(Last Updated On: )
ریگل صدر کراچی میں پرانی کتابوں کا بازار جو ہر اتوار کو سجتا ہے وہاں ہم جیسے کچھ کم علم بھی قلیل رقم میں علم کی پیاس بجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ یہ فُٹ پاتھی کتابی بازار سن 1964 سے اس مقام پر سجتا آیا ہے۔ پچھلے اتوار کو ہمیں اتفاق سے 1964 کے ہی طلعت محمود کے گائے ہوئے فلمی نغمات و غزلیات کا ایک کتابچہ ہاتھ آگیا۔ یہ کتابچہ جاوید بکڈپو، گنپت روڈ انار کلی لاہور سے شائع ہوا تھا۔ جب ہم نے اس کے سرورق اور پہلے صفحے پر نظر دوڑائی تو اس پر انگریزی زبان میں ایک مہر ثبت پائی۔ اُس مہر پر یہ عبارت درج تھی؛
“کراؤن بُک اسٹال
مالک علی احمد
90 قاضی علاؤالدین روڈ ڈھاکہ-2″
اس کتابچے کا سفر سن 1964 میں انار کلی بازار گنپت روڈ سے شروع ہوا۔ جاوید بکڈپو کا تو شاید اب وجود نہیں رہا لیکن اس سڑک پر آج بھی کاغذ اور کتاب سے متعلق بہت سی دکانیں موجود ہیں اور ان سے متعلق اشیا کا کاروبار جاری ہے۔ طلعت محمود کے گیتوں کا یہ کتابچہ تقریباً 1800 کلو میٹر کا طویل سفر طے کرتے ہوئے ڈھاکہ پہنچا ہو گا۔ جو اب ایک آزاد مملکت بنگلہ دیش کا دارالحکومت ہے۔ ڈھاکہ اُس زمانے میں پاکستان کے ایک صوبے مشرقی پاکستان کا دارالحکومت تھا۔ یہ کتابچہ ڈھاکہ پہنچ کر “کراؤن بکڈپو” کے شیلف کی زینت بنا ہو گا۔ ڈھاکہ کا کراؤن بکڈپو علاؤالدین روڈ پر واقع تھا جس سے چند گز کے فاصلے پر ستاروں والی مسجد موجود ہے۔ ستارہ مسجد کا شمار بنگلہ دیش کی قدیم مساجد میں ہوتا ہے۔ یہ مسجد اٹھارویں صدی میں تعمیر کی گئی تھی اور پھر وقتاً فوقتاً اس کو تزئین وآرائش کے مختلف مراحل سے گزارا جاتا رہا ہے۔ اس مسجد کے قریب ہی اٹھارویں صدی میں بنایا گیا آرمینین ریسرکشن چرچ بھی واقع ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ اب ایک تاریخی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔
15 اگست 1975 کو بنگلہ دیش کے بانی اور اُس وقت کے وزیراعظم شیخ مجیب الرحمن کو ان کے خاندان کے دوسرے افراد کے ساتھ قتل کر کے مُلک میں انقلاب برپا کر دیا گیا تھا۔ نئی آنے والی حکومت شیخ مجیب کے مخالفین پر مبنی تھی۔ اس حکومت نے شعوری کوشش کی کہ شیخ مجیب کا نام ہر جگہ سے مٹا دیا جائے۔ بنگلہ دیش نے پاکستان سے آزادی حاصل کرنے کے بعد جب بنگلہ دیشی کرنسی جاری کی تو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی تصویر کی جگہ بنگا بندھو شیخ مجیب کی تصویر شائع کی تھی۔ 1975 کے اس خونی انقلاب کے نتیجے میں شیخ مجیب کی تصویر کرنسی نوٹوں پر سے ہٹا دی گئی اور اس کی جگہ ستاروں والی مسجد کی تصویر شائع کی جانے لگی اور پھر کافی عرصے بعد سن 1997 سے دوبارہ بنگلہ دیش کے کرنسی نوٹ پر “بنگا بندھو” کی تصویر شائع کی جانے لگی جو تاحال جاری ہے۔
گمان غالب یہ ہے کہ “کراؤن بکڈپو” کسی اردو بولنے والے غیر بنگالی کی ملکیت رہا ہو گا جو 1971 کے خونی ہنگاموں میں تہس نہیں کر دیا گیا ہو گا۔ نہ جانے کب اور کس کے ساتھ یہ کتابچہ 1971 کے بعد دوبارہ سفر کرتے ہوئے ڈھاکہ سے تقریباً ایک ہزار کلو میٹر سے زائد فاصلہ طے کرتے ہوئے کراچی پہنچا ہو گا اور پھر 1971 سے آج تک کسی انسان کی ذاتی لائبریری یا کتابوں کے ذخیرے کا حصہ رہا ہو گا اور اب نہ جانے کن حالات کی بنا پر یہ کتابچہ صدر کے فُٹ پاتھی بازار پر پہنچا۔
طلعت محمود نے بطور گلوکار شہرت کی بلندیوں کو چھوا لیکن اپنے کیریئر کے آغاز میں انہوں نے بطور اداکار کچھ فلموں میں بھی کام کیا تھا۔ بطور اداکار ان کی فلموں میں “راج لکشمی”، “تم اور میں”، “آرام”، “دلِ نادان”، “ڈاک بابو”، “وارث”، “رفتار”، “دیوالی کی رات”، “ایک گاؤں کی کہانی”، “لالہ رخ”، “سونے کی چڑیا” اور “مالک” وغیرہ شامل ہیں۔ طلعت کے مقابل فلمی اداکاراؤں میں اپنے وقت کی مایہ ناز اور مشہور اداکاراؤں نے کام کیا تھا، جن میں اداکارہ نتن، مالا سنہا اور ثریا قابلِ ذکر ہیں۔ بہت سی فلموں میں اداکاری کے بعد طلعت نے باضابطہ طور پر اپنے آپ کو گلوکاری کے لیے وقف کر دیا اور پھر بطور گلوکار انہوں نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔
طلعت محمود نے اپنے پورے فلمی کیریئر کے دوران ہندی فلموں کے لیے ناقابلِ فراموش گیت ریکارڈ کروائے اور اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے سننے والوں کے لیے غزلوں کا بھی ایک بیش بہا خزانہ ریکارڈ کی صورت میں چھوڑا ہے۔ طلعت محمود کے کچھ یادگار اور لازوال گیتوں کے بول مندرجہ ذیل ہیں؛
“اے میرے دل کہیں اور چل”، “تصویر بناتا ہوں تصویر نہیں بنتی”، “جائیں تو جائیں کہاں”، “میری یاد میں تم نہ آنسو بہانا”، “دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے”، “زندگی دینے والے سُن”، “اے غمِ دل کیا کروں” وغیرہ شامل ہیں۔
طلعت محمود نے کلکتہ کی رہنے والی ایک فلمی اداکارہ ”لتیکا مُولک“ سے شادی کی تھی۔ لتیکا ان کی بہت بڑی پرستار بھی تھی۔ طلعت سے شادی کے بعد لتیکا نے اپنا نام تبدیل کر کے نسرین رکھ لیا۔ لتیکا کا تعلق مسیحی مذہب سے تھا۔ ان کے دو بچے پیدا ہوئے۔ ان کے بیٹے کا نام خالد اور بیٹی کا نام سبینہ ہے۔
ساٹھ کی دہائی کے اوائل میں ہی طلعت محمود نے کراچی کا ایک نجی دورہ بھی کیا۔ اس دورے کے دوران انہوں نے گراموفون کمپنی کے لیے فیض کی ایک غزل بھی ریکارڈ کروائی تھی۔ فیض کی لکھی ہوئی غزل “دونوں جہاں تیری محبت میں ہار کے” کو طلعت کے غیرفلمی نمبرز میں نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ 1962 میں ریلیز ہونے والی پاکستانی فلم “چراغ جلتا رہا” میں بھی انہوں نے دو گانے گائے تھے جبکہ موسیقار سہیل رانا کے لئے بھی انہوں نے تین گانے ریکارڈ کروائے تھے۔
1960 کی دہائی کے آخر میں بھارت کی فلمی دنیا میں “راک این رول” میوزک کی آمد کی وجہ سے طلعت جیسے گلوکار پسِ پردہ چلے گئے تھے۔ لیکن فلم پروڈیوسروں کے اصرار پر طلعت محمود کی آواز میں نئے گیتوں کو فلموں میں باقاعدگی سے شامل کیا جاتا رہا۔ کیونکہ ان کی آواز “راک این رول” انداز کی موسیقی کے لیے بھی نہایت موزوں تھی۔ ان کی آخری ساؤنڈ ٹریک ریکارڈنگ سن 1987 میں فلم “ولیِ اعظم” کے گیت “میرے شریکِ سفر” کے لیے ہوئی تھی۔ اس گیت کو انہوں نے “ہیملتا” کے ساتھ گایا تھا۔ اس کے موسیقار “چتر گپت” تھے اور شاعری “احمد وصی” کی تھی۔
طلعت وہ پہلے ہندوستانی گلوکار تھے جنہوں نے سن 1956 میں ہندوستان سے باہر جا کر مختلف ممالک میں اپنے کانسرٹس منعقد کیے۔ ان ممالک میں ایسٹ افریقہ، یونائٹڈ اسٹیٹس، یو-کے اور ویسٹ انڈیز شامل ہیں۔ انہوں نے لندن کے رائل البرٹ ہال اور امریکہ کے میڈیسن اسکوائر گارڈن میں بھی گلوکاری کا مظاہرہ کیا۔ طلعت محمود سن 1991 تک باقاعدگی سے گاتے رہے اور اس دوران ہالینڈ کے علاوہ دوسرے ممالک میں جا کر بھی پرفارم کرتے رہے۔
پاکستان کے قومی نغمات کی تاریخ کا ایک دلچسپ واقعہ یہ ہے کہ طلعت محمود ایک دورے کے دوران جب ہندوستان سے پاکستان آئے تو انہوں نے لاہور ریڈیو اسٹیشن پر پاکستان کے لئے ایک خصوصی قومی نغمہ ’’آزاد مسلماں، آزاد مسلماں‘‘ بھی ریکارڈ کروایا تھا۔ اس گیت کی ریکارڈنگ کے بعد جب وہ اپنے وطن واپس گئے تو انہیں کچھ مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑا تھا۔
طلعت محمود کو 1992 میں بالی ووڈ کا سب سے بڑا فلمی ایوارڈ “فلم فیئر ایوارڈ” بھی ملا اور بعدازاں حکومت ہند نے انہیں بھارت کے سب سے بڑے سرکاری ایوارڈ “پدما بھوشن ایوارڈ” سے بھی نوازا تھا۔ سن 2016 میں ہندوستان کے دس عظیم گلوکاروں کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے “پوسٹل اسٹیمپ” کا اجراء کیا گیا اور اس فہرست میں “طلعت محمود” کا نام بھی شامل تھا۔
طلعت محمود کا انتقال ممبئی میں 9 مئی 1998ء کو ہوا۔