اگر آپکا تعلق مطالعۂ پاکستان کے خانوادے سے ہے اور آپ یہ سمجھتے ہیں کہ 6 ستمبر 1965 کی صبح عیار دشمن نے بغیر اعلان ہم پر جنگ مسلط کردی تھی کہ وہ اسی شام لاہور جمخانہ میں جام پر جام لنڈھائے تو مناسب ہے آپ ابھی سواری بدل لیجیے
مزید برآں اگر آپ کو یہ مغالطہ بھی لاحق ہے کہ ستمبر کی جنگ میں ہماری شیردل سپاھ کی راست امداد میں کچھ سبزپوش بزرگ بھی تھے جو ہندوستانی گولوں کی تاک میں بیٹھے تھے اور پلوں پر گرنے سے پہلے اچک کر انہیں کیچ کرلیتے تھے تو بھی آگے مت پڑھیے کہ آپکو مایوسی ہوگی۔
ہماری اس کہانی کاپل گستاخانہ حد تک گمراہ تھاکہ کسی سبز جریب والےبزرگ کامعتقد توبہت دورکی بات ہماری اپنی سپاھ کے گولہ بارودسےبھی تباہ ہونےسےیکسر انکاری
رہ گئی بات لاہور جمخانہ میں جام لنڈھانےکی تو اس سلسلےمیں ہم کافی حد تک خود کفیل تھے۔ اس شغل کے لیے ہمیں کسی عدو کی ضرورت نہ تھی تو صاحبوفوج سے ریٹائرمنٹ لےلینےکےبعد والےایک ستمبرکاذکر ہےکہ میں ایک نجی میڈیکل لیب کےتازہ تازہ نمو پاتےلاہور ریجن کے آپریشنز کی کمان سنبھالنےاسلام آباد سےاس شہر دلپذیر میں وارد ہواتھا اور ابھی ہوٹلوں اور گیسٹ رومز کا مہمان تھا۔ لاہور کی محبت سے بوجھل ایک شام دل جو بہکا تو وائی بلاک سےکشاں کشاں نہر پر لے آیا
لاہوربرانچ نہر جو بمبانوالہ راوی بیدیاں لنک کینال سے نکلتی ہمارے دلدار شہر کو دو حصوں میں کاٹتی ٹھوکرنیاز بیگ سے ہوتی ملتان روڈ کی ہمراہی میں رائے ونڈ کی زمینوں کو جانکلتی ہے
ایک زمانہ تھا کہ باغبان پورہ سے تھوڑا اِدھر جی ٹی روڈ کی سنگت میں گھوڑےشاہ سےگِرے اورکاپرسٹور میں اٹکےہم یوای ٹی کےباسی لاہور کی نہرسےحسد کرتےتھےکہ اس پر پنجاب یونیورسٹی کانیو کیمپس آتاتھا جہاں بقول فرحت عباس شاہ
نہر کے کنارے پر
شام سے ذرا پہلے
تتلیاں اترتی ہیں
آتے جاتے پھولوں کو
چھیڑکرگزرتی ہیں
ہمارے حسد کی وجہ آخری دو لائنوں میں صاف ظاہر ہے الیکٹریکل اورمکینیکل کی ‘خشک سالی’ کےترسےہوؤں کا کانسولیشن پرائزآرکیٹیکچر ڈیپارٹمنٹ تھاجس میں ہمارا یاردلدار کیڈٹ کالج پٹارو کا’ناصی‘ راجہ اندر بناپھرتاتھا
کیا دن تھے! اب پلوں کےنیچے سے اتناپانی گزرجانے کے بعدہمیں تویہ بھی یاد نہیں کہ یہ نظم فرحت عباس شاہ نے کہی تھی کہ کسی اورنے آپس کی بات ہےفرحت عباس شاہ بھی کچھ اس سبب سےیادآئےکہ کچھ عرصےبعدجب دھڑادھڑ ان کی کتابوں کاتانتاسابندھ گیاتوایک دوست نےان کی تخلیقات کےنوماہی اشاعتی وقفےکوایک اوربھلے سےفطری عمل سےتشبیہہ دی تو سچ کہیں ہمارادل زچہ اوربچہ دونوں سے کھٹاہوگیا
