دل ہمارے یاد عہد رفتہ سے خالی نہیں
اپنے شاہوں کو یہ امت بھولنے والی نہیں
اشک باری کے بہانے ہیں یہ اجڑے بام و در
گریۂ پیہم سے بینا ہے ہماری چشم تر
۔۔۔۔
صفائی، پاکیزگی اور غسل کو اسلامی نظام حیات میں جو اہمیت حاصل ہے۔ وہ ان قواعد و ضوابط سے کماحقہ ظاہر ہے۔ جو اسلامی فقہ کی کتابوں میں غسل کے متعلق مرقوم ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ شروع شروع میں اسلامی آبادیوں میں بالکل معمولی نوعیت کے غسلخانے ہوں گے۔ لیکن جوں جوں تمدن ترقی کرتا گیا۔ دیگر عمارات کی طرح حماموں اور غسلخانوں کی تعمیر میں بھی تکلفات کو محفوظ رکھا جانے لگا ہو گا۔ ترکستان وغیرہ سرد ملکوں میں ترویج اسلام کے بعد اس قسم کے ھماموں کی تعمیر کی طرف مہند سین کی توجہ منعطف ہوئی جن میں یخ کر دینے والی سردی کے علی الرغم آسانی سے غسل کیا جا سکے چنانچہ ان مہند سین کی مساعی سے وہ حمام عالمِ وجود میں آئے جنہیں ترکی حمام کہا جاتا ہے۔
دور تطوق میں مسلمانوں نے ہر جگہ قلعوں‘ مسجدوں‘ مقبروں‘ باغوں اور سراؤں کی طرح حمام بھی بنوائے۔ امرا اور بادشاہوں کے ذاتی حماموں کے علاوہ ہر شہر میں عظیم الشان پبلک حمام بھی موجود تھے۔ جن سے ہر ایک تمتع حاصل کر سکتا تھا۔ اور یہ پبلک حمام عموماً مساجد کے متصل تعمیر کرائے جاتے تھے۔
اندلس کے اسلامی دارالحکومت قرطبہ میں اس قسم کے ۹۱۱ حمام تھے۔ قرون وسطٰی کے مسلمان سلاطین ہند میں سے فیروز تخلق نے دیگر نوع کی عمارات کے علاوہ بہت سے حمام بھی تعمیر کرائے۔
شہرہ آفاق مغل فاتح بابر اپنی خودنوشت سوانح عمری میں جہاں اس امر کی شکایت کرتا ہے کہ ہندوستان کے باشندوں کی عادت اچھی نہیں۔ اور یہاں اعلٰے نسل کے گھوڑے وسط ایشیا کے سے باغات پھل اور ٹھنڈا پانی نہیں ملتا۔ وہاں اس بات کا رونا بھی ہوتا ہے کہ اس ملک میں اعلٰے قسم کے ترکی حمام نہیں پائے جاتے۔ مگر اس کی اولاد ہی سے شاہجہاں نے لال قلعہ دہلی میں ایک ایسا عالی شان حمام تعمیر کرایا۔ کہ اس کی مثا اور نظیر تمام دنیا میں نہیں ملتی۔ قلعہ آگرہ اور فتح پور سیکری میں اکبر کے بنوائے ہوئے حمام قابل دید ہیں۔
مغلیہ حماموں کی خصوصیات
قدیم حماموں کا بنظرِ غائر معائنہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ترکی طرز کے ان حماموں کے مختلف درجے ہوتے ہیں ان میں گرم اور سرد پانی کے علیحدہ علیحدہ ذخیرے اور فوارے بنے ہوئے ہوتے ہیں۔ اعلٰے قسم کے حماموں میں ۔۔۔ مثلاً شاہ جہانی حمام لال قلعہ دہلی میں۔۔۔۔ مختلف کمروں میں چھوٹی چھوٹی نہریں اور حوض بھی ہوتے ہیں۔ شاہی زمانہ میں ان حوضوں میں بید مشک گلاب اور چنبیلی کے عطروں کے فوارے چھوٹا کرتے ہیں۔ مذکورہ بالا شاہ جہانی حمام کے فرش اور دیواروں پر سفید پتھر میں سیاہ اور دیگر مختلف خوشنما رنگوں کی گلکاری اور پچیکاری کی ہوئی ہے۔ جسے دیکھتے ہی زبان پر یہ شعر آ جاتا ہے۔
