لاہوری ہونے کیلئے مائوں کو بھول جانا ضروری ہے؟
لاہور کو ’’ لاہور‘‘ ، باہر سے آنے والوں نے بنایا
ایک دوست نے میری ایک پوسٹ پر کمنٹ میں طعنہ زنی فرمائی ہے کہ لاہور پر تنقید ایک مائنڈ سیٹ ہے ، ان لوگوں کا جو لاہور کی سہولتوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن اپنی مائوں کے شہروں کو نہیں بھولتے، فکر وہاں کی رہتی ہے ، اکثر وہیں بھاگے جاتے ہیں۔
مجھے الزبتھہ یاد آگئی، خیر اس کا ذکر بعد میں، پہلے یہ عرض کردوں کہ پنجاب جن علاقوں پر مشتمل ہے، ان سب کے لوگوں کا اس کے دارالحکومت پر یکساں حق ہے۔
معلوم نہیں انہوں نے لاھور پر تنقید کا تاثر کیسے لیا۔
لاہور کی ترقی پر کسے اعتراض ہے؟ شکایت تو غیر متوازن ترقی اور غلط ترجیحات پر ہے۔
لاہور میں مرغزار، سبزہ زار ، اعوان ٹائون کے قرب میں ہی ایک آبادی ’’ ڈُبن پورہ‘‘ کہلاتی ہے کہ وہاں گندا پانی کبھی خشک ہی نہیں ہوتا، جس دن وہ ’’ترن پورہ‘‘ ہوگئی ، ہم سمجھیں گے کہ لاہور نے واقعی ترقی کرلی۔ چالیس سال پہلے لاہور میں بارش کے بعد جن جگہوں پر گھنٹوں پانی کھڑا رہتا تھا، وہاں اب بھی وہی حال ہے۔ شملہ پہاڑی سے لکشمی تک سڑک پر دس گڑھے ہیں جو جان لیوا حادثے کا سبب بن سکتے ہیں لیکن حکام کی توجہ صرف اربوں کے منصوبوں پر ہے۔
بات تھی پبلک ٹرانسپورٹ کی بد ترین حالت کی۔ موصوف فرمائیں انہیں لاہور میں کسی بس، ویگن میں سفر کئے کتنا عرصہ ہوا؟ میں تو روز کرتا ہوں ، مجھے پتہ ہے کتنی بہتری آئی۔
میری دوتہائی زندگی لاہور میں گزرگئی، یہ عرصہ حمزہ شہباز اور مریم نواز کی عمر سے زیادہ ہے۔ میرے بیٹے نے بہاولپور کا ڈومی سائل بنوانے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ میں تو لاہور میں پیدا ہوا اور لاہور کا ہی ڈومی سائل بنوایا ، حالانکہ بہاولپور کا ڈومی سائل ہونے سے یونیورسٹی کو فیسوں کی مد میں ادا کئے ہوئے لاکھوں روپے واپس مل سکتے تھے۔
موصوف فرمائیں کہ مجھے لاہور میں رہنے کا حق دینے کیلئے انہیں کیا چاہئیے ؟
اصلی لاہوری بننے کیلئے اگر مائوں کو بھول جانے کی شرط ہے تو ایسی لاہوریت پر لعنت !