دیکھیے باتوں رو میں قلم پھر بہکنے لگا واپس لاہور کینال کی اور پلٹتے ہیں۔ لاہور کینال کا منبع و مخرج بمبانوالہ راوی بیدیاں لنک نہر ہےجو ڈسکہ کی قربت میں بمبانوالہ گاؤں کے پاس اپرچناب کینال سے نکلتی راوی کےنیچے سے گزرتی، بیدیاں کی قدم بوسی اور قصور شہر کا طواف کرتی لگ بھگ سو میل کا فاصلہ طے کرکے چونیاں کے جنوب میں کنگن پور گاؤں کے پاس دریائے ستلج میں جاگرتی ہے۔
ہمارے لاہورکے کھوجی ماجد شیخ بتائیں گے کہ یہ نہر اور اسکی لاہور سے گزرتی شاخ انگریز سرکار نے 1861 میں لاہور اور فیروزپور کے بیچ کی بنجر زمینوں کی آبادکاری کے لیے نکالی تھیں۔ یہ منصوبہ لگ بھگ شاہجہانی دور میں کھدی مادھوپورسے نکلتی شاہ نہر سے مشابہہ تھا جسکا پانی شالامار باغ کے قطعوں اور فواروں کو زندگی بخشتا تھا۔ ہماری تاریخی روایت میں یہ شاہ نہر علی مردان خان کی تعمیری مہارت سے منسوب ہے جو شاہ جہان کے دربار سے منسلک تھا اور جس کا مزرا مغلپورہ کی ریلوے ورکشاپ کے احاطے میں آج بھی کھڑا ہے۔
اب اگر آپ روایتی تاریخ سے ہٹ کر ہمارے گرو سلمان رشید کو پڑھتے ہیں تو وہ آپکو بتائیں گے کہ شاہ نہر کا علی مردان کی تعمیری مہارت سے اتنا ہی جوڑ ہے جتنا بحریہ ٹاؤن کا ملک ریاض سے (معاف کیجیے گا یہ مثال ہماری خود کی تاویل کردہ ہے)
زک قبیلےکاترک علی مردان خان شاہجہانی دربار کاچرب زبان فراڈیا تھا۔ جب وہ قندھار کا گورنر تھا تو اس نے مغلوں سے سازباز کرکے وفاداریاں بدلیں اور شاہجہاں کا قرب حاصل کیا۔ شاہ نہر کے نام پر اس نے شاہ ٹھگی کی اور اس کے ناکام منصوبے کو بعد میں مغل ہنرمندوں نے انجام تک پہنچایا۔ وہ جسے انگریزی زبان میں انٹرسٹنگ ٹرن آف ایونٹس کہتےہیں، بالکل اس کےمصداق مغلپورہ ریلوےورکشاپ میں دفن مقبرےمیں آج کاعلی مردان خان ایک صوفی ہےجس کےدربارپرعرس ہوتاہے، چادریں چڑھتی اورمنتیں مانی جاتی ہیں
دیکھیں ہم پھرراستہ بھول گئے۔ ایک مغلیہ شاہ جی اورانکی شاہ نہرکی بھول بھلیوں سےنکلتے ہیں اوربمبانوالہ راوی بیدیاں لنک کینال کوپلٹتےہیں یہ نہر بی آربی کے نام سے معروف ہے اور 1965 کی پاک بھارت جنگ میں لاہور کی دفاعی لائن بن کر سامنے آئی۔ ہمسایہ ممالک کے عسکری روزنامچے اسے اچھوگلِ کینال کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ ستمبر ۲۰۱۴ کی اس لاہورکی محبت سے بوجھل شام میں لاہور برانچ کینال سے سیدھا بی آربی نہرکی طرف آنکلا تھا۔
