لاہور کا گورنر ہاؤس اندر سے بہت کم لاہوریوں نے دیکھا ہوگا ۔
ایک طرف باغِ جناح اور دوسری طرف شملہ پہاڑی سے ملےہوئے 600 کنال سے زیادہ رقبے میں پھیلے ہوئے گورنر ہاؤس میں چڑیا گھر، ڈیری فارم، پولٹری فارم ، سکول ، تالاب ، انواع و اقسام کے درخت، پھول اور پتہ نہیں کیا کیا ہے۔ عملے کے سیکڑوں لوگ اس میں رہتے ہیں۔ لیکن کچھہ گورنر خود اس میں نہیں رہے اور بعض اکیلے رہے ، اپنے بال بچے یہاں نہیں لائے۔
1990میں ایک نیک دل شخص پنجاب کا گورنر بنا۔ اسے خیال آیا کہ وہ بچہ تھا تو گورنر ہاؤس کے قریب سے گزرتے ہوئے سوچا کرتا تھا کہ یہ اندر سے کیسا ہوگا۔ دوسرے بچے بھی یہی سوچتے ہوں گے۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ زیادہ سے زیادہ بچوں کو اپنا مہمان بنا کر گورنر ہاؤس کی سیر کرائے گا۔
پھر شہر کے عام سکولوں کے سیکڑوں بچے روزانہ لاٹ صاحب کے مہمان بننے لگے ۔ مہربان گورنر خود ان کی خاطر تواضع کرتے ، ان سے باتیں کرتے۔۔ اور اس طرح ہزاروں بچوں نے گورنر ہاؤس دیکھہ لیا ۔ آج لاہور کے جو لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے گورنر ہاؤس اندر سے دیکھا ہوا ہے ، ان میں سے بیشتر وہی بچے ہوں گے، جن میں سے بیشتر اب خود بچوں والے ہوں گے اور اپنے بچوں کو بھی گورنر صاحب سے ملاقات کے قصے سناتے ہوں گے۔
انہی گورنر صاحب نے لاہور کے نواحی دیہات میں بے شمار جانیں لینے والی خاندانی دشمنیاں ختم کرانے کی کوششیں بھی کیں۔ وہ لوگ جو ہر وقت اپنی اور اپنے بچوں کی جانیں خطرے میں محسوس کرتے تھے، خود بھی ان دشمنیوں اور خون خرابے سے پیچھا چھڑانا چاہتے تھے۔ اب لاٹ صاحب کی مداخلت ہوئی تو گویا وہ اس کے منتظر ہی تھے۔ یوں اس شریف آدمی نے بیسیوں جانیں لینے والی کئی خاندانی دشمنیوں کا خاتمہ کراکے ان کی صلح کرادی۔
لاہور میں تجاوزات ختم کرنا ایک بہت مشکل کام ہے۔ سیاسی تعلقات، برادریاں اور بہت کچھہ رکاوٹ بنتا ہے۔ انہوں نے اس کام پر بھی توجہ دی اور کوئی رو رعایت نہیں کی۔
یہ گورنر تھے میاں محمد اظہر ۔۔۔ میرے دل میں ان کیلئے ہمیشہ عزت اور محبت رہی۔
وہ اب گوشہ نشین ہیں۔
25 جولائی کو میرے سامنے بیلٹ پیپر پر ان کے بیٹے حماد کا نام بھی تھا ، اس پر مہر لگا کر مجھے میاں اظہر کیلئے تشکر کے اظہار کا موقع مل گیا !
ابھی خبر آئی ہے کہ حماد اظہر نے کہا ہے کہ وہ رکن پارلیمنٹ کے طور پر کوئی تنخواہ نہیں لیں گے.
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“