داتا کی نگری پر ہمیشہ کے لئے رہ جانے والا ایک بدنما داغ
لاہور کا جنونی قاتل جاوید اقبال
سو بچوں کو زیادتی کے بعد قتل کرنے والا
نوے کی دہائی میں ایک سیریل قاتل نے پنجاب میں 100 بچوں کے قتل کا اعتراف کیاتھا۔
بدنام جاوید اقبال نامی شخص نے سو بچوں کا قتل کرنے کے بعد ان کی لاشوں کو تلف کرنے کے لئے تیزاب کا استعمال کیا تھا۔جاوید اقبال کے ہاتھوں قتل ہونے والے بچوں کی عمر 6 سے تقریبا 16 سال تک تھی۔
تیس دسمبر 19999کو جاوید اقبال نے ایک اردو اخبار کے دفتر سے گرفتار کیا گیا ،جیسے ہی اخبار کے دفتر میں اقبال نے اپنا اعترافی بیان لکھنا شروع کیا وہاں موجود عملے نے پاکستان کے فوج ادارے کو خبر کردی جس کے سو سے زائد جوانوں نے اس عمارت کو گھیر لیا تھا۔
جاوید اقبال کی درندگی کا نشانہ بننے والے تمام بچوں کی عمریں 6سے 166 سال کے درمیان تھی اور ان میں سے زیادہ تر بچے گھر سے بھاگے ہوئے اور لاہور کی سڑکوں پر رہنے والے تھے۔ جاوید اقبال معصوم بچوں کو قتل کرنے کے بعد ان کی لاش کو تیزاب میں ڈال کر دریائے راوی میں بہا دیتا تھا۔
اقبال کی گرفتاری کے چند ہی گھنٹوں کے بعد پنجاب کے ٹاون سواہا سے اس کے دو مبینہ ساتھی بھی گرفتار کرلئے گئے تھےجو اسے پیسے اور سفر میں مدد کرتے تھے۔
اقبال جاوید کے اعترافی خط کے مہنے بعد پولیس کئی دنوں تک گمشدہ اور مقتول بچوں کے والدین سے تفتیش کرتے رہے۔80سے زائد کی شناخت ان کے اہلِخانہ کی مدد سے کرلی گئی تھی، اقبال کے گھر میں موجود ڈھیر سے کئی بچوں کی تصاویر اور ان کے کپڑےبھی ملے۔
اس نے اپنے گھر میں تیزاب کے ڈرم رکھے ہوئے تھے جن میں یہ بچوں کی لاشں ڈبو کر گلا دیتا تھا۔
روزنامہ ڈان کے 2001 میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق جاوید اقبال کا مقصد معصوم بچوں کو اپنی طرف راغب کرنا تھا ،جس کے لئے اس نے شادباغ میں ایک ویڈیو گیم کی دکان کھولی، وہ معصوم بچوں کم قیمت میں ٹوکن دیا کرتا تھابلکہ کبھی کبھی تو مفت بھی دے دیا کرتا تھا۔وہ اپنی دکان میں سو روپے کا نوٹ جان کر گراتا تھا اور دیکھتا تھا کون سا بچا اسے اٹھا رہا ہے پھر وہ اعلان کرواتا تھا کہ پیسے گر گئے ہیں جس کے بعد سب کی تلاشی لیتا تھا، بعد ازاں وہ بچے کو پکڑ کر ایک کمرے میں لے جاتا تھا اور اسے زیادتی کا نشانہ بنا کر تعلقات اچھے رکھنے کے لئے اٹھاے ہوئئے پیسے واپس دے دیتا تھا۔
مختلف رپورٹ کے مطابق جب عوام نے بچوں کو اس کی دکان پر بھیجنا بند کردیا تو اقبال نے فیش ایکوریم کی دکان کھولی بعد ازاں لڑکوں کو اپنےی طرف راغب کرنے کے لئے جم بھی کھولا۔
اقبال نے ایک ایئر کنڈیشنر اسکول بھی کھولا لیکن وہ اس میں ناکام رہا،اس نے ایک دکان بھی کھولی جس میں بازار سے کم قیمت پر اشیاء فروخت کرتا تھا۔جو صرف چند ہفتوں کے لئے جاری رہی۔
۔تیس دسمبر 19999کو جاوید اقبال نے ایک اردو اخبار کے دفتر میں پہنچ کر کہا،’’میں جاوید اقبال ہوں، سو بچوں کا قاتل، مجھے نفرت ہے اس دنیا سے، مجھے اپنے کیے پر کوئی شرمندگی نہیں ہے اور میں مرنے کے لیے تیار ہوں، مجھے سو بچوں کو قتل کرنے پر کوئی افسوس نہیں ہے۔
اس کا کہنا تھا کہ میں 5000 لوگوں کو مار سکتا تھا کوئی مسلئہ نہیں تھا اور نہ ہی پیسے کا مسلہ تھا لیکن میں نے اپنے آپ سے ایک وعدہ کیا تھا کہ سو بچوں کا جسے میں توڑنا نہیں چاہتا تھا ۔
اقبال قاتل کیوں بنا؟
اقبال نے اخبار کو بتایا اس نے پولیس سے انتقام کے لئے یہ سب کیا، اس نے بتایا کہ نوے کی دہائی میں اسے پولیس نے بچوں سے زیادتی کے الزام میں تفتیش کی تھی مگر کوئی الزام عائد نہیں ہوسکا۔
اس کا کہنا تھا کہ دوران تفتیش مجھ پر شدید تشددت کیا گیا میرا سر پھاڑ دیا گیا ، میری ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی ، مجھے معزور کردیا گیا تھا ، مجھے اس دنیا سے نفرت ہے۔
اقبال نے کہا کہ میری ماں میرے لئے روئی تھی میں چاہتا تھا کہ سو مائیں اپنے بچوں کے لئے روئیں۔
عدالت میں کیس کی سماعت کے دوران جج نے ملکی تاریخ کے سفاک ترین قاتل پر فرد جرم عائد کرتے ہوئے کہا کہ ملزمان کو اسی طرح سزا دی جائے جس طرح انہوں نے معصوم بچوں کو قتل کیا۔جج نے اپنے فیصلے میں کہا،’’تمہیں متاثرہ بچوں کے والدین کے سامنے پھانسی دی جائے گی اور اس کے بعد تمہاری لاش کے سو ٹکڑے کر کے انہیں اسی طرح تیزاب میں گلایا جائے گا، جس طرح تم نے بچوں کی لاشوں کو گلا یا تھا۔تاہم اس وقت کی حکومت نے ایسا کرنے نہ دیا ان کا کہنا تھا کہ یہ قانون کے خلاف ہے۔
مارچ سن 2000 میں 1000 بچوں کے قتل کے الزام میں اکتالیس سالہ اقبال کو سزاموت سنادی گئی تھی ، ایک سال بعد اقبال اور اس کے مبینہ ساتھی نے جیل میں زہر کہا کر خوکشی کرلی تھی۔
جب سزائے موت سنا دی تھی تب بھی اتنے سفاک قاتل کو سال بھر کیوں جیل میں کیوں زندہ رکھا گیا؟ فوری سزا کیوں نہ دی گئی؟
https://www.facebook.com/sana.u.khan.733/posts/10208538893130265