جہاں لاہورکینال اور بی آربی آپس میں گلے ملتی ہیں وہیں اگر ہم منہ اور نیت شمال کی سمت کرلیں اور نہرونہر ہوجائیں تو لگ بھگ چار۔پانچ فرلانگ پر جہاں جی ٹی روڈ ہماری نہر سے گزرتاہے باٹا پور کا پل ہے۔ 6 ستمبر کی صبح ایک کمال چابکدستی سے انڈین ۳ جاٹ کی پلٹن اس پل کی طرف رواں دواں تھی جب پاکستانی ۳ بلوچ کے سپاہی رات کے مارچ کے بعد ابھی مورچے تازہ کرنا شروع ہی ہوئے تھے۔
باٹاپور کی یادگارپر ایک عبارت جنگِ ستمبرکے شہیدوں اور غازیوں کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے ہمیں بتاتی ہے کہ اس میدانِ جنگ میں بہت سی پلٹنوں اور ان کے سپاہیوں کا لہو شامل ہے۔
توآئیےباٹاپور کےپل سےمشرقی سمت واہگہ کی سرحدی چوکی کو چلتے ہیں، جہاں ڈوگرئی ہے، گوصل دیال کےگاؤں ہیں، اور پاکستان انڈیا کو کاٹتا انٹرنیشنل بارڈر ہے۔
6 ستمبرکی صبح چار بجےکا وقت تھاجب لیفٹیننٹ کرنل ڈیسمنڈ ہیڈ کی قیادت میں انڈین 3 جاٹ کےجوان پاکستان کی سرحد میں داخل ہوگئے کوئی سوا گھنٹےکی مہلت میں یہ پلٹن سرحد سےپندرہ سوگزاندر لاہور سے15 میل دور گوصل اور دیال کےگاؤں پر قابض ہوچکی تھی۔
دیال گاؤں میں پاکستان کی 23 فیلڈ آرٹلری رجمنٹ کےآبزرور لیفٹیننٹ عبدالمالک نےواہگہ کی طرف سےفائرنگ کی آواز سنی تو جیپ لےکر نکلے۔ تھوڑی دورجاکر انہیں جی ٹی روڈ کےاطراف ایک اجنبی وردی میں ملبوس فوجی مارچ کرتے دکھائی دیے۔ یہ ہندوستانی فوج تھی۔انہیں لیفٹیننٹ مالک کو جنگی قیدی بنانےمیں دیر نہیں لگی۔
گوصل ۔ دیال گاؤں میں تاخیری حربے کے طورپر ہندوستانی سپاہ سے ہلکی جھڑپ کے لیے پاکستانی 11 فرنٹیئرفورس کی ڈیلٹا کمپنی میجر عارف جان کی قیادت میں ریکائل لیس رائفل بردار جیپوں کے ساتھ موجود تھی مگر یہ 3 جاٹ کے اچانک حملے کا وزن نہ سہارسکی۔
آگے والی پلاٹون جس میں میجرصاحب موجودتھے اسے پس قدمی کی مہلت نہ ملی اور ان میں سے اکثر شہید ہوگئے اور بقیہ جنگی قیدی بنالیے گئے۔
جب جنگ ختم ہوگی تو جنگ بندی کے بھی کافی عرصے بعد 2 مارچ 1966 کو انڈیا سے ملنےوالے شہداکےجسدِ خاکی میں سے ایک کی شناخت میجر عارف جان کے نام سے ہوگی۔ 11 ایف ایف کے ڈیلٹا کمپنی کمانڈر میجر عارف جان، 6 ستمبر کو اپنی فارورڈ پلاٹون کےساتھ 3 جاٹ سے لڑتے ہوئے شہید ہوگئے تھے۔
وہ رائل آرٹلری بازار کےپاس لاہورکینٹونمنٹ بورڈ کے شہداء قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں جہاں انکی تدفین جسدِخاکی ملنے کے بعد 4 مارچ 1966 کو پورے فوجی اعزاز کے ساتھ کی گئی
