سولہ دسمبر کا دن پاکستانی قوم شاید کبھی فراموش نہ کر پائے ۔
اسی دن یہ ملک دو لخت ہوا تھا
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
یہ وہی چراغ ہے جس کے دامن میں سوائے گھٹا ٹوپ اندھیروں کے کچھ بھی تو نہیں ہوتا ۔ دھرتی کے ناخلف بیٹے ماں کا دفاع تو کیا خاک کرتے الٹا اس کی ہری بھری کوکھ ہی اجاڑ ڈالی ۔ قوم کے میر جعفر اور میر صادق اس کے علاؤہ اور بھلا کر بھی کیا سکتے ہیں ۔اس سانحہ پر بے تحاشہ لکھا گیا اور لکھا جاتا رہے گا ۔ اس کو بھلانا ناممکن تھا لیکن اسی دن ایک ایسا سانحہ ہوا کہ اس نے سقوط مشرقی پاکستان کی یاد بھی دھندلا کر رکھ دی ۔ عجیب بات ہے کہ لوگوں نے اس کا نام سانحہ پشاور رکھ دیا جب کہ یہ تو سانحہ پاکستان ہے
اس سانحہ کے حوالے سے یہ شعر اپنی مثال آپ ہے
پھول دیکھے تھے جنازوں پہ ہمیشہ
کل میری آنکھ نے پھولوں کے جنازے دیکھے
یہ پھولوں کے جنازے ہی تھے کہ جس نے اس بکھرے اور سہمے ہجوم کو ایک قوم بنا ڈالا ۔
جب ظلم حد سے سوا ہونے لگے تو پھر خالق قدرت پر یہ لازم ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے قادر مطلق ہونے کا عملی ثبوت فراہم کرے ۔
اور ایسا ہوا بھی ۔ جب زبان خنجر کو اپنی اوقات یاد نہ رہی تو آستین کا لہو پکار اٹھا ۔اس کی آواز میں ایسی گھن گرج تھی کہ ظالموں کی سٹی گم ہو گئی ۔ فضا میں ہاتف غیبی کا یہ الہامی ترانہ گونج اٹھا
جَآءَ الۡحَقُّ وَ زَہَقَ الۡبَاطِلُ ؕ اِنَّ الۡبَاطِلَ کَانَ زَہُوۡقًا
حق آ گیا اور باطل مٹ گیا کہ باطل کے لیے تو فنا ہے ہی
پاک فوج نے قوم کی ہر ممکن سپورٹ ملنے پر وہ کارہائے نمایاں انجام دیے کہ جس نے پوری دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ۔ اس بات میں شک کی بھلا کیا گنجائش کہ ہماری طاقت ور فوج نے وطن عزیز کو عراق افغانستان لیبیا شام نہیں بننے دیا ۔
اور یوں دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا پہلا اور واحد مر میدان پاکستان بنا ۔ ہم سے اولیت کا یہ اعزاز قیامت تک کوئی نہیں چھین سکتا ۔
آخر میں دل کی گہرائیوں سے کہیں گے
سلام شہدائے پشاور
سلام پاک فوج
سلام پاکستان