جہاں تک میرے اپنی ماں کے شہر جانے کا تعلق ہے، نواز اور شہباز شریف جتنی بار لندن جاتے ہیں ، میرے بھاولپور کے وزٹ اس کا پانچواں حصہ بھی نہیں ۔
ویسے کوئی ڈیڑھ ماہ سے کوئی شہر میری ماں کا شہر نہیں رہا۔
حقیقت یہ ہے کہ لاہور کو لاہور بنانے میں لاہوریوں سے بہت زیادہ باہر سے لاہور آنے والوں کا
کنٹری بیوشن ہے ۔ یہ سلسلہ سید علی ہجویری ؒ اور حضرت میاں میر ؒ سے آج تک جاری ہے ۔
علامہ اقبال اور ظفر علی خان سے مولانا غلام رسول مہر، عبدالمجید سالک، ،حمید نظامی ، وقار انبالوی ، عبدالقادر حسن، ارشاد احمد حقانی اور ارشاد احمد عارف سے سہیل وڑائچ اورسعید آسی تک
چراغ حسن حسرت سے نثار عثمانی، عزیز صدیقی ، آئی اے رحمنٰ، منو بھائی ، شفقت تنویر مرزا، نذیر ناجی ، حسن نثار ، ضیا شاہد ،امتیاز عالم، وجاہت مسعود اور عدنان عادل تک
پطرس بخاری اورصوفی تبسم سےفیض احمد فیض ، احمد ندیم قاسمی ،ظہیر کاشمیری، انتظار حسین ،اشفاق احمد، منیر نیازی ، محمد خالد اختر، محمد کاظم ، مسعود اشعر ،محمد سلیم الرحمنٰ، صلاح الدین محمود، ظفر اقبال،اظہر جاوید ،اصغر ندیم سید،احمد عقیل روبی،غلام حسین ساجد ، ابرار احمد، عباس تابش ، زاہد مسعود اور زاہد حسن تک
محمد حسین آزاد سے ڈاکٹر سید عبداللہ ، سید وقار عظیم ، عبادت بریلوی، سجاد باقر رضوی ، خواجہ محمد زکریا، سہیل احمد خاں اور محمد کامران تک
حجاب امتیاز سے بانو قدسیہ، ہاجرہ مسرور، خدیجہ مستور ، رضیہ نور محمد، نثار عزیز بٹ، فرخندہ لودھی، سلمیٰ اعوان، پروین ملک، مسرت کلانچوی، رخسانہ آرزو اور حمیدہ شاہین تک
مولانا مودودی سے مولانا غلام مرشد، نوابزادہ نصراللہ ،علامہ طاہر القادری اور لیاقت بلوچ تک
ڈاکٹر مبشر حسن سے مہدی حسن، وارث میر، مسکین حجازی اور شفیق جالندھری تک
نورجہاں سے صبیحہ ، نیلو،انجمن اور ثریا خانم تک
احمد راہی سے وارث لدھیانوی،حزیں قادری، دلدار پرویز بھٹی ، سہیل احمد، آفتاب اقبال تک
کوئی بھی لاہور میں پیدا نہیں ہوا ۔ ہاں میں گنگا رام کو تو بھولے جارہا تھا۔
خالص لاہوری تو سلطان ٹھیکیدار تھا ، جس نے قبرستانوں، مقبروں اور تاریخی عمارتوں کی اینٹیں اکھاڑ کر انگریزوں کو لاہور ریلوے سٹیشن بنانے کیلئے بیچ ڈالی تھیں۔
یہ نہیں کہ لاہور میں بڑے لوگ پیدا نہیں ہوئے، لیکن یہاں کی علم و ادب اور فنون سے متعلق ایک سو اہم شخصیات کی فہرست بنائیں تو پیدائشی لاہوری چار پانچ سے زیادہ نہیں نکلیں گے۔
بھائی آپ چاہتے ہیں کہ لاہور اور دوسرے بڑے شہروں پر آبادی کا دبائو کم ہو تو وہ کم از کم سہولتیں جو ان شہروں میں ہیں ، پہلے وہ ہر جگہ پہنچادیں، سب کے سانجھے پیسے ہر جگہ یکساں خرچ ہوں ۔
ہاں، الزبتھہ کا معاملہ یہ ہے کہ 1940 کے عشرے کی بات ہے
ہندوستان کی آزادی کیلئے ایک جلوس نکلا ہوا تھا۔ شور سن کر کسی گھریلو عورت نے باہر جھانکا اور جھاڑو دیتی ہوئی الزبتھہ سے پوچھا ’’ یہ کیا کہہ رہے ہیں ؟‘‘
الزبتھہ نے جواب دیا
’’ساتھوں آزادی منگدے نیں‘‘
( ہم سے آزادی مانگتے ہیں )
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“