(Last Updated On: )
کئی گھنٹوں سے وہ اپنے ہم سفر کا انتظار کر رہی تھی مگر وہ واپس آیا نہ کہیں دکھائی دیا۔ ہر لمحہ اس کے لیے امتحان بنتا جا رہا تھا۔ وہ سوچنے لگی۔ ’’ یہ ریل گاڑی جب منزل مقصود پر پہنچ جائے گی تو میں کہاں جاؤں گی؟وہاں میرا کوئی بھی نہیں ہے۔ اجنبی شہر۔۔ ۔۔ ۔۔ اجنبی راستے۔۔ ۔۔ ۔ اجنبی لوگ۔۔ ۔۔ ! ‘‘ اس کا اپنا ملک بہت پیچھے چھوٹ گیا تھا۔ اس کی سمجھ میں کچھ بھی نہ آ رہا تھا۔
رنگ پور سے عذرا ایک دلال کے ساتھ چلی تھی جس نے اسے ممبئی میں کام دلانے کا جھانسہ دیا تھا۔ اس نے عذرا کو بنگالی زبان میں سمجھایا تھا۔ ’’عذرا، میری بات سنو۔ تمھاری دو سہیلیاں، رئیسہ اور کومل، ممبئی میں مزے سے جی رہی ہیں۔ میں نے انھیں کام دلوایا ہے۔ مہینے کے پندرہ بیس ہزار کماتی ہیں۔ سب کچھ ہے ان کے پاس۔ کھانا پینا، کپڑے لتے، رہنے کی جگہ اور پھر ہر ماہ اپنے گھر روپے بھیج دیتی ہیں۔ تم نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہو گا کہ ان کے گھروں کی حالت کتنی بدل چکی ہے۔ ‘‘
دلال رہنے والا تو مغربی بنگال کا تھا مگر ممبئی میں کئی برسوں سے اقامت پذیر تھا۔ وہ بہت بڑے کبوتر باز کے لیے کام کرتا تھا۔ کام تھا بنگلا دیش سے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو پھانس کر سرحد پار کرا لینا اور پھر انھیں ممبئی تک پہنچا کر مالک کے حوالے کر دینا۔ ایک پھیرے میں ایک دو کبوتر ٹھکانے تک پہنچ جاتے تھے اور وہ ایک ڈیڑھ لاکھ روپے کما لیتا تھا۔ یہ سب مال اکیلے اس کی جیب میں نہیں جاتا تھا کیونکہ ہر موڑ پر کبوتروں کو چیلوں سے سابقہ پڑتا تھا۔ بارڈر سیکورٹی، ریلوے پولیس، ممبئی پولیس، سی آئی ڈی، ریلوے چیکنگ سٹاف۔۔ ۔۔ ! مالک ان لوگوں کو گھریلو کام کاج کے لیے ضرورت مندوں کے پاس بھیج دیتا اور ہر مہینے ان کی تنخواہ کا بیس فیصد حصہ اس کے سامنے خود بخود پہنچ جاتا۔ ‘‘
ممبئی میں ایسی ہزاروں لڑکیاں ہیں جو ناجائز طور پر گندی بستیوں میں رہتی ہیں اور متوسط گھرانوں میں کام کاج کرتی ہیں۔ جھاڑو پونچھا، کپڑے برتن اور کہیں کہیں رسوئی کا کام بھی کرتی ہیں۔ اگر یہ لوگ نہ ہوں تو ممبئی کے متوسط طبقے کی زندگی اجیرن ہو جائے گی۔ میاں بیوی دونوں صبح سویرے نکل جاتے ہیں اور رات کو تھکے ماندے لوٹ آتے ہیں۔ پھر کون برتن مانجھتا پھرے اور کون کپڑے دھوتا پھرے۔ روٹی پکانا اور کھانا بھی دشوار ہو جاتا ہے۔ اکثر ناشتے میں دو منٹ میگی سے پیٹ بھر لیتے ہیں اور رات گئے باہر سے وڑا پاؤ خرید کر گزارا کر لیتے ہیں۔
عذرا نے دلال کی بات سن کر بنگالی میں بے ساختہ جواب دیا۔ ’’ ہاں، میں بھی سوچوں کہ ان کے گھر والوں کے پاس اتنا سارا مال کہاں سے آ گیا۔ ‘‘ پھر وہ رک گئی اور کچھ وقفے کے بعد بولی۔ ’’ میں تمھاری بات پر وِچار کر لوں گی۔ پرسوں جواب دوں گی۔ ‘‘