زہے صفائی عمارت گہ از تماشائش
بدیدہ باز نگردو نگاہ از دیوار
گجرات کا ایک حمام
پنجاب کے قدیم تاریخی اور مشہور رومانی قصبہ گجرات میں دور مغلیہ کا ایک ترکی حمام موجود ہے۔ یہ حمام اب تک زیرِ استعمال ہے۔ اور اگرچہ اس کی عمارت زیادہ شاندار نہیں ہے۔ تاہم محبان آثار قدیمہ کے لیے قابل دید ہے۔ نومبر ۱۹۴۳ء کے آغاز میں گردش روزگار ہمیں ابنائے زمانی کی کمینہ پروری اور نااہل نوازی کا ایک کثیف منظر دکھانے کے لیے گجرات لے گئی۔ اگرچہ طبیعت منغض تھی۔ لیکن ہم نے موقع کو غنیمت سمجھا اور اسی بہانے۔
عد و شرے بر انگیزدکہ خیر مادراں باشد کے مصداق گجرات کے قابل دید مقامات اور آثار قدیمہ کی سیر کر لی اور اس حمام کو بھی دیکھا۔ اس حمام کے تین درجے ہیں۔ اور ہر درجہ پہلے سے زیادہ گرم ہے۔ حمام کے اندر تاریکی زیادہ ہے۔ اس کا پانی اندر ہی اندر غرقیوں میں چلا جاتا ہے۔ اور لکڑی جلا کر اسے گرم کیا جاتا ہے۔ بہر کیف دیکھنے کی چیز ہے۔ اور بیان کیا جاتا ہے کہ یہ حمام دورِ اکبری میں عالم وجود میں آیا تھا۔
دورِ مغلیہ میں جب لاہور آباد تھا اور اس کی وسعت اور رونق موجودہ شہر سے کسی طرح کم نہ تھی۔ اور جب لاہور اپنی شان و شوکت صنعت و حرفت، آبادی و نزاہت۔ اور اپنے رفیق الشان مکانوں اور ان کے بلند مرتبت مکینوں کے سبب تمام مغل سلطنت میں اگرہ کے بعد دوسرے درجے پر شمار کیا جاتا تھا۔ اور جب اس کی شہرت ہندوستان سے نکل کر چہار دانگ عالم میں پھیل چکی تھی کہ جہاں اس کی تعریف میں ظفر خان احسن ہندوستان میں بیٹھا یہ کہتا تھا کہ۔۔
زبعدِ اکبر آبارات لاہور
کہ درخوبی بعالم گزشتہ مشہور
برو آرد ہوالُش از فراقت
دہد یاد از خراسان و عراقت
وہاں انگلستان کا مشہور شاعر لمئن بھی اپنی نظم (Paradise Lost) میں ایک مقام پر آگرے اور لاہور کو دنیا کے ان عظیم الشان شہروں اور زبردست سلطنتوں کے پایا تختوں میں شمار کرتا ہے۔ جنہیں آدم اور میکائیل جنت کی پہاڑی سے زمین کے پھیلے ہوئے میدانوں پر نظر ڈالتے وقت دیکھتے ہیں۔ تب مختلف سورخوں اور سیاحوں کے بیانات کے مظابق لاہور میں کئی ذاتہ اور پبلک حمام موجود تھے۔ یورپین سیاح مثلاً تھیوناٹ اور طامس ہربرٹ وغیرہ جہاں اس کی مساجد اور محلات اور باغات کا ذکر کرتے ہیں۔ وہاں اس کے حماموں کی تعریف بھی کرتے ہیں۔
