مجھے ہفتے میں ایک روز چوبرجی کے قریب ایک کام جانا ہوتا ہے۔ کینٹ سے کیولری گراؤنڈ پل سے گذر کر (پرانے) کلمہ چوک سے میں جنگلہ بس کے سائے میں آ جاتا ہوں (نقشے میں سرخ رنگ کی لکیر)، اور چوبرجی کی سڑک مڑنے تک اسکے بنانے والے کی سات پشتوں کو بددعائیں دیتا ہوں۔ ایک خوبصورت زندہ و توانا کلچر کے پیٹ میں خنجر گھونپنے کو مجسم کرنا ہو تو لاہور کی اس سڑک سے پہلے اور بعد کے لاہور کو دیکھو۔
واپسی پر میں اسی راستے سے واپس آنے کی بجائے جیل روڈ (سبز رنگ کی لکیر) سے کینٹ کا راستہ اختیار کرتا ہوں۔ اس سڑک کو سگنل فری کر دیا گیا ہے اور جگہ جگہ پل بنانے کی بجائے ڈیزائن میں یو ٹرن اس طرح رکھے گئے ہیں کہ ٹریفک مسلسل بہتی ہے، رکتی نہیں، اور مسلسل ایک کشادگی کا احساس ہوتا ہے۔ اس سڑک پر سفر کے دوران مسلسل میرے دل پر آنسو گرتے ہیں کہ اگر جیل روڈ جیسی مصروف سڑک کو سگنل فری بنایا جا سکتا ہے تو فیروزپور روڈ کو بھی ایسے ہی کیوں نہیں کیا جا سکتا ہوگا؟
رہ گئی جنگلہ بس، تو دنیا کے بہترین شہروں میں ایک ہی سڑک پر بس، ٹرام، اور عام پبلک ٹریفک اطمینان سے چلتی ہے، اگر فیروزپور روڈ کو جیل روڈ جیسا سگنل فری کیا جاتا تو شہر کا حسن بڑھ جاتا، کشادگی بھی رہتی اور جنگلہ بس کچھ منٹ کی تاخیر سے اپنی منزل پر بھی پہنچ جاتی۔
ان دونوں سڑکوں پر سفر کرتے ہر ہفتے میں اس اذیت سے گذرتا ہوں جو کسی بہت اپنے کو تکلیف میں دیکھ کر ہوتی ہے۔ مجھے لاہور ایک ایسے مریض کی طرح لگتا ہے جس کو اسٹیرائیڈ کے انجیکشن لگانے والا ایک اتائی ڈاکٹر مل گیا ہو۔ جس نے صحت کے نام پر اسٹیرائیڈ کے انجیکشن لگا کر اسکو وقت سے پہلے بوڑھا کردیا ہو۔ لاہور کے سینے پر پڑے یہ بے مصرف کنکریٹ اور لوہے کے ابھار ان کینسر والی رسولیوں جیسے لگتے ہیں جس نے ایک ہنستے بستے شہر کی حالت ہی بدل دی ہو۔
سیاست میں ایک نااہل و نالائق کی نقصان کسی حد تک جا سکتا ہے، اس سڑک پر سفر کرتے مجھے احساس ہوتا ہے۔ ایک نالائق سربراہ قوموں کا صرف حال ہی تباہ نہیں کرتا، مستقبل ہی برباد نہیں کرتا۔ بلکہ ان کی تہذیب، ان کے تمدن کی شکل بھی بگاڑ دیتا ہے۔
آخر میں آپ کو شہباز شریف کا وہ لطیفہ پھر یاد کرا دیتا ہوں، جب عدالت کو اورنج ٹرین پر جواب دیتے موصوف نے کہا کہ "تاریخی عمارتیں ہم دوبارہ بنوا دیں گے"
خدا کے عذاب کی ایک شکل برے حکمران بھی ہوتے ہیں کاش یہ ہم سمجھ سکیں۔