اس کے بعد وہ سوچ و فکر کے سمندر میں ڈوب گئی۔ ’’ اس میں ہرج ہی کیا ہے۔ والدین سے بچے پالے نہیں جاتے۔ تین لڑکے تھے، ایک ایک کر کے گھر سے بھاگ گئے۔ مڑ کر بھی نہ دیکھا کہ ہم زندہ ہیں یا مر گئیں۔ پانچ لڑکیاں تھیں، دو جو مجھ سے بڑی تھیں نہ جانے کن لڑکوں کے ساتھ بھاگ گئیں۔ پھر ان کا اتا پتا بھی معلوم نہ ہو سکا۔ چھوٹی دو اور ہیں۔ ابھی کمسن ہیں۔ ابو اب کمانے کے لائق نہیں رہے۔ بے چاری ماں ہی کما کر لاتی ہے اور ہم سب کا پیٹ بھر تی ہے۔ کیا کام کرتی ہے، میری سمجھ میں نہیں آتا۔ ‘‘
یہ اس کے دل کی آواز تھی جو اس کو دلال کی طرف کھینچتی چلی گئی اور وہ چوتھے ہی روز اس کے ساتھ سرحد پار کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ سرحد پار کرنے میں کوئی زیادہ جوکھم نہیں اٹھانا پڑا۔ چار ہزار کلومیٹر لمبی چھلنی جیسی سرحد جو ہندستان کی کئی ریاستوں – ترپورا، آسام اور میگھالیہ- سے سٹی ہوئی ہے اور جس کے درمیان دو سو کے قریب ’چت محل‘ ہیں جن کا فیصلہ برسوں سے نہیں ہو رہا ہے۔ دونوں آسام کے راستے ہندستان پہنچے اور پھر ریل گاڑی میں سوار ہو کر ممبئی کی جانب روانہ ہوئے۔ سفر کے دوران دلال نے اسے عام استعمال کے بہت سارے ہندی الفاظ سکھائے اور ہدایت دی کہ اگر کوئی نام پوچھے تو کومل کہہ دینا اور اگر گھر کے بارے میں پوچھے تو مالدہ بنگال کہہ دینا۔ اس نے عذرا کو بھروسہ دلایا کہ دو تین مہینے تک وہ ہندی اور مراٹھی سیکھ جائے گی۔ عذرا کو اطمینان ہو گیا کہ اب مستقبل کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ دن کا سفر باتوں باتوں میں گزر گیا۔ شام ڈھلتے ہی دلال کھانا لانے کے لیے ریل گاڑی سے نیچے اترا۔ وہ ابھی دکاندار سے بحث کر ہی رہا تھا کہ پولیس نے شک کی بنا پر اسے دھر دبوچ لیا اور پوچھ تاچھ کرنے لگی۔ اس نے پولیس کی مٹھی گرم کر کے اپنی جان چھڑا تو لی مگر تب تک ٹرین چھوٹ گئی اور وہ سانس روک کر رینگتی ہوئی ریل گاڑی کو دیکھتا رہ گیا جب تک وہ آنکھوں سے اوجھل ہو گئی۔ پل بھر میں اس کی ساری امیدوں پر پانی پھر گیا۔
رات بھر عذرا کو کچھ سمجھ نہیں آیا کہ اس کا نگہبان کہاں چلا گیا۔ سترہ اٹھارہ برس کی لڑکی پہلی بار گھر سے باہر نکلی تھی اور پرائے دیش میں انجان منزل کی طرف بڑھتی چلی جا رہی تھی۔ اندر ہی اندر وہ گھلنے لگی۔ بہت پشیمان تھی کہ دلال کی چکنی چپڑی باتوں میں آ کر کیوں خود کو مصیبت میں ڈال دیا۔ وسوسوں اور اندیشوں نے اس کو گھیر لیا۔ پھر خود ہی حجّت کرتی۔ ’’ پر آتی کیوں نہیں۔ میرے پاس کوئی چارہ بھی تو نہ تھا۔ گھر میں والدین پر بوجھ بنی ہوئی تھی۔ بڑی دو بہنوں کی کوئی خبر نہیں کہ کہاں ہیں۔ جن کے ساتھ چلی گئیں، کیا معلوم وہ کون تھے۔ ہو سکتا ہے مزدوری کر کے کہیں پیٹ پال رہے ہوں یا پھر انھوں نے میری بہنوں کو بیچ کھایا ہو۔ اب لگ رہا ہے میرے ساتھ بھی ویسا ہی کچھ ہونے والا ہے۔ بندو نے شادی کی بات کی نہ جسم بیچنے کی۔ کہتا تھا جھاڑو پونچھا کا کام دلوا دوں گا۔ مہینے کی پندرہ ہزار کمائی ہو گی مگر ہر مہینے کی تنخواہ میں سے بیس فیصد کمیشن دینا پڑے گا۔ سمجھ نہیں آ رہا ہے کہ وہ کہاں گیا۔ شکل سے بھلا مانس لگ رہا تھا۔ اس پر کچھ بپتا ضرور آئی ہو گی یا پھر ہو سکتا ہے وہ بھی مجھے بیچنے کے چکر میں نکلا ہو ؟ ‘‘
پھر خود ہی اپنے سوال کا جواب دینے لگی۔ ’’اگر ایسا ہوتا تو میرے ساتھ اتنی ہمدردی سے پیش نہ آتا۔ مجھے اس طرح دنیا کی اونچ نیچ نہ سمجھاتا۔ بیچنے کے لیے لایا ہوتا تو راستے میں غائب کیوں ہو جاتا، بیچ کر ہی دم لیتا۔ ‘‘ دو دن اور دو راتیں اس نے بھوکی پیاسی کاٹ لیں۔ آنکھوں میں آنسو تھے جنھیں وہ چپکے سے پونچھ لیتی تاکہ کسی کو اس کی مصیبت کی خبر نہ ہو۔
ممبئی میں ٹرین رک گئی۔ وہ دیکھ رہی تھی کہ سارے مسافر ایک کے بعد ایک اتر تے چلے جا رہے ہیں اور ریل گاڑی خالی ہوتی جا رہی ہے۔ بوجھل قدموں سے وہ بھی ٹرین سے اتری اور اپنے چاروں اور دیکھنے لگی۔ کہیں کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔ پھر سامنے ایک بنچ کے پاس زمین پر بیٹھ گئی۔ بہت دیر تک وہ اس کا انتظار کرتی رہی۔ مگر وہ کہیں دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ اس کو زمین کھا گئی یا آسمان، عذرا کی سمجھ میں کچھ بھی نہ آ رہا تھا۔ سورج ڈھلتے ہی ایک پولیس والا گشت کرتا ہوا ادھر آ نکلا۔ اس کو گٹھڑی سی بنی ہوئی اس لڑکی پر شک ہوا۔ وہ دو چار بار عذرا کے پاس سے گزر گیا اور اسے گھورتا رہا۔ عذرا پریشان ہو گئی اور چپکے سے وہاں سے کھسک کر ریلوے سٹیشن سے بھاگنے میں کامیاب ہوئی۔ پھر بھی پولیس کی نظروں سے کہاں بچ پاتی۔
اندر پلیٹ فارم پر ایک محدود سی دنیا تھی۔ اب وہ ایک ایسی دنیا میں داخل ہو چکی تھی جس کی کوئی سیما نہ تھی۔ یہاں بھی ہر طرف وہی خاکی وردی والے نظر آ رہے تھے جن کا نام لیتے ہی بدن میں جھرجھریاں دوڑنے لگتی ہیں۔ ہوس اور حرص کے سوداگر۔ ان کی کار کردگی سے گھن آتی ہے۔ سٹیشن سے باہر نکل کر عذرا چلتی رہی۔ ہاتھ میں ایک جھولی تھی جس میں روزمرہ کے چند کپڑے تھے۔ اس کو یہ معلوم نہ تھا کہ وہ کہاں جا رہی ہے۔ سڑک پر کچھ دور جا کر وہ ایک حوالدار سے ٹکرا ئی۔ نام تھا گوپال شندے۔ وہ جوں جوں آگے بڑھتی رہی شندے سایہ بن کر اس کا پیچھا کرتا رہا۔ وہ خوفزدہ ہو گئی۔ حوالدار کی نظروں سے بچنا بہت مشکل تھا۔ اس نے بہت دور تک اس کا پیچھا کر لیا مگر وہ خود کو گھسیٹتی ہوئی وہاں سے آگے ہی آگے چلتی رہی۔ نہ کوئی ٹھکانہ تھا اور نہ ہی کوئی منزل۔ بہت دور جا کراس کی نظر یں کچھ لوگوں پر پڑیں جو فٹ پاتھ پر سو رہے تھے۔ سو اس نے بھی رات وہیں پر گزارنے کی ٹھان لی۔ جھولی نیچے رکھ لی اور اس پر سر رکھ کر لیٹنے کی کوشش کی۔ ابھی وہ پاؤں پسارنے ہی لگی تھی کہ دور سے ایک کرخت آواز نے اس کو جھنجھوڑ دیا۔ ’’ اے لڑکی، وہاں کیا کر رہی ہو۔ یہ تمھارے سونے کی جگہ نہیں ہے۔ کیا نام ہے تمھارا؟‘‘
عذرا اسے ٹکر ٹکر دیکھنے لگی۔ اسے دلال کی بات یاد آ گئی کہ بنگلا دیشی ہونے کی وجہ سے پولیس والوں سے بچ کر رہنا۔ کبھی اپنا اصلی نام یا پتا نہیں بتانا۔ کوئی نام پوچھے تو ہندو نام بتا دینا جیسے کومل یا رتنا اور جگہ پوچھے تو مالدہ کہہ دینا۔ وہ اپنی ہمت بٹور نے لگی۔
دریں اثنا حوالدار اس کے پاس آ پہنچا اور سیدھے جا کر اس کی بانہہ پکڑ لی۔ پھر رعب دار آواز میں پوچھنے لگا۔ ’’ کیوں بے لڑکی۔ کون ہو تم؟ کہاں سے آئی ہو؟‘‘
لڑکی رونے لگی۔ اس کی گھگھی بندھ گئی۔ حلق سے کوئی لفظ بھی نکل نہیں رہا تھا۔
پولیس والے نے پھر استفسار کیا۔ ’’ نام بتاؤ گی یا پولیس تھانے لے چلوں۔ ‘‘
وہ زار و قطار رو نے لگی۔ بنگالی میں کہنے لگی۔ ’’کچھ سمجھ نہیں آتا۔ ‘‘
حوالدار نے سوچا کہ زیادہ کچھ کہوں تو وہ چیخنے چلانے لگے گی اور فٹ پاتھ کے لوگ جاگ جائیں گے اور میری بنی بنائی سکیم فیل ہو جائے گی۔ اس لیے اس کی بانہہ چھوڑ کر اس نے نرم لہجے میں پوچھ لیا۔ ’’ دیکھو میں تمھاری مدد کرنا چاہتا ہوں۔ تم میرے سوالوں کا جواب دو تاکہ میں تم کو تمھارے گھر والوں سے ملوا دوں۔ ‘‘
نہ اس کو گوپال شندے کی زبان سمجھ آ رہی تھی اور نہ ہی وہ کچھ بول پا رہی تھی۔ وہ صرف بنگالی جانتی تھی اور کچھ بھی نہیں۔ اس کے منہ سے کوئی آواز بھی نکل نہیں پا رہی تھی۔ تاہم کچھ الفاظ کے معنی وہ ہندی اور بنگالی کی مماثلت کے سبب یا پھر حوالدار کے اشاروں سے سمجھنے لگی۔ حوالدار اس کو ایک جھاڑی کے پیچھے لے کر گیا اور اس کی بانہہ مروڑ کر پوچھنے لگا۔ ’’ کیا نام ہے تمھارا؟‘‘
’’عذرا‘‘ وہ بولی۔ ہڑبڑاہٹ میں اسے دلال کا دیا ہوا نام یاد ہی نہیں آیا۔
’’ گھر کہاں ہے تمھارا؟‘‘
وہ دلال کی بتائی ہوئی جگہ کا نام بھی بھول گئی، بولی۔ ’’رنگ پور، بنگلا دیش۔ ‘‘
’’ تو تم بنگلا دیشی ہو؟‘‘
’’ ہاں ‘‘
’’ پھر تو تمھیں جیل لے جانا پڑے گا۔ چلو میرے ساتھ۔ ‘‘