___
بہت دن نہیں گزرےکہ ‘دوہمسایہ ملکوں’ کےمابین بیتی جنگی جنون کی ایک حالیہ قسط کےدوران ہماری میجرریٹائرڈقیصرمحمود حال مقیم کینیڈاسےفون پرگفتگورہی۔ آپ ہمارےسینیئرہیں اورفوج سےرضاکارانہ ریٹائرمنٹ سےقبل لگ بھگ سات سال نوشہرہ، کھاریاں اور کاکول میں ہمارا ساتھ رہا
ہم(اس وقت کے) حالات حاضرہ کے تناظر میں جنگ چھڑجانے کے بعدمحاذِ جنگ پر طلبی کی صورت میں اپنے آپشنز پر غورکررہے تھے۔ ہماری مشترکہ رائے یہ طے پائی کہ توپخانے کے ریٹائرڈ میجر ہونے کے ناطے ہم ہم دونوں ٹھہرے فوج کے ہما شما (آپس کی بات ہے ’توپوں کاچارہ‘ بمثل cannon fodder کہنے کی ہماری ہمت نہیں پڑی) بہت ہوا تو میدانِ جنگ میں ہماری کھپت کی معراج کالاخطائی کےریزرو فارسٹ میں کسی درخت کی مچان ہوگی۔ جہاں کسی انفنٹری پلٹن کی راست امداد میں گولوں کی بارش پر ہمارا دیا گیا فائری حکم عین وقت پر رد کردیاجائےگا جیسے کہ 6 ستمبر 1965 کی صبح لاہور کی سرحد پر بیٹھے کیپٹن ریٹائرڈ خوشی محمد کےفائری احکام کا حشر ہواتھا۔
کیپٹن خوشی محمد ایک ریزروسٹ افسر تھے جو گیارہ بلوچ کی براوو کمپنی کے ساتھ آرٹلری آبزرور تعینات تھے۔ اوائلِ ستمبر کی طلوع ہوتی ایک لاہوری سویر کی ملگجی روشنی میں انہوں نے اچھوگل کےسرحدی گاؤں کی قربت میں نمودارہوتےہندوستانی فوجی دستوں پرتوپخانےکافائرمنگوایا۔ آرٹلری آبزرورکادیاگیافائری حکم ردکردیاگیا کہ آرٹلری کافائرڈویژن ہیڈکوارٹرکی اجازت کےبغیر نہیں کھولاجاسکتا۔ خوش قسمتی سےگیارہ بلوچ کےساتھ میجر سعادت علی چوہدری بیٹری کمانڈر کے فرائض انجام دے رہے تھے۔
آپ کمانڈر کورآرٹلری کے بھائی تھے۔ فوراً سے پیشتر فائری نیٹ پر آئے اور اپنی ذمہ داری پر توپخانے کو فائر کرنے کا حکم دیا۔ یہ 23 فیلڈ آرٹلری کی توپیں تھیں جنہوں نے پہلے پہل فائر کھولاتو ہندوستانی سپاہ کو اچھوگل اُتر کےسرحدی گاؤں سے آگے آنے کا حوصلہ نہیں ہوا
اس سےپہلے ہم آگے چلیں آپ کو یہ بتادیں کہ ہماری اس کہانی میں انگریزی حرف A جو کہ اردو کے الف کے مترادف ہے کا ایک بڑا حصہ ہے۔ الف تو ویسے بڑے مرتبے والا حرف ہے جس کے آگے بقول بابا بلھے شاہ بات ختم ہوجاتی ہے
علموں بس کریں اویار
اکو الف تیرے درکار
ہماری جنگِ ستمبر میں تو بابا بلھے شاہ کا کوئی حصہ نہیں لیکن ایک زبان زدِ عام فوجی کہاوت کے مطابق تین چیزیں تھیں جنہوں نے جنگِ ستمبر میں ہماری لاج رکھی۔ اللہ، آرٹلری اور ایئرفورس۔ اور یہ بات کچھ ایسی غلط بھی نہیں۔ یہ تینوں نام انگریزی حرف A سے شروع ہوتےہیں
تو صاحبو پہلا نام خدا کا۔ دوسرے آرٹلری کی ایک جھلک تو آپ نے اوپر دیکھ لی، لگےہاتھوں فضائیہ کاقصہ بھی سنتےجائیے
