کوئی قوم جس کی قدیم تاریخ کے بارے میں ہم کچھ بھی جانتے ہیں تو ہم ان کے ماضی کو جاننے کے لیے ان کی زبان کے الفاظوں سے مدد لیتے ہیں۔ مثلاً ہم آریاؤں کے بارے میں کہہ سکتے ہیں یہ جس علاقہ سے نقل مکانی کرکے آئے تھے وہ سمندر سے دور واقع تھا جہاں آریوں کے مورث رہتے تھے۔ یہ تمدن سے ایک حد تک آشنا تھے اور بالکل وحشی یا جنگلی نہ تھے۔ یہ لوگ مدنیت کے بعض ابتدائی اصولوں سے واقف ہوچکے تھے۔ ان میں اخلاق و تمدن کے بنیادی اصول فروغ پاچکے تھے۔ یہ خانہ بدوشی کی منزل کو طہ کرچکے تھے اور کھیتوں کے بیچ میں اپنے تعمیر شدہ گھروں میں رہتے تھے۔ یعنی عالم طفولیت میں نہ تھے خصوصاً وہ ارتقا کی دوسری منزل بھی طہ کرچکی تھے۔ یعنی یہ لوگ اب قریوں اور قبضوں میں باہمی امداد کے لیے آباد ہونے لگے تھے۔ ان میں مدنیت آگئی تھی اور کے بڑے مشغلوں میں زراعت اور مویشیوں کی پرورش شامل تھی اور انہیں یہ مجموعی طور پر کاشت کاری کہتے تھے۔ شکار کا مشغلہ تفریح کے لیے جاری تھا۔ اس سے کاشتکاروں کو زبان کا ذائقہ بدلنے کے لیے گوشت مل جاتا تھا۔ جنگلوں اور صحراؤں کے درندوں اپنی بستیوں سے ان کو نکالنا اور ان کو مارنا ان کا ایک دوسرا اہم مشغلہ تھا۔
ان کی ابتائی بستیوں کی جو پہلی خصوصیت ہمیں معلوم ہے کہ وہ یہ ہے کہ اراکین خاندان کے باہمی تعلقات اور فرائض کا تعین طہ ہوچکا تھا اور ان کا احترام کرتے تھے۔ باپ اپنی اولاد کا محافظ اور پرورش کرنے تھا اور بھائی بہن خوش خوش زندگی بسر کرتے اور ایک دوسرے کی مدد کرتے اور گھر اور کھیتی کے کاموں میں ہاتھ بٹاتے تھے۔ زوجیت سے جو تعلقات پیدا ہوتے ان کا بھی ٹھیک ٹھیک تعین ہوچکا تھا اور جن لوگوں سے اس قسم کے تعلقات تھے وہ دوست اور معاون خیال کیے جاتے تھے۔ اس طور پر خاندانوں کے بڑھنے سے ایک قبیلہ بن جایا کرتا تھا۔ خاندان کا سربراہ باپ اور قبیلہ کا سردار ہوتا تھا۔ قبائل جو کم و بیش آپس میں قرابت رکھتے اور دوسرے کے ساتھ محبت اور یکجہتی کے ساتھ پیش آتے تھے۔ اگرچہ جھگڑے کبھی ہوتے اور ہتھیار اٹھانے کی نوبت آتی تو اس کا باعث موشیوں کے گلوں کے متعلق کوئی نزاع ہوتا۔ بعد کے زمانے میں لڑائیوں ہم نسل قبائل میں سیادت یا مزید اراضی حاصل کرنے کے سلسلے میں چھیڑ چھاڑ ہوجاتی۔ قدیم زمانے میں لڑائیوں سے خون کا رشتہ مزید مظبوط ہوتا۔ کیوں کہ یہ لڑائیاں مدافعت میں ہوتیں اور خانہ بدوشوں کی یورشوں سے اراضی کو محفوظ رکھنے کی ہمیشہ ضرورت رہتی تھی۔ یہ لٹیرے خانہ بدوش زیادہ تر غیر آریائی تھے جو اپنے تیز اور مظبوط گھوڑوں میں بیٹھ کر ان کے کھیتوں اور مویشیوں کو لوتے کی فکر میں رہتے۔