وہ رونے اور بلبلانے لگی لیکن گوپال اس کی بانہہ کو مضبوطی سے تھامے اسے اپنے ساتھ لے جا رہا تھا۔ عذرا دوسرے ہاتھ سے اپنی پوٹلی کو سینے کے ساتھ دبائے ہوئے کسی مزاحمت کے بغیر اس کے ساتھ چلتی رہی۔ اس کے لیے وہ پوٹلی ہی سب کچھ تھی گو اس میں صرف دو چار کپڑے تھے۔ راستے میں سب کچھ چھوٹ چکا تھا صرف اس پوٹلی کے بغیر۔
’’ چلو چھوڑو تم کو میں پولیس سٹیشن نہیں لے جاؤں گا۔ اپنے گھر میں رکھوں گا۔ میں اکیلا ہوں۔ تم میرے گھر کا کام کرتی رہنا۔ اس طرح تمھارے بارے میں کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو گی اور تم جیل جانے سے بچ جاؤ گی۔ ‘‘شندے ایسے بول رہا تھا جیسے عذرا سب کچھ سمجھ رہی ہو۔
ردِ عمل میں وہ کچھ نہ بولی۔ بولتی کیا؟ اسے ہندی سمجھ آتی تھی نہ بولنی آتی تھی۔ بس کبھی کبھی اشارے سمجھ لیتی تھی۔ گوپال شندے اس کو سیدھے اپنے گھر لے گیا۔ گھر کیا تھا بھیڑ بھاڑ والی ایک بستی میں دوسری منزل پر ایک چھوٹی سے چال تھی جس میں دو کمرے تھے۔ جگہ جگہ دیواروں کا پلستر اکھڑا ہوا تھا۔ جدھر نظر ڈالو وہاں سامان بکھرا پڑا تھا۔ کہیں پر وردی، کہیں قمیص، کہیں پتلون، کہیں بنیان، کہیں کچھّے، کہیں موزے اور کہیں جوتے۔ کچن میں چار پانچ ایلمونیم کے برتن اور گیس کا چولہا تھا۔ کچن شیلف کے نیچے شراب کی بے شمار خالی بوتلیں پڑی ہوئی تھیں۔ عذرا یہ دیکھ کر سہم گئی۔ اسے اپنے مستقبل کا کچھ کچھ اندازہ ہونے لگا۔ البتہ اتنی تسلی تھی کہ جان بچ گئی۔ وہ چپ چاپ ایک کونے میں جا کر دبک گئی۔
شندے کو گھڑی پر نظر پڑی تو رات کے گیارہ بج چکے تھے۔ وہ جلدی سے کھانا لانے کے لیے بازار چلا گیا۔ جاتے وقت اس نے صدر دروازے پر تالا لگا دیا۔ کئی بار عذرا کے جی میں آئی کہ کھڑکی سے چھلانگ لگا کر بھاگ جائے۔ پھر سوچا دوسری منزل ہے، ہڈی پسلی ٹوٹ جائے گی اور جیل الگ سے جانا پڑے گا۔ اس لیے خاموش وہیں بیٹھی رہی۔ کچھ دیر میں گوپال شندے اندر داخل ہوا۔ ایک اخبار کھول کر زمین پر بچھا دیا اور اسی پر روٹی، چاول اور سبزی کے پتّل رکھ دیے۔ پھر جیب سے پوّا نکال کر گلاس میں انڈیل دیا اور اسے پینے لگا۔ جب نشہ چڑھ گیا تو لگاتار ہنستا رہا اور بولتا بھی رہا۔
’’ میری بیوی پانچ سال پہلے مر گئی۔ نہ جانے کیا ہو گیا اسے۔ گربھ وتی تھی۔ بچہ جننے کے لیے ہسپتال میں بھرتی کروا دیا۔ وہاں سے ماں بیٹے کی لاشیں واپس مل گئیں۔ بھگوان بھی کتنا ظالم ہے۔ تیس سال کی عمر میں رنڈوا بنا دیا۔ ‘‘اس نے زوردار قہقہہ مارا۔