بعد ازاں جب مسلمانوں کی باہمی نااتفاقی بے راروی غفلت شعاری اور عیش پسندی جیسے ناقابل تلافی گناہوں کی سزا قدرت نے یہ دی کہ ان کے اشارہ ابرو پر کانپنے والے لوگ ان پر بظور حاکم مسلط ہو گئے۔ تو جہاں اس عدیم النظیر شہر کی اینٹ سے اینت بج گئی۔ وہاں یہ حمام بھی برباد ہو گئے۔ بھلا جب مکیں نہ رہے تو مکانوں کی حفاظت کون کرتا جس کے جی میں جو آیا اس نے کیا اور کر رہا ہے۔ اور آج یہ حالت ہے کہ بڑی کاوش اور تجسس کے بعد ان متعدد حماموں میں سے صرف چند ایک کا سراغ ملا ہے اور جن میں سے صرف چار حماموں کی عمارت مرقع عبرت بنی زبان حال سے اپنےئ بانیوں کی عظمت رفتہ کا مرثیہ سنا رہی ہیں۔ ان حماموں کے حالات ذیل میں ہدیہ قارئین کیے جا رہے ہیں:۔
- حمام نواب وزیر خاں
دہلی دروازہ کے اندر داخل ہوں۔ تو بائیں جانب نواب وزیر خاں کے حمام کی پختہ عمارت نظر پڑے گی۔ جس پر سیاہ رنگ کا بڑا گنبد ہے۔ اس حمام کو نواب مذکور نے مسجد کے ساتھ ۱۶۳۴ء میں بنوایا تھا۔
شیخ علم الدین چنیوٹی المخاطب بہ نواب وزیر خاں شاہ جہاں کے معتمد امرا میں سے تھا۔ یہ شخص اپنی جاں نثاری وفا شعاری اور نیک نیتی کی بنا پر ترقی کے مراحل طے کرتا ہوا نظامتِ صوبہ لاہور کے عہدہ جلیلہ پر فائض ہوا۔ اس نے علاوہ دیگر عمارات کے ایک عدیم النظیر اور دلپذیر مسجد دہلی دروازہ کے اندر بنوائی جو رہتی دنیا تک اسلامی تمدّن کی یادگار رہے گی۔
دہلی دروازہ سے لے کر مسجد تک دو رویہ مکانات مع اس حمام کے اوقاف مسجد میں شامل تھے۔ اس حمام کے معائنہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ترکی حماموں کی طرح اس کے بھی بہت سے درجے اور حصے تھے۔ اور وقف ہونے کی وجہ سے ہر کوئی اُسے استعمال کر سکتا تھا۔ حمام کے متصل ایک سرائے تھے۔
زوال حکومت اسلامیہ کے بعد یہ حمام اُجڑ گیا۔ مہاراجہ ریخت سنگھ کے عہد میں اس میں سرکاری گودام تھا۔ انگریزی دور کے آغاز میں لاہور کے سب سے پہلے انگریز ڈپٹی کمشنر میگریگر صاحب کے نام پر اس حمام اور متعلقہ سرائے کا نام ’’میگریگر گنج‘‘ رکھا گیا۔ اور یہ عمارات حکومت کے قبضہ میں رہیں۔
بعد ازاں اکبری منڈی کے متصل ایک وسیع میدان اور کھلا بازار بنانے کے لیے سرائے کو مسمار کرا دیا گیا۔
آج کل یہ حمام جو ایک اسلامی وقف اور تاریخی یادگار ہے بلدیہ کے زیرِ تصرف ہے۔ اس کے جنوبی حصہ میں میونسپل پرائمری سکول ہے۔ اور شمالی حصہ میں مدتوں چنگی کا دفتر رہا۔ مگر جولائی ۱۹۳۸ء میں یہ دفتر کہیں اور منتقل کر دیا گیا۔ اور حمام کے ساتھ وہ سلوک کیا گیا کہ خدا دُشمن کو بھی نہ دکھائے سنائے۔ دیواروں کو توڑ پھوڑ کر جایحا دروازے نکالے گئے اور اندر جگہ جگہ دیواریں کھری کر کے کرایہ کی دکانیں بنائی گئیں۔
