ہے ، ایک ایسی سیاسی فلم جو ہمارے خطے کی ' جیو پالٹکس ' ( Geo – Politics ) کے حوالے سے ۱۹۷۱ ء کی ہند و پاک جنگ کے متنازع ، حساس اور گھمبیر ایشو کے تناظر میں بنائی گئی ہے ۔ یہ ایک ایسی لڑکی ' سہمت ' ( عالیہ بھٹ ) کی کہانی ہے جس کا باپ ایک انڈین کشمیری اور را ( RAW ) کا جاسوس ہے ۔ وہ پاکستان میں اپنے رابطوں کے ذریعے فوجی راز کھوجتا ہے اور اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنی بیٹی کو بھی ' را ' سے تربیت دلا کر اپنے پاکستانی دوست ' برگیڈئیر سید ' کے بیٹے سے شادی کروا کر پاکستان بھیج دیتا ہے تاکہ وہ اس کے مشن کو جاری رکھ سکے ۔ وہ اپنے مشن ( ۱۹۷۱ ء میں پاکستان نیوی کی حکمت عملی کے بارے میں جانکاری کہ وہ انڈین جنگی جہاز ' وکرنت ' کو اپنی آبدوز کے ذریعے نشانہ بنانا چاہتی تھی جو خلیج بنگال کے پانیوں میں کھڑا تھا ۔ ) میں تو کامیاب رہتی ہے لیکن اپنے خاوند اقبال کی جان جانے کا سبب بھی بنتی ہے ۔ انڈین کشمیر واپس جا کر وہ اقبال کے نطفے سے بیٹے کو جنم دیتی ہے جو بڑا ہو کر انڈین فوج میں بھرتی ہوتا ہے ۔ فلم کے اختتام پر بوڑھی ' سہمت ' ایک کھڑکی کے پاس اکیلی بیٹھی دکھائی گئی ہے ۔
اس فلم کے گیت گلزار نے لکھے ہیں جس میں اقبال کی نظم ' لب پہ آتی ہے دعا ' کا تڑکا بھی ہے ۔ اس فلم کے مکالموں پر بھی گلزار کی چھاپ واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے ۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ گلزار اپنی بیٹی سے اس فلم کے حوالے سے خود بھی سہمت ہے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ معیار کے اعتبار سے یہ فلم ایک اچھی فلم ہے لیکن یہ کچھ سوال بھی کھڑے کرتی ہے ۔
اپنی جنم بھومی چھوڑ کر ، مہاجر ہو کر ، بٹوارے کی لکیر کے پار جا کر بسنے کی تھیم بہت سے ادیبوں کو ' ہانٹ ( haunt ) کرتی رہی ہے اور اب بھی کرتی ہے ، گلزار بھی اس سے مبرا نہ ، لیکن جب اس نے اپنی نظم ' لکیریں ہیں تو رہنے دو۔ ۔ ۔ ۔ ' لکھی تھی تو مجھے لگا تھا کہ اب وہ اس ' ہانٹ ' سے باہر آ چکا ہے لیکن جس فلم میں یہ استعمال ہوئی ( کیا دلی کیا لاہور ، ۲۰۱۴ ء ) اور جب میں نے اسے دیکھا تو مجھے لگا کہ گلزار ۲۰۱۴ ء میں بھی اںڈیا میں ویسے ہی ایلین ( alien ) ہے جیسے بٹوارے کی لکیر کے اُس پار سے ہوئے مہاجر اِدھر خود کو ایلین ( alien ) سمجھتے ہیں ۔
آج ۲۰۱۸ ء میں ' راضی ' دیکھ کر البتہ میرا یہ احساس بدل گیا ہے اور مجھے لگتا ہے جیسے گلزار نے بٹوارے کی لکیر کو دل سے تسلیم کر لیا ہے ، اس کی بیٹی نے تو کرنا ہی تھا کہ وہ تو پیدا ہی انڈیا میں ہوئی ، جو ایک انڈین ' گووند سندھو ' کی بیوی اور ' سمے ' نامی ایک انڈین بچی کی ماں ہے ۔ میگھنا اپنی اگلی فلم میں بھی ایک ایسا ہی موضوع چنے بیٹھی ہے جو ' انڈین ائیر لائینز کی پرواز ۸۱۴ ' کی ہائی جیکنگ سے جڑا ہوا ہے اور جس میں مبینہ طور پر پاکستانی ISI کو بھی implicate کیا جاتا ہے ۔
میگھنا گلزار نے ، گو ، ' غازی اٹیک ، ۲۰۱۷ ' کی طرح اپنی اس فلم میں ' گمنام ' ہیروز کا جذباتی تاثر دینے کی کوشش کی ہے اور سہمت کے ' ذاتی المیے ' کو فلم میں اجاگر رکھنا چاہا ہے ۔ یہی کوشش غالباً اس فلم کی کامیابی کی ایک وجہ بھی ہو سکتی ہے لیکن ۔ ۔ ۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ دائیں بازو کی انتہا پسندی اور الٹرا قوم پرستی جو پچھلے کچھ سالوں سے انڈیا میں بھی بُری طرح چھائی ہوئی ہے اس فلم کی کامیابی کی اصل وجہ ہو؟ جس میں میگھنا خود بھی تو نہیں بہہ گئی ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