لاہور لٹریری فیسٹول۔ ادب اور لاہور کہاں؟
چند سال قبل پاکستان میں لٹریری فیسٹیول کا سلسلہ شروع ہوا جس کا آغاز ایک عالمی اشاعتی ادارے نے کیا۔ اسے دیکھا دیکھی لاتعداد لٹریری فیسٹیولز منعقد ہونے لگے۔ لاہور میں چند سال قبل جب میں اس عالمی ادارے کے لٹریری فیسٹیول میں پہنچا تو مجھے موضوعات، مقررین اور سامعین کو دیکھ کر حیرت ہوئی جہاں پنجاب پر گفتگو کے لیے برطانیہ سے کسی گورے اور پاکستان پر بولنے کے لیے کسی آسٹریلین کو مدعو کیا گیا۔ پاکستان اور لاہور میں برپا اس فیسٹول کو میں نے زمین اور زمین سے جڑے ادب اور ادیبوں سے مکمل طور پر انگریزی میں لکھی گئی کتابیں اور اسی طرح انگریزی میں جاری گفتگو میں پایا۔ مجھ جیسے متحرک شخص نے جو لاہور میں پچھلی چار دہائیوں سے سیاسی، سماجی اور ادبی سرگرمیوں میں کسی نہ کسی حوالے سے شریک رہا ہوں، وہاں پہلی مرتبہ اپنے آپ کوAlien پایا۔ سینکڑوں کی تعداد میں خوب صورت اور ماڈرن لڑکے لڑکیوں، ادیبوں، مقررین میں صرف دو چہرے تھے جن سے میں آشنا تھا۔ دوسرے روز جب میں نے پاکستان کے دو معروف ادیبوں ڈاکٹر انور سجاد اور مستنصر حسین تارڑ سے اس کا ذکر کیا، تو اُن کا بھی یہی ردِعمل تھا۔ لاہور میں جنم لینے والا ادب اور ادیب ان لٹریری فیسٹولز (ادبی میلے )سے مکمل طور پر یقینا شعوری طور پر کاٹ کر رکھے گئے ہیں۔ لاہور کہ جو ادیبوں، ادب اور ثقافت کا شہر ہے، وہاں پر برپا یہ لٹریری فیسٹول کسی انگریزی فلم کا نظارہ پیش کررہا تھا کہ جہاں خوبصورت Aliens نے حملہ کردیا ہو۔ اور یہ سلسلہ اب باقاعدگی سے جاری ہے۔
کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں اِن ادبی میلوں کے پیچھے ایک عالمی اشاعتی ادارہ بنیادی کردار ادا کرتا ہے جو ادبی، فکری، تحقیقی کتابوں کی اشاعت میں نہایت محدود ہے۔ مگر ’’عالمی لیبل‘‘ ہونے کے ناتے کلونیل سماج میں ’’قدر‘‘ کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اگر آپ اس عالمی اشاعتی ادارے کی شائع کردہ کتابوں کی فہرست پر نظر ڈالیں تو زیادہ تر ریٹائرڈ جرنیلوں، سابق بیوروکریٹس، سابق نوابوں اور اوپری طبقات کی کتابیں شائع کرنا ان کی Priority ہے۔ البتہ کبھی کبھی Eyewash کے لیے چند ادبی کتابیں بھی شائع کرکے اپنی ساکھ پر آنچ نہ آنے کا موقع بنا ہی لیتا ہے۔ اس ادارے کا بنیادی کام پاکستان میں کاروبار ہے۔ اور وہ ان قیمتی یعنی زیادہ فیسوں پر چلنے والے سکولوں اور درس گاہوں کی کتابیں شائع کرتا ہے جہاں پاکستان کے Elite یعنی حکمران طبقات اور حکمران طبقات میں شامل ہونے کی خواہش رکھنے والے چند درمیانے طبقے (پیٹی بوژروا)کے گھروں کے بچے پڑھتے ہیں۔اِن کتابوں کا سالانہ کاروبار کروڑوں روپے سے زیادہ ہے، شاید ڈیڑھ دو ارب روپے۔