بعض اشاروں سے معلوم ہوتا ہے کہ آریا قد آور اور طاقت ور تھے۔ ان کے رنگ سفید اور بھورے، آنکھیں غالباً نیلی تھیں۔ ان کے ملک میں جنگل اور میدان یکے بعد دیگر تھے، دودھ اور گھی کی کثرت سے تھا اور گوشت اور گہیوں بھی اور ان کا پیشہ کاشتکاری اور مویشی پالنا تھا۔ ان کے ہتھیار زیادہ تر چکنے پتھر کے ہوتے تھے اور بہت محنت اور وقت سے تیار کرکے تیز کرتے تھے۔ اس کے علاوہ وہ تین دھاتوں کے استعمال سے بھی واقف ہوچکے تھے۔ یہ دھات چاند، سونا اور تیسری دھات غالباً لوہا تھا۔ انہوں نے ایک بھدا اور بھونڈا سا ہل بھی بنالیا تھا۔ آریاؤں کی پوشاک سلے ہوئے چمڑوں کی اور ان مکانوں میں دروازے اور ان کے احاطے یا باغ ہوتے تھے۔ ان کے مویشیوں اور پالتوں جانوروں میں گھوڑے، گدھے، بکریاں، بھیڑیں، سور، قاز اور کتا مویشیوں کی حفاظت کے لیے پالتے تھے۔ آریا آٹا پیسنا اور روٹی پکانا بھی جانتے تھے۔ کچے گوشت سے سخت نفرت تھی۔ کشتیوں کا بنانا بھی وہ جانتے ہوں گے۔ کیوں کہ ندیوں اور جھیلوں میں جہاز رانی سے واقف تھے۔ گو ان کا سامنا سمندر سے نہیں ہوا تھا۔ وہ قدرت کے کرشموں پر وہ غور و فکر کرنے لگے تھے۔ مگر دماغی تخیلات مین وہ ابھی طفل مکتب تھے اور ابھی تک وہ سو سے زیادہ نہیں گن نہیں سکتے تھے۔ آریا جو کہ ایک قوم تھے اور ایک ہی زبان بولتے تھے اور عبادت اور زندگی کا طریقہ ایک ہی تھا۔ بعد میں ترک وطن کا خیال ان کے دل میں پیدا ہوا۔ اس قسم کا خیال اکثر اقوام میں تمدن کے ایک خاص درجہ پر پہنچ کر پیدا ہوجاتا ہے۔ شاید اراضی کی کمی یا خاندانی جھگڑوں یا قوت کے بڑھنے کی وجہ سے ایک دوسرے سے علحیدہ ہونا شروع ہوتے ہیں اور ان میں سے ایک جماعت کے بعد دوسری سے علحیدہ ہوتی جاتی ہے اور پھر نہ کبھی واپس آتے ہیں اور نہ اپنے بچھڑے بھائیوں سے ملتے ہیں اور اگر کبھی صدیوں کے بعد بھی ملتے ہیں تو بطور دشمنوں کے اور اپنے قدیم تعلقات کا ان کے قدیم خیالات کا ان کے دلوں میں ذرا بھی خیال نہیں رہتا۔
ٍ آریوں میں مشکوک اور مشتبہ روایات کا سلسلہ صدیوں کے بعد شروع ہوا اور جب تاریخ آغاز ہو تو آریا نسل کی بہت سی اقوام کئی ممالک قابض ہوچکی تھیں۔ امور بالا سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ آریاؤں کی ابتدائی زندگیوں کا یہ خاکہ محض خیالی اور قیاس پر مبنی ہے۔ کیوں کہ ان کی تصدیق کسی بھی ذرائع سے نہیں ہوتی ہے۔ مگر یہ تفصیلات قیاسی نہیں ہے بلکہ حقیقی ہے اور اس کے لیے ماہرین نے آریاؤں کے قدیمی الفاظوں سے مدد لی ہے۔ کیوں کہ ان زبانوں میں بہت سے ایسے الفاظ ملتے ہیں جن کہ ذریعے ہم ان کی زندگی کی بہت سی اخلاقی، مذہبی حالت اور طرز زندگی اور ان کے ابتدائی خیالات جو قبل تاریخ زمانے کے بارے میں جان سکتے ہیں۔ یہ الفاظ بذات خود ان ادبیات سے زیادہ قیمتی ہیں جو بعد میں لکھی گئی ہیں۔ کیوں کہ اگر ان کا غور سے جانچا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ لفظ بذات خود ایک زندہ ثبوت ہے۔