پاک فضائیہ کےایئر کموڈور ریٹائرڈسجادحیدر، نوزی حیدرکےنام سے دیومالائی شہرت رکھتےہیں۔ 6ستمبرکی صبح وہ نمبر19 شیردل سکواڈرن کوسونپےگئےمشن کی قیادت کررہےتھے۔ طیاروں کارخ سیالکوٹ۔شکرگڑھ سیکٹرکی طرف تھاجہاں جسڑچوکی سےپار انڈین آرٹلری رجمنٹ ہدف تھی ہدف سے پانچ منٹ کی دوری پر اچانک وائرلیس سیٹ نے کھنگار کر گلا صاف کیااور ریڈیائی لہروں پر ائیرڈیفنس کمانڈر کی آواز گونجی۔ طیاروں کی فارمیشن کو جسڑ مشن منسوخ کرکے فوری طور پر اٹاری کے سرحدی گاؤں پر دشمن پر گولے برسانے کا حکم ملا۔ دشمن کی سپاہ جو لاہور کی طرف پیش قدمی کررہی تھی نوزی حیدرکہتےہیں کہ لاہور پرحملےکی خبرانہیں کوئی دس لاکھ واٹ کےبرقی کرنٹ کی طرح لگی
6ستمبرکی صبح نوزی حیدرکےفضائی دستےنےجی ٹی روڈپرنیچی پروازکرتےہوئےگوصل۔دیال سےاٹاری تک تباہی مچادی۔ نہ صرف یہ کہ ہندوستانی سپاہ کےانتظامی دستےجانی اور رسدی نقصان اٹھاتے ہوئے تتر بتر ہوگئے بلکہ ہراول دستوں کے بھاری ہتھیار اور گاڑیاں بشمول ٹرک بھی تباہی کی زد میں آئے۔
پاک فضائیہ کے ان نشان برہدف حملوں نے مارچ کرتے انڈین دستوں کا مواصلاتی نظام درہم برہم کردیا۔ ہندوستانی سپاہ کو حملے کے پہلے دن یہ فضائی ضرب بہت مہنگی پڑنے والی تھی
ہمارے پڑھنےوالوں کو یاد ہوگا کہ پچھلی قسط کے اختتام پرہم گوصل۔دیال کے گاؤں میں تھے جہاں 3 جاٹ کی نفری قابض تھی۔
اگر کسی ایک یونٹ کا حوصلہ نہیں ٹوٹاتو وہ تین جاٹ تھی۔ فضائی بمباری کی ہلاکتیں اور زخمی بھلا کر یہ پلٹن ایک نئے جوش سے بی آربی نہر کی طرف پیش قدمی کررہی تھی۔ ان کا ہدف ڈوگرئی گاؤں تھا۔
یہ فوج ڈوگرئی سے پہلے لکھنکے گاؤں میں پہنچی تو ان پر توپخانے کے کارگر فائر نے کاری وار کیے۔ ایک بوکھلاہٹ مین پلٹن کے ہمراہ 14 ہارس کے ٹینکوں نے لگ بھگ ایک سو گولے ہر مشتبہ جگہ پر پھونک ڈالےجہاں آرٹلری آبزرورکے موجود ہونے کا امکان تھا۔ 3 جاٹ کا جنگی روزنامچہ ہمیں بتاتا ہے کہ میجر یادو دو سپاہیوں کی ہمراہی میں ایک ثابت قدم کھوج پرنکلےتو نزدیکی درخت پرایک مچان کی خبرلائے۔ فائرنگ کےنتیجےمیں کچھ ہی دیر میں پاکستان آرٹلری کےدلیر آبزور سیکنڈ لیفٹیننٹ الطاف حسین گِل کاجسد خاکی زمین پر پڑاتھا۔
دلچسپ بات یہ ہےکہ اس نام کاکوئی افسر باٹاپورکےدستوں میں نہیں تھا اور نہ ہی لکھنکے کے درختوں پر کوئی فوجی شہادت لاہور کے 10 ڈویژن کے ریکارڈ پرہے۔ پاسی ہی ڈوگرئی گاؤں میں تاخیری دفاع لیے 3 بلوچ کی ایک پلاٹون موجود تھی جو بحفاظت بی آر بی نہر پر پس قدمی کرگئی تھی۔