بسوخت عقل ز حیرت کہ ایں چہ بوالعجبی ست
اخبارات میں اگرچہ صدائے احتجاج بلند ہوئی۔ مگر چونکہ یہ آواز زیادہ بلند اور زور دار نہ تھی۔ اور نہ اس کی پشت پر طاقت تھی، اس لیے کسی نے اسکو پرکاہ سے زیادہ وقعت نہ دی۔
کیا ہی اچھا ہوتا۔ اگر چنگی کا دفتر کسی اور جگہ منتقل ہو جانے کے بعد اس عمارت کو محکمہ آثار قدیمہ کے زیر تحویل یادگار محفوظ قرار دے دیا جاتا۔
اس جگہ کوئی کتاب گھر دارالمطالعہ یا تاریخی نوادر کا عجائب خانہ مقرر کر دیا جاتا۔ مگر بھائی یہ اسلامی دور عروج کی یادگار تھی اس لیے اسی سلوک کی مستحق تھی۔
فانی علاج دردِ جگر زہر تو نہیں
کیوں ہاتھ کانپتا ہے مرے چادر ساز کا
اگر یہ عمارت زمانہ قبل از تاریخ کا ٹیلہ ہوتی کہ جس کی کھدائی کے بعد چند ٹوٹی پھوٹی اینٹیں یا چند شکستہ گلئی ظروف نکتے تو انہیں جھٹ یادگارِ محفوظ قرار دے کر دنیا بھر کے رسائل و جرائد میں اس کا چرچا کیا جاتا۔ اور اس کے متعلق بے معنی سی تاولیں کرنے کے لیے خاص یورپ سے کوئی ’’ماہر آثار قدیمہ‘‘ منگوایا جاتا۔ گویا ہندوستان میں کوئی پڑھا لکھا عاقل اور ذی فہم بستا ہی نہیں۔ لیکن ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ افسوس ہے کہ ۔۔ ۔۔ ۔۔
بہر دردِ مانشا اِسباب درمانی درست
اُف وہ لمحات بھی کتنے ہولناک تھے جب مزدوروں کے آلات حمام کی دیواروں پر برباد کر رہے تھے۔ ان کی ہر ایک ضرب اینٹوں پر نہیں بلکہ اہل درد کے سینوں پر پڑ رہی تھی۔ اور پہم ضربوں کے بعد اینٹیں ریزہ ریزہ ہو کر اکھڑتی تھیں۔ شاید سیسہ پلائی دیوار اسی کو کہتے ہیں۔ مغلیہ عمارات کی سخت جانی ملاحظہ ہو کہ ادھر بمشکل ایک دو اینٹیں اکھڑتی ہوں گی اور ادھر مزدوروں کے اوزار کند اور بعض حالتوں میں دہرے ہو جاتے تھے۔
گلے پہ خط نہ پڑا میری خت جاتی سے
رگڑ کے مفت میں خنجر کی دھار کھو بیٹھے
اس وقت سر بازار حمام کی دکانوں میں حلوائی۔ پان فروش گھڑی ساز اور صابن فروش وغیرہ مختلف دکاندار بیٹھتے ہیں درمیانی دکان کے اندر جو کلاں گنبد کے نیچے واقع ہے۔ اب محکمہ حفظانِ صحت کا ایک برانچ آفس کھولا گیا ہے۔ اس نادر روزگار تاریخی یادگار کی یہ حالت دیکھ کر سینے پر سانپ سا لوٹ جاتا ہے اور آنکھیں اشکبار ہو جاتی ہیں۔
کاش کبھی عمائد و اکابر ملت یا محکمہ آثارِ قدیمہ کے ارباب اختیار میں سے کسی صاحب دل کو اس مِلی اور تاریخی یادگار کے تحفظ کا خیال آ جائے۔ اور یہاں سے دکانیں اٹھوا کر حمام کی شمالی دیوار کو چھوٹی اینٹوں سے قدیم طریقہ کے مطابق بنوا دیا جائے۔ بہر کیف ہم اس انتظار میں ہیں کہ۔۔
دیکھئے کب دن پھریں حمام کے
