لہو سے کرب و بلا بھگونے کا دکھ الگ ہے
خدا کے ہوتے یہ رنج ڈھونے کا دکھ الگ ہے
جو رب کی مرضی مگر وہ یوسف ہی جانتے ہیں
کہ پاک دامن کے داغ دھونے کا دکھ الگ ہے
وہ روز مرتے ہیں جن کو گردوں کا عارضہ ہو
رگوں میں ہر دن نڈل چبھونے کا دکھ الگ ہے
گلے کی ہڈی بنی ہوئی ہے حدیثِ قرطاس
اور اس پہ فرقوں کے بیج بونے کا دکھ الگ ہے
مرے ہوؤں کو مزید کچلا ہے بندشوں نے
غریب ملکوں کے ہاں کرونے کا دکھ الگ ہے
ہماری نسلیں ہمیں نہ روئیں تو کس کو روئیں؟
ہمارے رونے اور ان کے رونے کا دکھ الگ ہے
ہزار دکھ ہیں کسی طرح سکھ نہیں میسر
ذرا سے دل میں یہ دکھ سمونے کا دکھ الگ ہے
===========================
کڑی زمینوں میں فصل بونے کا دکھ الگ ہے
غمِ جہاں سے غزل پرونے کا دکھ الگ ہے
یہ دکھ بھی اپنی جگہ بڑا ہے کہ مر رہے ہیں
غلط زمانے میں پیدا ہونے کا دکھ الگ ہے
یہ کیسا دکھ ہے؟میں اپنے ہونے کو رو رہا ہوں
اور اپنے رونے پہ ماں کے رونے کا دکھ الگ ہے
جو دکھ کا لنگر پچا سکے سلسلے میں آئے
فقیر کے اوڑھنے بچھونے کا دکھ الگ ہے
وہیں کتابیں،وہیں مصلی،وہیں پہ سیگریٹ
ہمارے کمرے کے کونے کونے کا دکھ الگ ہے
میں یوں بھی عادی ہوں جاگنے کا یہ دکھ نہیں ہے
کسی کے پہلو میں اس کے سونے کا دکھ الگ ہے
میں دین و دنیا گنوا چکا ہوں یہ دکھ ہے کاشر
مگر وہ اک شخص: اس کو کھونے کا دکھ الگ ہے