ہر سال کی طرح اس برس بھی 24-25 فروری کو لاہور میں یہ لٹریری فیسٹول منعقد ہوا۔ اس مرتبہ ایک دلچسپ اور حیران کن چیز سامنے آئی، وہ تھی اس میں کم لوگوں کا دلچسپی لینا۔ حاضرین اور سامعین کے حوالے سے اس سال برپا ہونے والا یہ ادبی میلہ درحقیقت ایک فلاپ میلہ تھا۔ اسی پلیٹ فارم سے اسی مقام پر شروع شروع میں لوگوں کی جو حاضری رہی، اس مرتبہ ان لوگوں کی تعداد 20فیصد سے کسی طور زیادہ نہ تھی۔ ایسے ہی ادبی میلے بھارت میں برپا ہوتے چلے آ رہے ہیں اور یہی عالمی ادارہ وہاں بھی متحرک ہے۔ مجھے یاد ہے کہ چند سال قبل راجستھان میں اس ادبی میلے نے پوری دنیا کو اپنی طرف متوجہ کرلیاجہاں دنیا بھر سے بڑے بڑے ادیب شامل ہوئے۔ انہی میں پاکستان کی نوجوان ادیبہ فاطمہ بھٹو بھی شامل تھیں۔ بھٹو خاندان سے تعلق رکھنے والی ایک خوب صورت دبلی پتلی لڑکی جو اِن محفلوں میں اپنے خاندان کے اندرونی فساد کو بیان کرکے لوگوں کو حیران کردیتی ہے۔ پاکستان جیسے مردانہ معاشرے کی آکسفورڈ لہجے میں انگریزی بولتی لڑکی اور اس کے ساتھ ساتھ ترقی پسند نظریات۔ یقینا یہ حیران کردینے والے اسباب تھے۔ اس کے بعد بھی دیگر ایسے ہی لٹریری فیسٹولز میں وہ شامل ہوئیں۔ لیکن دو سال قبل جب میں نے فاطمہ بھٹو کی والدہ غنویٰ بھٹو صاحبہ سے اس بارے میں پوچھا تو اُن کا کہنا تھا کہ اب فاطمہ اِن لٹریری فیسٹولز میں شامل ہونے کے خلاف ہے۔ یقینا وہ ان ادبی فیسٹولز کی نہ نظر آنے والی حقیقت اور اشرافیائی ثقافت کو اپنے تجربے سے جان گئی ہوں گی۔ فاطمہ بھٹو بلاشک ترقی پسند نظریات، امریکی سامراج کی نقاد اور دنیا میں طبقاتی تقسیم کے خلاف اپنی ایک آواز رکھتی ہیں۔
اس سال لاہور میں برپا اس ادبی میلے میں دونوں روز میں سامع سے زیادہ ایک Observer کی حیثیت سے شامل ہوتا رہا تاکہ ادب کے نام پر سجی اس تقریب کو جان سکوں۔ حسب روایت اردو، پنجابی، پشتو، بلوچی، براہوی، سرائیکی اور دیگر قومی ادب اور ادیب ناپید تھے۔ البتہ اینگلو سیکسن ادیبوں کا ایک سلسلہ وہاں موجود تھا جو کتابوں اور مختلف موضوعات پر گفتگو کررہے تھے۔ ’’نظربٹو‘‘ کے لیے کشور ناہید اور ان جیسے دیگر دو چار ادیب وہاں لائے گئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک سیشن میں پاکستان میں مزاحمتی شاعری پر دہائیوں سے واشنگٹن میں موجود ایک پاکستانی نژاد امریکی خاتون ماڈریٹر تھیں۔ ترچھی انگریزی کے اندر اردو لپیٹ کر پاکستان کے مزاحمتی شاعروں بشمول حبیب جالب اور فیض پر گفتگو کرتے ہوئے وہ نہ جانے کیا بیان کرنا چاہ رہی تھیں اور اسی طرح ہال میں لاہور کا وہ طبقہ (اشرافیائی طبقہ) موجود تھا جن کے خلاف جالب جیسے عوامی شاعر نے پوری زندگی شاعری اور جدوجہد کی۔
اسی فیسٹول میں ایک سیشن نے مجھے چونکا دیا۔ میرا ترکی سے تعلق، شہباز شریف کے میٹرو بس لانے اور ترک ڈراموں کے نشر ہونے سے دہائیوں پہلے قائم ہوا۔ اس کے دو اسباب تھے۔ ایک ترکی کا سیاسی نظام اور دوسرا میرا بحیثیت سبجیکٹ یعنی پولیٹکل سائنٹسٹ ہونے کے ناتے مشرقِ وسطیٰ اور ترکی میری Specialization ہے اور اپنی حقیر معلومات کے بطن سے میں نے ترکی کے اُن ادیبوں کوترجمہ کروا کر اردو ادب میں ڈھالا جن کا نام بھی یہاں شاید ہی کسی تک پہنچا ہو۔ جیساکہ اورحان کمال،یشار کمال، احمت حمدی طانپنار، عدالت آعولو، اویا بیدر، احمت امیت، زلفو لیوانلی، ماریو لیوی، سولماز کاموران، سلجوق التون، چلر الہان، صباح الدین علی، عرفان اورگا، ودات ترکالی، گُل اری پلو۔ میں عاجزی کے ساتھ دعویٰ کرسکتا ہوں کہ نوبل انعام یافتہ اورحان پاموک، ایلف شفق، ناظم حکمت(سرد جنگ میں سوویت یونین کے سبب) اور ایک دو دیگر ادیبوں کے علاوہ ترک ادب اور ادیب شاید ہی اردو کا حصہ بنتے ، اگر میری دہائیوں سے ترکی میں لی گئی دلچسپی شامل نہ ہوتی۔ اسی ادبی میلے میں ایک ترک ادیبہ چلر الہان کو بھی بحیثیت ادیب بلایا گیااور ان کی شائع شدہ کتاب "Exile"جو ترکی میں Sürgün کے نام سے شائع ہوئی، موضوعِ بحث تھی۔ یہ کتاب شام اور دیگر تباہ حال ملکوں سے ہجرت کرنے والوں کی کہانیوں پر مبنی ہے۔ راقم نے اپنی فکری دلچسپی کے سبب چند سال قبل اس کے اشاعتی حقوق حاصل کیے اور اسے اردو میں ’’دربدر‘‘ کے نام سے شائع کیا۔ میں جب ہال میں پہنچا تو چلر الہان مقامی ماڈریٹرز کی بجائے دو برطانوی نوجوانوں کے ساتھ گفتگو کے لیے بٹھائی گئی تھیں۔ اس سیشن کا نام تھا، Writings from Today's Turkey ۔ ان دو گوروں میں سے ایک کسی سیاحتی رسالے کا رپورٹر تھا اور دوسرا کسی ٹورسٹ کمپنی کا رہبر۔ گفتگو میں ادیبہ سے جو سوال اٹھائے جا رہے تھے، ان کا تعلق نہ موضوع سے تھا، نہ کتاب سے اور نہ جلاوطن ہونے والے شامی اور دیگر مہاجروں سے۔ سوال وجواب کے سیشن میں راقم نے کھڑے ہوکر چلر الہان کو ان کی اردو کتاب ’’دربدر‘‘ دکھائی تو وہ Speechless رہ گئیں اور اس کے ساتھ میں نے احتجاجاً یہ بھی عرض کی کہ یہ آپ کے ساتھ اور آپ کی شائع شدہ کتاب کے ساتھ زیادتی ہے ۔ اس صورتِ حال میں ’’عالمی اشاعتی ادارے‘‘ کے ’’چاق وچوبند‘‘ خوب صورت لڑکے لڑکیاں مجھ سے خفا دکھائی دئیے۔ بعد میں چلر الہان نے بتایا کہ جب پاکستان سے منتظمین نے مجھ سے رابطہ کیا تو میں نے کہا کہ میری کتاب پاکستان میں اردو میں شائع ہوئی ہے۔ منتظمین نے کہا کہ ’’ہمیں اس میں کوئی دلچسپی نہیں۔‘‘ چلرالہان نے جو کہا وہ راقم کی ای میلز میں موجود ہے، جو پاکستان، اردو زبان، اردو ادب اور ایسی شان دار تحریروں کو پاکستان کی قومی زبان میں شائع کرنے کی توہین ہے۔ چلر الہان اس صورتِ حال پر جس قدر دکھی ہوئیں، اس کا اندازہ وہی ادیب لگا سکتے ہیں جس کی تحریر کو چھپا کر بس اس کے چہرے کو شوپیس کے طور پر پیش کیا جائے۔ جمہوری پبلیکیشنز کے فیس بُک پیج پر چلر الہان کا مختصر ویڈیو کمنٹ اس کتاب ’’دربدر‘‘ کے ساتھ موجود ہے جسے قارئین سن سکتے اور کتاب کو خرید کر پڑھ سکتے ہیں۔ اس واقعے کے بعد کیا اب کوئی راز باقی رہا کہ اِن ادبی میلوں کا مقصد کیا ہے؟ اور بشمول راقم جو لوگ عالمی ادب کو ہمارے ہاں اپنا خون پسینہ اور مال لگاکر متعارف کروا رہے ہیں، اُن سے apartheid کا سلوک کیوں روا رکھا جاتا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر پاکستان کے قابل احترام ادیبوں کا ’’داخلہ بند‘‘ کرنے کا رویہ کیوں ہے۔