اس حمام کا عالی شان صدر دروازہ جانب غرب ہے اور اس عمارت کا کماحقہ معائنہ جنوبی جانب اکبری منڈی کے متعلقہ میدان میں جہاں اناج فروخت ہوتا ہے کھڑے ہو کر کیا جا سکتا ہے۔ اور اُسے دیکھ کر طبیعت بہت متاثر ہوتی ہے۔
- حمام شالا مار باغ
شاہ جہاں کے عدیم النظیر شالا مار باغ کے دوسرے تختے پر جانب مشرق یہ حمام واقع ہے۔ اندر جانے کے دو راستے ہیں۔ ایک پہلے تختہ سے اور ایک دوسرے تختہ سے۔
اول الذکر راستہ پہلے تختہ کے شمال مشرقی برج کے زیریں کمرے میں ہے۔ حمام عموماً بند رہتا ہے۔ مگر جو سیاح دیکھنے کا خواہشمند ہو چپراسی سے دروازہ کھلوا کر دیکھ سکتا ہے۔ حمام کے تین درجے ہیں۔ پہلے اندر ایک کنواں بھی تھا۔ جو اب بند کر دیا گیا ہے۔ پہلے اور دوسرے درجے میں فوارے ہیں۔ تیسرے درجے میں ایک حوض بطور غسلخانہ ہے۔ جس کی شرقی اور غربی جانب دو دو آبریز ہیں۔ ایک طرف ٹھنڈے پانی کا ذخیرہ اور دوسری طرف گرم پانی کا حوض ہے۔ مقام آتشدان باہر باغ کے مشرق کی طرف بنا ہوا ہے۔ اور ہزاروں من ایندھن اس کے اندر پانی کو گرم کرنے کے لیے جلایا جاتا تھا۔ حمام کی چھت کے گنبد اور دھواں نکلنے والی چھنیاں پہلے تختے کے شمال مشرقی برج سے دیکھی جا سکتی ہیں۔ حمام کے اندر دیواروں پر نہایت عمدہ گلکاری کی ہوئی تھی۔ جس کے مٹے ہوئے نشانات اور نقوش آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ باغ کی طرف حما کی دیواروں میں سنگین پنجرے بنے ہوئے ہیں۔ جن کے ذریعے حمام کے اندر ہوا اور روشنی جاتی ہے۔
- حمام وریام خاں
موچیدروازہ کے باہر جس جگہ جلالی فقیروں کا تکیہ موسوم بہ تکیہ گنج علی شاہ ہے۔ وہاں شاہی زمانہ میں ایک نہایت ہی بلند اور عالی شان حمام واقع تھا۔ یہ حمام وریام خاں نے بہادر شاہ اول کے زمانہ میں بنوایا تھا۔ وریام خان ایک مقتدر امیر اور شاہی عہدے دار تھا۔ اور اس کا خوش نما مقبرہ اور وسیع محلات بھی اس کے قریب ہی واقع تھے۔ مہا راجہ رنجیت سنگھ نے ان تما عمارات کو مسمار کرا دیا۔ اس کا خیال تھا کہ ان عمارات کا شہر پناہ کے قریب واقع ہونا خالی از خطرہ نہیں۔ ایسا نہ ہو کہ کوئی دشمن ان مستحکم عمارات میں پناہ لے کر شہر پر حملہ کر دے بعد ازاں مہا راجہ مذکور نے شہر پناہ کو وسیع کیا تو گنج علی شاہ فقیر کا پہلا تکیہ جو شاہ عالمی دروازہ کے باہر واقع تھا۔ خندق میں آ گیا۔ فقیر مذکور کے احتجاج پر مہاراجہ نے یہ جگہ اُسے دے دی۔ اور اس نے یہاں اپنا تکیہ بنا لیا۔ اسی تکیہ میں اس وقت کئی قبریں بنی ہوئی ہیں۔ اور وریام خاں کی قبر بھی ایک چبوترہ پر موجود ہے۔
- حمام نواب عبدالصمد خاں