ڈوگرئی میں 3 جاٹ کے اس واک اوور کا ذکر ہندوستانی ایک بڑی فتح کے طورپر کرتے ہیں بلکہ جوشِ خطابت میں 3 جاٹ کےسپاہیوں کو 6ستمبر کےدن لگ بھگ ساڑھےگیارہ بجےباٹا پورکاپل بھی پار کراجاتے ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل ہربخش سنگھ کےمطابق تو یہ سپاہی باٹاشو فیکٹری تک چہل قدمی اورچمڑےکی مرمت کروا آئےتھے۔ بھوپندر سنگھ کہتے ہیں کہ لیفٹیننٹ کرنل ڈیسمنڈ ہیڈ کی قیادت میں 3 جاٹ کی کمپنیاں باٹا پور کا پل عبور کرکے اتوکے اعوان اور باٹا پور تک جا پہنچی تھی۔
6ستمبر کی صبح ساڑھے گیارہ بجے باٹا پور کے پل کے اطراف نہ صرف پاکستانی 3 بلوچ کی اگلی دفاعی کمپنیاں تھیں بلکہ ان کی امداد کو 23 کیولری کا ایک سکواڈرن اور ریکی اینڈ سپورٹ کی دو مزید پلاٹونیں بھی آچکی تھیں۔
3 جاٹ کی دو کمپنیوں کا اسقدر طاقتور رکاوٹ کو عبور کرجانا بعید از قیاس ہے۔
اپنی طرف کےحالات کا بہتر جائزہ لینے کے لیے ہم ذرا ساڑھے گیارہ سے پیچھے کی طرف جائیں گے۔
جی ٹی روڈ کے اطراف باٹا پور کے پل سے جلو تک کے بی آربی کے دفاع کی ذمہ داری پاکستانی 3 بلوچ کی تھی۔
6ستمبر کو طلوع ہوتے دن کے ساتھ جب 3 جاٹ اور 14 ہارس کے ہراول دستے بی آربی نہر پر پہنچے تو دفاعی مورچے مکمل تیارنہیں تھے۔ بلوچیوں نے دفاعی جنگ مورچوں سے باہر کھلی فضا اور اسی قدرفراخ دلی سے فائر کیے گئے پاکستانی اور ہندوستانی توپخانے کے گولوں کی چھاؤں میں لڑی اور بے جگری سے لڑی۔
باٹاپور کے پل کو ابھی تک ممکنہ طورپر تباہ کرنے کے لیے تیار ہی نہیں کیاگیاتھا۔ بلوچیوں کے کمانڈنگ آفیسر (بعدمیں) میجر جنرل ریٹائرڈ تجمل ملک جب پل پر پہنچے تو جنگی مہاجرین کا ایک جم غفیر بسوں ٹرکوں اور بیل گاڑیوں پر سوار پل پر سے اٹکتا گزرتا لاہور کی سمت رواں دواں تھا۔
ہمارےپنجابی کےرنگ میں رنگی اردوکےہردلعزیزشاعر خالدمسعود اگر وہاں ہوتے تو کرنل تجمل کو لفظ ’گھڑمس‘ کا مطلب دکھا اور سمجھا دیتے۔ اپنی ایک مشہور عالم غزل کے مطلع کی تشریح میں کہ
ہیر کے بوہے اگے ویکھ کے عاشقوں کا گھڑمس
رانجھا تخت ہزارےٹر گیا پھڑ کے پہلی بس
وہ اکثر کہا کرتے ہیں کہ گھڑمس دکھایا جاسکتا ہے سمجھایا نہیں جاسکتا
بالکل اسی طرح کی بات وہ ایک اور لفظ کی تمثیلی تشریح کی بابت بیان کرتے ہیں جسمیں کچھ چوباروں کا ذکر ہے
بندہ ہوجاتا ہے پزل چوبارے پر
رہتے ہیں دو درجن چول چوبارے پر
