اکثر سرائیکی قوم پرست، کچھ پنجابی دانشور اور بہت سے تاریخ دان اس بات کے قائل ہیں کہ لاہور دو ہزار سال سے زیادہ پرانا نہیں۔ بہت سے دانشور تو یہ بھی سمجھتے ہیں کہ غزنوی دور حکومت سے پہلے لاہور کی کوئی خاص اہمیت نہ تھی۔ ڈسٹرکٹ گزیٹر لاہور میں یہ پڑھ کے حیرت ہوئی کہ لاہور مغلوں کے عہد سے پہلے کوئی اہم اور بڑا شہر نہ تھا۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ بالکل غلط فہمی ہے کہ لاہور سے انڈس ویلی اور دوسری قدیم تہذیبوں کے کوئی آثار نہیں ملے۔ 1959 میں شاہی قلعہ میں ہونے والی کھدائی کے نتائج کھبی جاری نہیں کئے گئے۔ آبادی بڑھ جانے سے اندرون لاہور اور دیگر جگہوں پر کھدائی ناممکن ہو گئی۔ ورنہ یہ ایک حقیقت ہے کہ صرف شہر لاہور ہی نہیں اس کے مضافاتی علاقے بھی انتہائی قدیم آثار سے پر ہیں۔ البتہ تحقیق ان پر کھبی نہیں کی گئی۔
ایک اور بات جو بار بار کی جاتی ہے وہ سکندر یونانی کے حملے کے دوران لاہور نام کے کسی شہر کا نہ ہوناہے۔ لیکن اس حقیقت کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا ہے کہ سکندر یونانی کے حملے کے حوالے سے تمام معلومات یونانیوں نے دی ہیں۔ اسکندر کے ہندوستان پر حملے کاکوئی ذکر قدیم ہندو لٹریچر میں نہیں ملتا۔ یونانیوں نے ان حملوں کا بیان کرتے ہوئے حقائق کو اس طرح سے توڑ مروڑ دیا ہے کہ اس حوالے سے کوئی رائے قائم کرنا مشکل ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ لاہور میں یونانی عہد کی کوئی چیز نہیں ملی۔ 1877 کی ایک رپورٹ کے مطابق لاہور میں یونانی عہد کے سکے ملے ہیں۔
بدھ مت کے بانی گوتم بدھ کی لاہور آمد کا تذکرہ تو لاہور کے حوالے سے بی بی سی کے ایک آرٹیکل میں بھی موجود ہے۔ گرو مانگٹ میں موجود جین مندر میں جین مذہب کے بانی مہاویر سوامی کے قدموں کے نشانات موجود تھے۔ (اب کا معلوم نہیں) ۔مہاویر کا پنجاب آنا کافی مشہور تاریخی حقیقت ہے۔ اس سے کچھ اشارہ ملتا ہے کہ شاید لاہور سکندر کے ہندوستان پر حملے سے بہت پہلے آباد ہو چکا تھا اور ایک مشہور شہر بن چکا تھا۔
رہا لاہور میں ہزار برس یااس سےقدیم عمارتیں نہ ہونے کا سوال۔ تو اس حوالے سے اکثر لوگ یہ بات نظر انداز کر جاتے ہیں کہ لاہور اپنی تاریخ کے دوران متعدد بار تباہ کن حملوں کا نشانہ بنا۔ دلی، بنارس، ملتان اور متھرا بھی بہت قدیم شہر ہیں۔ لیکن ان شہروں میں بھی ایک ہزار سال یا اس سے قدیم عمارتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔
لاہور کی تاریخ پر تحقیق کرنے والے بھائیوں سے گذارش یہی ہے کہ اس شہر کی تاریخ کے حوالے سے حقائق کا سرسری جائزہ مت لیں اور اس شہر کی تاریخ اور آرکیالوجی پر صرف تاریخ لاہور کی برٹش انڈیا کے وقتوں میں لکھی گئی کتابوں پر انحصار نہ کریں۔ لاہور کی تاریخ کے حوالے سے بہت سےپوشیدہ حقائق ابھی دریافت ہونا باقی ہیں۔