عذرا خالی خالی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔ وہ اس کے نشے میں ہونے اور زور زور سے باتیں کرنے سے گھبرا رہی تھی مگر کچھ بھی نہ بولی۔ خاموشی سے سب کچھ برداشت کرتی رہی۔ آخر کار بھات سبزی زہر مار کر کے اِدھر اُدھر دیکھنے لگی۔ گوپال شندے کو سمجھ آیا کہ وہ سونے کے لیے جگہ تلاش رہی ہے۔ جلدی سے اٹھا اور اس کے لیے فرش پر ایک دری بچھا ئی اور ساتھ ہی اوڑھنے کے لیے ایک چادر دے دی۔ خود دوسرے کمرے میں منجھی پر لیٹ گیا۔ عذرا بے چاری آدھی رات تک کروٹیں بدلتی رہی اور پھر اسے یہ بھی معلوم نہ ہوا کہ وہ کب نیند کی آغوش میں چلی گئی۔ صبح آنکھ کھلی تو اس نے خود کو منجھی پر سویا ہوا پایا۔ گوپال اس کے لیے ناشتہ رکھ کر دفتر چلا گیا تھا۔ باہر دروازے پر تالا لگا ہوا تھا۔
دن بھر وہ روتی رہی، تڑپتی رہی، چلاتی رہی مگر وہاں سننے والا کون تھا۔ کوئی سن بھی لیتا تو کیا کر سکتا تھا۔ بھلا پولیس حوالدار سے کون دشمنی مول لیتا۔ سب پڑوسی اپنے اپنے کاموں میں منہمک تھے۔ عذرا بھانپ گئی کہ یہاں وہ کچھ بھی نہیں کر سکتی ہے۔ اس لیے اس نے قسمت کے لکھے کو ہی تسلیم کر لیا۔ وہ اپنے آپ کو حالات کے مطابق ڈھالنے لگی۔ گوپال شندے صبح سویرے چلا جاتا اور دیر رات لوٹ آتا۔ عذرا نے چند ہی روز میں گھر کی ہیئت بدل ڈالی۔ سب کچھ صاف ستھرا لگ رہا تھا۔ کچن، بیڈ روم، اور بیٹھک۔ اب اندر کمرے میں دوسری منجھی ڈالی گئی جس پر وہ سوتی تھی۔ اس کے حسن اہتمام سے گوپال اتنا خوش ہوا کہ اس نے چال میں تالا لگانا ترک کر دیا۔
گوپال شندے کو اب وہ جان سے بھی عزیز لگنے لگی۔ اس کو عذرا میں ایسی اپنائیت نظر آنے لگی جس کا وہ کئی برسوں سے متلاشی تھا۔ اس لیے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس نے عذرا کے کہیں آنے جانے پر سے پابندیاں ہٹا لیں۔ گوپال نے اسے آہستہ آہستہ ہندی اور مراٹھی بھی سکھائی۔ اب عذرا پڑوسیوں کے ساتھ اٹھتی بیٹھتی اور ان کے دکھ سکھ میں برابر کی شریک ہو جاتی۔ پڑوسیوں کو معلوم تھا کہ بیوی کی رحلت کے سبب شندے نے اپنے گھر میں اس عورت کو ڈال رکھا ہے۔ پانچ چھ مہینوں کے بعد وہ دو تین گھروں میں کام کرنے کے لیے بھی جانے لگی۔ چنانچہ سب اس کو گوپال شندے کی رکھیل مانتے تھے، اس نے اپنا نام بدل کر کومل رکھ دیا۔ شندے بھی اسے کومل ہی کہتا تھا۔ وہ بنگالی تو لگتی تھی مگر کسی کو یہ شک نہ ہونے دیا کہ وہ بنگلہ دیشی مسلمان ہے۔
گوپال شندے سوچنے لگا کہ ابھی تو آگے طویل عمر پڑی ہے۔ تنہا زندگی بسر کرنا نا ممکن ہے۔ کوئی نہ کوئی سہارا تو چاہیے۔ کیوں نہ اسی لڑکی سے شادی رچا لوں۔ آخر کیا کمی ہے اس میں۔ دوسری شادی کے بارے میں وہ کئی برسوں سے سوچ رہا تھا۔ مگر لڑکی ڈھونڈنے کی فرصت نہیں ملتی تھی۔ اب تو بھگوان نے چھپر پھاڑ کر لڑکی دی تھی۔ پھر دونوں ایک دوسرے کوا با چھی طرح جانتے بھی تھے، سمجھتے بھی تھے۔ کسی کو کیا عذر ہو سکتا تھا؟