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
آج سے کچھ اوپر دو سو برس قبل ۱۷۱۳ء میں فرخ سیر نے نواب عبدالصمد خاں کو ناظم صوبہ لاہور مقرر کیا اور ۱۷۲۶ء تک نواب صاحب اس عہد جلیلہ پر فائز رہے اس کے بعد ۱۷۳۷ء تک آپ ناظم صوبہ ملتان رہے۔ ان کا فرزند نواب زکریہ خاں جو معدلت گستری میں نوشیرواں وقت تھا۔ ۱۷۴۵ء تک ناظم صوبہ لاہور رہا۔ حضرت محمود خاوند نقشبندی عرف حضرت ایشاں قدس سرہٰ المتونی ۱۰۴۵ھ نواب صاحب کے خاندان کے بزرگوں میں سے تھے۔ اس لیے انہوں نے اپنی رہائش کے لیے حضرت ایشاں کے مرقد کے مشرقی جانب محلات باغ، کاشی کار مسجد، احاطہ قبور وغیرہ مختلف عمارات کے علاوہ ایک حمام بھی بنوایا تھا۔ جن دنوں یہ مقام آباد تھا۔ اور ناظمانِ پنجاب یہاں اقامت گزیں تھے۔ تو یہ کھنڈر اور ملبے کا ڈھیر جو آج کل مارو مور کا مسکن بنے ہوئے ہیں۔ اور جن پر حسرت داد اسی برس رہی ہے۔ اور یہ مقام جس کے گرد لہلہاتے ہوئے سبز کھیت نظر آتے ہیں۔ رستم صفت جوانمردوں اور رباعفت خواتین کی جائے رہائش تھا۔ یہاں کے دن عید کو اور راتیں شب رات کو مات کیا کرتی تھیں۔ اور یہاں کے در و دیوار سے شب و روز یاد حق کے نغمے بلند ہوا کرتے تھے۔
بیگم پورہ میں مقبرہ حضرت شرف اللنساء اور مرزا سلطان بیگ کے مقبرہ کے درمیان مائل بہ غرب ایک پست سا چبوترہ ہے۔ جس کا نچلا حصہ شور کی وجہ سے بوسیدہ ہو چکا ہے۔ یہ مقبرہ ملکہ زمانی کا ہے۔ اس مقبرہ کے مغربی سمت مقبرہ حضرت ایشان اور اس مقبرہ کے درمیان اسی جگہ جہاں اب ایک جدید عمارت تییمخانہ کی تعمیر ہوئی ہے۔ یہ حمام واقع تھا۔ جسے آج سے دو سو برس قبل کے لاہور کا سول سٹیشن تھا۔ اور تمام عمائد شہر اسی جگہ فروکش تھے۔ اور یہاں اس قدر متمول لوگوں کی رہائش تھی کہ ۱۷۴۰ء میں احمد شاہ درانی کو اس کی ایک دن کی لوٹ سے اتنا مال حاصل ہوا کہ اٹھایا نہ جا سکتا تھا۔ اور شہر کے بقیہ محلوں کی طرف اُسے آنکھ اُٹھا کر دیکھنے کی حاجب بھی نہ رہی تھی۔ جہاں کسی زمانہ میں منڈی پرویز اور موتی بازار جیسے بازار آباد تھے کہ جن میں دنیا کی کوئی جنس نایاب نہ تھی۔ اور جہاں دن رات میں کئی لاکھ کے سودے ہوا کرتے تھے، آج کوڑا کرکٹ کے ڈھیر، خودر و پودوں۔ ٹوٹی پھوٹی اینٹوں اور کھیتوں کے سوا کچھ بھی نہیں۔
خزاں رسید و گلستاں بآں جمال نماند
صدائے بلبل بیدل برفت وحال نماند
نشانِ لالُہ ایں باغ از کہ می پُرسی
برو کہ آنچہ تو دیدی بجز خیال نماند
