لاہور کا جادو
کہتے ہیں کہ لوگ لاہورچھوڑکرچلے جاتے ہیں لیکن لاہوران کونہیں چھوڑتا اوروہ دنیا میں جہاں کہیں بھی چلےجا ئیں لاہوران کےساتھ ہی جاتا اوررہتا ہے۔ لاہورمیں گذارے ماہ و سال لاہور چھوڑجانے والوں کے لئے ایک ایسا ناسٹلجیا بن جاتا ہے جس سے وہ تمام عمر پیچھا نہیں چھڑاسکتے۔ بات سیاست کی ہو یا رنگ برنگے کھانوں کی،موسیقی کا ذکر ہو یا پھرادب اورشاعری کا تذکرہ لاہوراورلاہوریوں کاحوالہ دیئے بغیر بات مکمل نہیں ہوتی کیونکہ لاہورمحض ایک شہرکا نام نہیں ہے بلکہ یہ تو صدیوں پر محیط تہذیبی اور ثقافتی تاریخ کا استعارہ ہے۔
لاہور میں رہنے والے اورلاہورسے بچھڑنے والوں نےاپنے شہرکے بارے میں بہت کچھ لکھا ہے۔ لاہورکی تاریخ کے بارے میں نوآبادیاتی عہد میں جو پہلی کتاب لکھی گئی وہ ایس ایم لطیف کی ’تاریخ لاہور ‘تھی۔ سید محمد لطیف جو انیسویں صدی میں پنجاب کے مختلف شہروں میں سیشن جج کے عہدے پرفائز رہے پکے اور جماندورو لاہوری اوراندرون شہر کے باسی تھے۔ بعد ازاں کنہیا لا ل نے بھی جو برطانوی عہد میں لاہور کا چیف انجینئر تھا اور جس نے لا ہور کا میوزیم ، ضلع کچہری اور ٹائون ہال بنوائے تھے’ تاریخ لاہور ‘کے نام سے ایک کتاب لکھی تھی۔ یہ دونوں کتابیں غیر جذباتی اورعلمی اندازمیں لکھی گئی تھیں اوران کا مقصد ہندوستان آنے والے انگریز افسروں کواس شہرکے ماضی سے متعارف کرانا مقصود تھا۔
لاہور کے بارے میں محبت اورعقیدت کے جذبات سے بھر پورکتابیں ہندوستان کی تقسیم کے بعد لکھی گئیں اوریہ ان لوگوں نے لکھیں جوبرصغیر کی تقسیم کے نتیجے میں لاہور چھوڑنے پرمجبورہوئے تھے۔تقسیم سےقبل کا لاہورایک کثیر المذہب شہر تھا جس میں ہندو، سکھ ،مسلمان، پارسی اورمسیحیوں کےساتھ ساتھ یہودی بھی رہتے تھے۔ مذہبی اورثقافتی طور پرمتنوع لاہورشہرمیں زندگی کس طرح کس قدر رنگا رنگ ہوگی اس کا اندازہ ان کتابوں کے مطالعہ سے ہوتا ہے جو 1947 میں لاہور سے بچھڑ جانے والوں نے لکھی ہیں۔ سوم آنند کی’’ کہاں گیا میرا شہرلاہور‘‘ گوپال متل کی ’’ لاہور کا جو ذکر کیا ‘‘ پران نوئل کی ’’ جب لا ہور جوان تھا ‘‘ ایسی کتابیں ہیں جن میں تقسیم سے قبل لاہورکی سیاسی، سماجی اور ثقافتی زندگی کی خوشبو موجود ہے۔ سہدیو وہرہ بھی ایک ایسے ہی لاہور باسی ہیں جنھیں 1947میں مجبورا لاہور چھوڑنا پڑا کیونکہ وہ اوران کے اہل خانہ مسلمان نہیں تھے۔ وہرہ لاہورتوچھوڑ گئے لیکن لاہورنےانھیں نہیں چھوڑا۔ وہ تقسیم سے قبل انڈین سول سروس میں شامل ہو چکے تھے اورآزادی کے بعد وہ بہت سے اعلی عہدوں پر فائز رہے اور انھوں نے دنیا کے بہت سے ملکوں اورشہروں کی سیاحت کی لیکن اپنی پہلی محبت لاہور کو اپنے دل سے نہ نکا ل پائے۔ چنانچہ انھوں نے لاہور کے حضوراپنی کتاب "Lahore Loved,Lost and Thereafter" کی صورت میں نذرانہ عقیدت پیش کیا ہے۔
والے وہرہ نے اپنی کتاب بیسویں صدی کی دوسری ، تیسری اور چوتھی دہائیوں کے لاہور کی سیاسی اورسماجی زندگی کا ذکر کیا ہے۔ وہرہ کے والد کا تعلق جہلم سے تھا اوروہ کاروبارکی غرض سے لاہورمیں مقیم تھے۔ ان کی لاہور کے انار کلی بازار میں جہلم ہائوس کے نام سے دکان تھی جہاں وہ کپڑا فروخت کرتے تھے۔ انارکلی کے پہلو میں واقع کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے عقب میں واقع گلی میں وہرہ 15۔ جون 1918 میں پیدا ہوئے۔وہرہ کہتے ہیں کہ جنگ کی بدولت ان کے والد کے کاروبارمیں ترقی ہوئی اورجلد ہی انھوں نے مشہورانجئینر سر گنگا رام نے مال روڈ پر جو بلڈنگ بنائی تھی اس میں دکان کرائے پر لے کر اپنا کاروبار وہاں منتقل کر لیا۔ اس دکان کا کرایہ ان دنوں چارسوروپے تھا۔