بات تو صحیح تھی۔ لڑکی بھی بالغ تھی۔ اپنا برا بھلا سمجھ سکتی تھی۔ اسے کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ آخر کار ایک روز اس نے عذرا سے بات کر ہی لی۔ ’’ کومل، اب تو ہم ایک قالب دو جان ہو چکے ہیں۔ ہمارے درمیان کوئی اجنبیت نہیں رہی۔ تم اور میں ایک دوسرے کو اتنے قریب سے جانتے ہیں۔ پھر کیوں نہ ہم دونوں شادی کر لیں۔ ‘‘
شادی کا نام سنتے ہی عذرا کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ اس کے درد کی ٹیسیں دوبارہ ابھر آئیں۔ اسے وہ کالی منحوس رات یاد آئی جب حوالدار گوپال شندے نے اس کو قید کر لیا تھا اور اس کی زندگی تباہ کر لی تھی۔ ظاہری طور پر وہ خوش و خرم دکھائی دیتی تھی مگر یہ چنگاری اس کے وجود میں تب سے سلگتی رہی تھی۔ وہ من ہی من میں سوچنے لگی۔ ’’ تم نے شادی کے لیے چھوڑا ہی کیا جو تم مجھ سے شادی کر لو گے۔ بدن نوچ لیا، روح نوچ لی، سانسیں نوچ لیں اور میرے خواب نوچ لیے۔ تم نے میری روح کا بلاتکار اسی روز کر لیا تھا جب مجھے پکڑ کر گھر لے آئے تھے اور اس چار دیواری میں مقفل کر دیا تھا۔ ‘‘
’’ حوالدار صاحب، میں تو بنگلہ دیشی ہوں۔ آپ میرے ساتھ شادی کیسے کر سکتے ہیں ؟ کسی کو اصلیت معلوم ہو گئی تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ ‘‘اس نے جس لہجے میں جواب دیا اس میں طنز بھی تھا اور شرارت بھی۔
تلخی کے باوجود عذرا نے خود پر قابو پا لیا کیونکہ آج گوپال شندے کا جنم دن تھا اور اس نے گھر میں اپنی ہونے والی بیوی کے ساتھ جنم دن منانے کا فیصلہ کیا تھا۔ عذرا نے بھی کوئی کمی نہیں کی تھی۔ کھانے کی اچھی اچھی چیزیں بنائی تھیں۔ دارو کے ساتھ کھانے کے لیے مچھلی کے پکوڑے اور تکے بنائے تھے جو اس نے شندے کے سامنے رکھ دیے۔ اس کے علاوہ بنگالی ہونے کے ناتے میٹھے میٹھے رس گلے بنائے تھے۔ شندے نے بوتل کھولی اور دارو پینے میں مست ہو گیا۔ عذرا نے کوکا کولا کی بوتل کھول کر اس کا ساتھ دیا۔
’’ چیئرس، سالگرہ مبارک ہو۔۔ ۔۔ ۔۔ میرے محسن۔ ‘‘
’’چیئرس، کومل۔۔ ۔۔ ۔ میری جان۔۔ ۔ چیئرس!‘‘
جب پوری بوتل ختم ہو گئی تو عذرا نے اٹھ کر الماری سے ایک اور بوتل نکال کر سامنے رکھ دی۔
’’ یہ تمھاری سالگرہ پر میری طرف سے تحفہ، میرے آقا۔ یوں تو میں ہمیشہ تمھیں روکتی ہوں مگر آج تمھاری سالگرہ ہے اس لیے اجازت دیتی ہوں۔ تمھارا ایک رفیق کار ایک روز دے کر گیا تھا اور میں نے ایسے ہی موقعے کے لیے اٹھا رکھی تھی۔ ‘‘