وہ بے نظیر محلات جو دور مغلیہ میں حسینانِ لالہ اور ماہ جبینانِ مرغولہ مُو کا مسکن تھے۔ اٹھارویں صدی کے دوسری نصف میں متعدد بار افغانوں مرہٹوں اور سکھوں کی تاخت کا ہدف بنے۔ اور مہاراجہ رنجیت سنگھ کے عہد میں یہاں گلاب سنگھ پہووندیہ کی چھاؤنی مقرر ہوئی۔ تمام محلات کے سقف و بام اور در و دیوار سے سنگ مر مر اور دیگر بیش قیمت پتھر اتار کر امرتسر پہنچائے گئے۔ اللہ اللہ کیا سنگدل لوگ تھے۔ کہ قبروں کے تعویذوں کو بھی نہ چھوڑا رہی سہی کسر خشت فروشوں نے پوری کر دی۔ سکھوں کے عہد کے علاوہ انگریزی دور کے آغاز میں بھی خشت فروشوں اور سرکاری ٹھیکیداروں نے اینٹوں کی خاطر یہاں کے کئی مقبروں مسجدوں۔۔ بارہ دریوں حوضوں اور مکانوں کو برباد کر دیا ہے۔ جن میں یہ حمام بھی شامل تھا۔ شجاع الدین تو ایک حمام کو رو رہا ہے۔ خبر نہیں کہ اس ویرانے میں کیا کچھ بنا ہوا تھا۔ جو گردش زمانہ کے ہاتھوں عدم آباد کو پہنچا۔
کیسے کیسے زر نگار ایوان ملے ہیں خک میں
ریزہ ریزہ اب بھی ویرانوں میں اطلس پوش ہے
نواب عبدالصمد المتوفی ۱۷۳۷ء اور نواب زکریا خاں المتوفی ۱۷۴۵ء اسی بیگم پورہ میں دفن ہوئے تھے۔ ان کی قبریں اس احاطہ میں ہیں جو کاشی کار مسجد کے شمالی جانب واقع ہے۔ یہ مسجد اور احاطہ باوجود تاریخی یادگار ہونے کے محکمہ آثار قدیمہ کے زیر تحویل نہیں ہیں۔ بلکہ احاطہ میں زمیندار آباد ہیں۔ اور ناظمانِ مذکور کی قبروں والا چبوترہ ایک رہائشی مکان کا محاذی چبوترہ بنا ہوا ہے۔
پسِ مرگ قبر پہ اے ظفر کوئی فاتحہ بھی کہاں پڑھے
وہ جو ٹوٹی قبر کا تھا نشان اُسے ٹھوکروں سے مٹا دیا
اے اسلامی تہذیب و تمدن کے نوحہ خوانو۔ اگر کبھی بغداد و قرطبہ دہلی و غرناطہ گور اور دمشق کی یاد میں آنسو بہانے سے فرصت ملے تو بیگم پورہ کے کھنڈروں کی درد بھری کہانی بھی ان کی زبان بے زبانی ہوں۔ وہ اپنے بانیوں کے عروج و زوال کی داستان کا مرقع بنے ہمیں پکار پکار کر عبرت دلا رہے ہیں۔ آہ وہ لوگ کیا ہوئے۔ زمانہ نے ۔۔۔۔۔آہ احسان فراموش زمانہ نے اگر نواب عبدالصمد خاں اور نواب زکریہ خاں کو بھلا دیا ہے تو بھلا دے۔ مگر ہمیں تو بیگم پورہ کے بوسیدہ کھنڈر اُن کی با عمل زندگی کا۔ ان کی عبادت کی محفلوں کا ان کے عیش و نشاط کے جلسوں کا۔ ان کے عیدوں بقر عیدوں کے جشنوں کا نظارہ چشم تصور سے دکھا کر آٹھ آٹھ آنسو رلاتے ہیں۔
کیا ہو گئے وہ لوگ کہاں ہے وہ زمانہ
ہر سنگ کے لب پہ ہے غم اندوز ترانہ
- حمام واقع قلعہ شاہی
یہ حمام قلعہ کے اندر موتی مسجد اور دیوان عام کے درمیان شاہی خوابگاہ کے بالمقابل واقع ہے۔ ۱۹۲۴ء سے پہلے جن ایام میں قلعہ گورہ فوج کا مسکن تھا۔ اس عمارت میں فوجی ہسپتال بنا ہوا تھا۔ اب اس عمارت کا بہت سا حصہ مسمار ہو گیا ہے۔ اور حمام کے کچھ حصہ کی چھت گر گئی ہے۔ لیکن سنگین حوض اب تک موجود ہیں۔ یہ حمام بھی ترکی طرز پر بنا ہوا ہے۔ علاوہ غسل کے قلعوں کے شاہی غسلخانوں میں خاص خاص لوگ وزیر اور بخشی وغیرہ حاضر ہو کر بعض ضروری اور اہم معاملات کے متعلق خفیہ طور پر خاص احکام بھی حاصل کیا کرتے تھے۔ مجلس وزرا کے خفیہ اجلاس بھی یہیں ہوا کرتے تھے۔