ہمارا خیال ہے کہ تمثیلی تشریحات کو یہیں تک رہنے دیتے ہیں اور باٹا پور کے پل کو پلٹتے ہیں جہاں کرنل تجمل ہماراانتظار کررہےہیں۔میڈم نور جہاں کے نہر والے پل پر ایک بے تابی سے انتظار تو دراصل وہ انجینیئرکمانڈر کا کررہے تھے کہ دشمن کے پہنچنے سے پہلے پہلے پل کو تباہ کرنے کے لیے بارودلگایا جاسکے۔ فوری بندوبست کے طورپر انہوں نے اپنی کمپنیوں سے دو عدد 106 ملی میٹرٹینک شکن توپیں پل کے اطراف لگوادیں۔
انجینئرکےجوان پچھلےدن 5ستمبرسےپل کوتباہ کرنےکےلیے’تیار‘ کر رہےتھےمگر ابھی تک وہ صرف کنکریٹ میں بارود لگانےکےسوراخ ہی ڈرل کر پائےتھے۔ بارود شارٹ سپلائی میں تھا۔ جو مہیا تھا اس لگاتےانہیں ابھی چالیس پینتالیس منٹ ہی گزرےہوں گے کہ ڈوگری کی سمت سے انڈین 14 ہارس کے دو ٹینک آتے دکھائی دیے۔ قریب تھا کہ وہ پل پر چڑھ آتے کرنل تجمل کی لگائی ٹینک شکن توپوں نے دونوں ٹینکوں کو یکے بعد دیگرے تباہ کرڈالا۔ یہ لگ بھگ ساڑھے دس بجے کا وقت تھا۔
لگ بھگ ایک گھنٹے کے بعد جب 3 جاٹ کے سپاہی اور مزید ٹینک آتے دکھائی دیے تو ایک بوکھلاہٹ میں پاکستانی بریگیڈ کمانڈر نے نامکمل بارود کو اڑانے کا حکم دے دیا۔ پل کو صرف جزوی نقصان پہنچامگر اب یہ ٹینکوں کے لیے ناکارہ ہوچکا تھا۔ یہ ساڑھے گیارہ بجے کا وقت تھا جب بقول ہندوستانی راویوں کے ۳ جاٹ کے پیادہ دستے باٹا پورکا پل عبور کرگئے تھے۔
حقیقت یہ تھی کہ ایک جزوی تباہ شدہ پل دیکھ کرہندوستانی ٹینک کچھ فاصلےپررک کر فائر کور دےرہےتھے۔ انہوں نےایک کوشش اطراف کی طرف نکلنےکی کی تھی مگرہمارے انجینیئرزکی بچھائی جعلی بارودی سرنگوں کے نشانوں سے گھبرا کر وہیں رک گئے تھے۔ ٹینکوں کی فائری مدد کی شہ پاکر تین جاٹ کے سپاہیوں نے باٹا پورکےپل پرایک تھڑدلا ساحملہ کرنےکی کوشش کی تھی مگرتین بلوچ کےمحافظوں اور 23 کیولری کےٹینکوں کےآگے انہیں منہ کی کھانی پڑی
اب باٹا پور کے پل کے پاس بی آربی نہر پر 3 بلوچ اور 3 جاٹ کے سپاہی آنکھوں میں آنکھے ڈالے مورچہ بند تھے اور پاکستان کی 4 انجینئربٹالین کی براوو فیلڈ کمپنی جان ہتھیلی پر رکھےسینڈ بیگ کی دیوار کی آڑمیں پل پرکام کررہی تھی کہ اسےہر قیمت پرمکمل تباہ کرنےکاآرڈر تھا۔
وہ گاڑی جو انجینئرز کا پل تباہ کرنے کا بارود لارہی تھی شومئی قسمت سے باٹا پور کے پل کے بالکل نزدیک جاری توپخانے کی شیلنگ میں ایک ہندوستانی گولے کی براہِ راست زد میں آگئی۔
ایک زوردار دھماکہ ہوا اور پل تباہ کرنے کا بارود جل کر خاکستر ہوگیا۔
ہم نے پچھلی قسط کے آغاز میں لکھاتھا کہ باٹا پورکی نہر کا پل گستاخانہ حد تک ڈھیٹ ثابت ہوا تھا۔ ۶ ستمبر کی شام آئی کھڑی تھی اور پل اپنی اسی ہٹ دھرمی پر کھڑا تھا۔