جس دن بھگت سنگھ کو پھانسی دی گئی اس کا ذکرکرتے ہوئے وہرہ لکھتے ہیں کہ انارکلی میں ہرطرف سرہی سرنظرآرہے تھے۔ میں سکول جارہا تھا جب میں نے دیکھا کہ گورنمنٹ کالج کے گیٹ پر طلبا کو احتجاجا کلاسوں کا بائیکاٹ کرنے کا کہا جارہا تھا۔ گیٹ کے سامنے لوگوں کا ہجوم تھا۔ جلد ہی وہاں پولیس آگئی اور انھوں نے وہاں موجود افراد کو گرفتار کرنا شروع کر دیا میں چونکہ وہاں سے گذر کرسکول جارہا تھا انھوں نے مجھے بھی پکڑ لیا۔ اس وقت میری عمربارہ سال تھی۔
وہرہ کا کہنا ہے کہ ان کی زندگی کا یاد گار واقعہ اس وقت پیش آیا جب ان کی عمر محض دس سال تھی۔ اور یہ1928 میں لالہ لاجپت رائے کے ا نتقال کا واقعہ تھا۔ وہ لکھتے ہیں کہ ریلوے اسٹیشن لاہور پر سائمن کمیشن کی آمد کے موقع پر احتجاج کرتے ہوئے پولیس نے انھیں لاٹھی چارج کا نشانہ بنایا اور شدید زخمی ہوئے لیکن اس کے باوجود انھوں نے شام کو گول باغ میں ہونے والے جلسے میں شرکت کی اور لاہوریوں سے خطاب کیا۔ اگلے دن یہ خبر آئی کہ لالہ جی کا انتقال ہو گیا ہے۔لوگوں کا غم وغصہ دیدنی تھا۔ سوگ میں سکول بند کردئیے گئے تھے اور میں ہزروں لوگوں کے ساتھ لالہ جی کے جنازے میں شریک ہوا تھا۔ لالہ جی کے جنازے میں لاہوریوں نے ہزاروں کی تعداد میں شرکت کی تھی۔لالہ جی کی قومی خدمات کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے لاہور کے شہریوں نے ان کا مجسمہ لاہور کے گول باغ میں نصب کیا جسے تقسیم کے بعد شملہ لے جایا گیا تھا۔ لاہور کی بسنت کا ذکر کرتے ہوئے سہدیو وہرہ کہتے ہیں کہ بسنت کے دن لاہور کے شہری صبح سویرے گڈیا ں اڑانے کے لئے اپنے گھروں چھتوں پر چڑھ جاتے۔ ڈور کی تیاری میں خصوصی دل چسپی لی جاتی تھی۔ جب کسی کی پتنگ کٹ جاتی تو بو کاٹا کا وہ شور مچتا کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ پتنگ بازی کا یہ شغل سورج غروب ہونے تک جاری رہتا تھا۔
علامہ اقبال وہرہ فیملی کے ہمسائے میں رہتے تھے۔ وہرہ کہتے ہیں کہ ہم بچوں کو ان کی عظمت اور ان کی عزت و احترام کا ادراک نہیں تھا۔ ان کے گھر کے باہر دروازے پر ان کے نام کے ساتھ بارایٹ لا لکھا ہوا تھا۔ علامہ کی شخصیت کی جو تصویر میرے حافظہ میں محفوظ ہے اس کے مطابق ان کے چہرے پر بشاشت، گلابی رنگت ، سرخ بال اورخوبصورت مونچھیں تھیں۔ وہ اطمینان سے بیٹھے حقہ پیا کرتے تھے۔ علامہ کے منشی بھی ایک دل چسپ شخصیت کے مالک تھے۔ انھوں نے ایک ایسی مرہم تیار کررکھی تھی جووہ ہرقسم کے پھوڑے پھنسیوں پر لگاتے تھے۔ بعد ازاں یہ مرہم دل روز کے نام سے بازارمیں بھی بکتی رہی۔
وہرہ کہتے ہیں کہ ان دنوں لاہور کے گرد ونواح میں نئی نئی آبادیاں اور رہائشی کالونیاں بن رہی تھیں۔ مال روڈ کے ارد گرد جو سڑکیں بن رہی تھیں وہاں کا ماحول تو اینگلو انڈین تھا لیکن گوالمنڈی جو نسبت روڈ کے عقب میں بنی تھی اور ڈی اے وی کالج ( موجودہ سول لائنز کالج) کے نزدیک بننے والے آبادی کرشن نگر میں ہندوستانی ماحول پایاجاتا تھا۔ نہر سے پار فیروز پور روڈ پر بننے والا ماڈل ٹاون کو بجا طور پر پہلی ایسی کالونی کہا جاسکتا تھا جو جدید ٹائون پلاننگ کے اصولوں کے پیش نظر رکھ کر ڈیزائن کی گئی تھی۔
وہرہ کی اس کتاب میں سانس لینے والے لاہور کو انتقال کئے ہوئے کئی سال بیت چکے ہیں۔ اب لاہوررواداری اوربرداشت کا شہرنہیں ہے۔ اب یہاں سات سمندرپار چھپنے والے خاکوں سے مشتعل ہو کر شہر کی عمارتوں کو آگ لگادی جاتی ہے۔ اب لاہور ثقافتی مرکز کی بجائے فرقہ پرستی کا مرکز ہے جہاں اپنا موقف دلیل سے پیش کرنے والے کو جہادیوں اورانتہا پسندوں کو ہاتھوں پٹنا پڑتا ہے۔ وہرہ کی کتاب ان کے لئے ہے جو لاہور کو ایک بار پھر علم و ادب اور دلیل اور مکالمے کا شہر بنانے پر یقین رکھتے اور اس کے لئے اپنی بساط کے مطابق کوشش کرتے ہیں
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