بادشاہ نامہ میں مرقوم ہے۔ کہ پہلے پہل اکبر نے یہ طریقہ آگرہ میں شروع کیا۔بادشاہ کے ایام سفر میں بھی ایک خیمہ شاہی کیمپ میں غسلخانہ کے نام سے لگا کرتا تھا۔ جس میں غسل دسل تو ہوتا نہیں تھا۔ بلکہ وہ مذکورہ بالا کام کے لیے استعمال ہوتا تھا۔
ملا محمد صالح کا بیان ہے کہ سرکاری حماموں میں مہتمم کو ’’داردغہ غسل خانہ‘‘ کہاں جاتا تھا۔ مگر منوچی کہتا ہے کہ وہ ’’داردغہ خاص چوکی‘‘ کہلاتا تھا۔ اور یہاں خفیہ اجلاس منعقد ہونے کی وجہ سے اس عہدہ پر نہایت ہی معتبر اور ثقہ شخص کو متعّین کیا جاتا تھا۔ مندرجہ بالا بیان کی تائید برنیر کی تحریر سے بھی ہوتی ہے۔
- حمام عبداللہ خاں
دور اسلامیہ میں دہلی دروازہ کے باہر لنڈا بازار اور سلطان کی سرائے کی جگہ محلہ چوک دار آباد تھا۔ آصف خاں وزیر شاہ جہاں کی حویلی بھی یہیں تھی۔ زوال سلطنت مغلیہ کے بعد یہاں کی فلک پیما عمارات تباہ و برباد ہو گئیں۔ اور رہے سہے کھنڈروں کو آج سے اسّی نوے برس قبل میاں سلطان ٹھیکیدار نے صاف کرا کے ان کی جگہ سرائے اور لنڈا بازار تعمیر کرایا۔ اس محلہ کی ایک پرانی تاریخی مسجد جولائی ۱۹۳۵ء میں صحفہ ہستی سے حرفِ غلط کی طرح مٹا دی گئی۔ اس محلہ کی آخری یادگار ایک حمام کی عمارت ہے۔ مسجد شہید گنج کے شمالی جانب نولکھا بازار کے دوسری طرف بھائی تارو سنگہ کی سمادھ واقع ہے اگر لنڈا بازار سے نولکھا ٹاکیز کی طرف سمادھ مذکور کے غربی جانب والے راستے سے جائیں تو سمادھ کی پچھلی جانب دیوار کم ہونے کی وجہ سے تمام احاطہ نظر آئے گا۔ اس مکان میں ایک تو سفید گنبد ہے جو سمادھ مذکور پر بنا ہوا ہے۔ دوسرا یہ بلند حمام ’’گنبد کلاں والا‘‘ اور تیسرا مغربی سمت ایک قدیم دلان نما مکان ہے۔ جس کی ایک کھڑکی لنڈا بازار کی جانب ہے۔
حمام سکھوں کے قبضہ میں ہے اور شہید بنگہ کہلاتا ہے۔ گنبد کے نیچے شمالی جانب تین درے ہیں۔ اس احاطہ میں تباہ شدہ پرانی عمارتوں کی بہت سی پختہ بینادیں نظر آتی ہے۔ تحقیقات چشتی میں مرقوم ہے کہ ۱۰۲۰ھ میں دار الشکوہ کے خان سامان عبداللہ خاں نے یہ حمام بنوایا تھا۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ شاہ جہاں کا وزیر سعادت خاںاس حمام کا بانی تھا۔ (تحقیقات چشتی صفحہ ۱۰۱)
https://www.facebook.com/zest70pk/posts/10207071102311397
“