اتنے میں ایک سبزپوش بزرگ مدد کو سامنے آئے۔
یہ براوو فیلڈ کمپنی انجینئرز کے آفیسر کمانڈنگ میجر آفتاب تھے۔ بارود نہ ہونےکی صورت میں انہوں نے دماغ استعمال کرتے ہوئے چھ چھ ٹینک شکن بارودی سرنگوں کے پچاس کریٹ تیار کروائے جنہیں انجینئرز کے شیردل جوان شدید فائرنگ کی پرواہ نہ کرتے ہوئے پل پر لگاتے رہے۔
6ستمبر کی ساری شام اور رات یہ کریٹ لگائےجاتےرہے۔ جب آخری کریٹ رکھاجاچکا اورڈیمولیشن چارج فائرہواتو باٹا پور کاپل ایک دھماکےسے اُڑ گیا۔ اسوقت 6 اور 7ستمبرکی درمیانی رات بارہ بج کرپینتالیس منٹ ہوئے تھے۔
ہندوستانی ڈویژن اوربریگیڈ ہیڈکوارٹراوردوسری یونٹوں کےدستےپاک فضائیہ کےحملےسے سنبھل ہی نہیں پائے تھے اور ابھی تک اٹاری اور گوصل۔دیال کے درمیان پڑاؤ ڈالے اپنے زخم چاٹ رہے تھے۔ مواصلاتی نظام درہم برہم تھا سو برلبِ سرحد بیٹھے انڈین 15 ڈویژن کے کمانڈر کو 3 جاٹ کے دلیر کارنامے کی کوئی خبر نہ تھی۔ کچھ اوسان بحال ہوئے تو بھاگ دوڑکرنے والے رنر یہ خبر لائے کہ 15 ڈوگرہ کافی نقصان اٹھالینے کے بعد گوصل ۔ دیال میں ہے اور اس کے آگے کے علاقے کی کوئی خیر خبر نہیں ہے۔
6 ستمبر کی شام 3 جاٹ کے کرنل ہیڈ نے اپنے انٹیلی جنس افسر کو پیچھے بریگیڈ ہیڈکوارٹرکی طرف روانہ کیا تاکہ اصل صورتحال اسے آگاہی دے کر مزید کمک اور فائری سپورٹ ڈوگرئی منگوائی جائے حیرت انگیزطورپر بزدلی کا مظاہرہ کرتےہوئے ہندوستانی بریگیڈ کمانڈر نے 3 جاٹ اور 14 ہارس کو واپس گوصل ۔ دیال پہنچنے کا حکم دیا۔
6 ستمبر کی صبح بھارتی سپاہ کی واحد شیر دل پلٹن ڈوگرئی تک مارکرکے واپس گوصل ۔ دیال بلا لی گئی جہاں باقی کا بریگیڈ اپنےزخم چاٹ رہا تھا۔
ڈوگرئی کی لڑائی میں گیارہ جاٹ کام آئے اور چوالیس زخمی ہوئے جن میں سےمزید ایک زخموں کی تاب نہ لاپائے گا اور جان سے گزر جائے گا۔
تین بلوچ کے ثابت قدم جوانوں نے 6 ستمبر کا دن اپنے نام کروالیا تھا۔ یہ پلٹن ایک مستقل مزاجی سے باٹٓا پور کا دفاع کرے گی۔
باٹاپور کے پل پر ایک سنہری موقع گنوا کر لوٹتی 3 جاٹ دوبارہ پلٹ کر آئے گی اور ڈوگرئی کے میدان میں ایک فیصلہ کن معرکہ پاکستانی 16 پنجاب سے لڑے گی۔ ڈوگرئی کا میدانِ کارزار سجے گا۔
بہت بعد میں 3جاٹ کے سپاہی ایک پرانی کتھا یاد کریں گے کہے سنے کی بات نہ بولوں گاؤں دیکھی بھئی
تین جاٹ کی کتھا سناؤں سن لے میرے بھائی
اکیس ستمبر رات گھنیری حملہ جاٹوں نےماری
دشمن میں مچ گئی کھلبلی، کانپ اُٹھی ڈوگرئی
زندگی رہی تو ڈوگرئی کی کہانی کسی اور دن کہیں گے ۔۔۔
___