عذرا نے خود ہی بوتل کا ڈھکن کھول کر گوپال کے گلاس میں شراب انڈیل دی اور اس کو گاہے بہ گاہے اپنے ہاتھوں سے مونگ پھلی، مچھلی کے پکوڑے اور تِکے کھلاتی رہی۔ آج عذرا کچھ زیادہ ہی مہربان لگ رہی تھی۔ بغل میں بیٹھ کر میٹھی میٹھی باتیں کر تی رہی۔ اس کے چہرے پر عجیب سی تمازت نظر آ رہی تھی۔ گوپال شندے اپنے آپ کو بہت ہی خوش نصیب سمجھ رہا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس نے دوسری بوتل بھی ختم کر دی۔ پھر اس کی گویائی میں لکنت سی آ گئی۔ اب ہاتھ سے گلاس تھامنا مشکل ہو رہا تھا۔ اتنا سارا کھانا جو سامنے سجا ہوا تھا اس کا منہ تکتا رہ گیا۔ گوپال ایک نوالہ بھی نہ کھا سکا۔ اٹھنے کی کوشش کی تو اٹھا بھی نہ جا رہا تھا۔ عذرا نے اٹھ کر اس کو سہارا دیا اور منجھی تک لے جا کر اس پر لٹا دیا۔ چند لمحوں ہی میں وہ خوابوں کی دنیا میں کھو گیا۔
اِدھر ذرا جھوٹے برتن، پتّل اور دیگر چیزیں سمیٹنے میں مشغول ہو گئی، اُدھر شندے خراٹے مارتا ہوا بے سدھ پڑا رہا۔ عذرا نے اس کی بانہہ ہلائی مگر وہ ایسا سویا پڑا تھا کہ دنیا و مافیہا کی خبر ہی نہ تھی۔ بستر پراس کو شندے نہیں بلکہ وہ حوالدار نظر آ رہا تھا جس نے ایک روز ڈرا دھمکا کر اس کو قید کر لیا تھا، اس کی معصومیت کا مذاق اڑایا تھا، اس کی عزت لوٹی تھی اور اس کے کنوارے خون سے اپنی سفید چادر پر لال دھبے ڈال دیے تھے۔ وہ روتی رہی تھی، سسکتی رہی تھی مگر نہ کسی نے اس کے رونے کی آواز سنی اور نہ ہی اس کی سسکیاں۔
اب اس کی باری تھی۔ حوالدار بے سدھ سو رہا تھا۔ اور عذرا کے بدن میں مہاکالی کا روپ سما گیا۔ وہ جلدی جلدی کچن میں چلی گئی جہاں اس نے بازار سے کلہاڑی خرید کر چھپا رکھی تھی۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے کلہاڑی پکڑ لی، دوڑ کر واپس منجھی کے پاس آ گئی، پھر اپنی بانہیں اوپر اٹھا لیں اور ’یا علی ‘ کہہ کر زور سے حوالدار کی گردن پر دے ماری۔
حوالدار گوپال شندے کے منہ سے چیخ نکل پڑی۔ اس کے گلے سے خون کے پھوارے چھوٹ گئے۔ سارا بدن لرزنے لگا۔ بانہیں پھڑپھڑا نے لگیں۔ اس کا سر دھڑ سے الگ ہو چکا تھا۔ آج پھر بستر پر پڑی سفید چادر لال خون سے رنگ گئی۔ عذرا اطمینان سے اس کے تڑپتے جسم کو دیکھتی رہی جو جل بِن مچھلی کی طرح تڑپ رہا تھا۔ اسے یہ تماشا دیکھنے میں راحت محسوس ہو رہی تھی۔ اس کے چہرے پر کہیں ترحم یا ہمدردی کے آثار نظر نہیں آ رہے تھے۔ اس کے برعکس وہاں خشم اور انتقام کے ملے جلے تاثرات دکھائی دے رہے تھے۔ اسے اپنے کیے پر فخر محسوس ہو رہا تھا۔ اس نے یہ ناسور اتنے دن اپنے ذہن کے اندر پال رکھا تھا اور آج جا کر اس سے رہائی پانے کا موقع ملا۔
عذرا کہیں بھی نہ گئی۔ بس اُدھر ہی بیٹھی رہی۔ رات یونہی بیت گئی اور صبح ہوتے ہی یہ بات آگ کی طرح سارے شہر میں پھیل گئی۔ لیکن آج اس کے چہرے پر نہ کہیں کو ئی ڈر تھا اور نہ ہی خوف۔ وہ اتنے برسوں سے حوالدار کے ذاتی جیل خانے میں بند تھی۔ اب گورنمنٹ کے جیل خانے میں منتقل ہو رہی تھی۔ بس چار دیواریاں بدل رہی تھیں، باقی سب کچھ پہلے جیسا ہی تھا۔