ایسے یا ملتے جلتے الفاظ جو بعد کی آریائی زبانوں میں ملتے ہیں جو کہ ان تمدنی، خانہ واری زندگیوں، خاندانی تعلقات اور ضروریات زندگی کے متعلق ہیں۔ جو اس کا واضح طور پر خاندانی تعلقات کا اظہار کرتے ہیں۔ ان چیزوں کے وہ نام جو استعمال میں تھیں یا افعال یا حرکات جو ہزاروں سالوں قبل آریاؤں کے مورثوں سے سرز ہوئے ہیں۔ اس طرح ان کے بارے درست طور پر جان کر ان کے حالات، ان لوگوں کے طرز زندگی، مشاغل کے متعلق ہمارے قیاسات قابل ترجیح ہوں گے اور ان کی زندگی کا جو خاکہ ہم نے کھنچا ہے اس کا ہر لفظ اس معیار سے صحیح اتر سکتا ہے، کیوں کہ اس کی بنیاد مشترک الفاظ پر ہے۔
ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ آریوں کا ابتدائی وطن سمندر سے دور تھا اور انہوں نے سمندر کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے ان کی زبان میں سمندر کے لیے کوئی لفظ نہیں تھا اور آریا جہاں گئے وہاں انہوں نے جذبات و احساسات اور تجربات کے مطابق سمندر کا نام رکھا۔ مختلف آریائی زبانوں میں سمندر کے لیے جن الفاظوں کو استعمال کیا گیا ہے۔ مثلاً لاطینی اور یونانی میں سمندر کو پانٹوس، پانٹس Pontus, Pontus (شاہراہ) کہتے تھے۔ اس کا مادہ وہی ہے جو پانس، پانٹس Pans, Ponts (پل) کا ہے اور سلاوی میں پانٹیPonti روسی پوٹی potty (سڑک) کا ہے۔ مگر سلاوی سمندر کے لیے موری Mori، لاطینی مار Mar، اطالوی اور ہسپانی ماری Marie، فارنسیسی میزMise ، جرمن میر Mir اور انگریزی میں میرMir (جھیل کے کے لیے مواز Mawaz) ہے۔ یہ سب مادے سنسکرت ایک مادے سے ہیں جس کے معنی ہلاکت کے ہیں۔ اس اختلاف کی توجیع آسانی سے ہوسکتی ہے۔ کیوں کہ سلاد اور ٹیوٹن اقوام جن سمندروں سے واقف تھیں وہ بحرہ اسود، بالٹک اور بحرہ جرمنی تھے۔ جو اپنے طوفانوں اور طلاطم کے لیے مشہور ہیں۔ جن میں چھوٹی اور بھدی کشتیوں پر سے گزرتے تھے۔ اس کے برخلاف لاطینی اور یونانی بحیرہ روم کے پرسکون ساحلوں پر آباد تھے۔ اس لیے سمندر ان کے لیے ایک شاہراہ تھا جو ان کے سفر اور تجارت کے لیے مدگار تھا۔
ہم ایک لفظ پتر (باپ) کو لیں اس کے تین معنی ہیں (۱) کھلانے والا (۲) حفاظت کرنے والا (۳) حکومت کرنے والا۔ ان تینوں معنوں میں جو باہمی تعلق ہے اور اس سے جس باریک بینی اور کا علمی اصول پر تجزیہ کرتے تو ہم اہم ترین راز عیاں ہوتا ہے۔ لفظ پتر مادہ پا سے ہے جس کے معنی حفاظت کرنے والے کے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اخلاقیات کا ان پر گہرا اثر ہوگیا تھا اور قدیم آریائی باپ کو اپنی اولاد کی طرف اپنی ذمہ داریوں اور فرائض کا پورا احساس تھا۔ جو شخص کسی خاندان کی پرورش اور حفاظت کرتا وہ حکومت کرنے کا حق بھی رکھتا ہے اور وہ اس مرضی کے پابند ہوتے ہیں۔ اس لیے لفظ پتی کے معنی آقا کے ہوتے ہیں۔ اس کا اطلاق پیٹر یا زک Peter or Zak (بطریق) پر بھی اطلاق ہوتا ہے۔
لفظ پتر اکثر آریائی زمانوں میں موجود ہے۔ گو الفاظ ایک زبان سے دوسری زبان میں جانے سے اکثر ان کے لہجے میں تبدیلی ہوجاتی ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کسی علاقے کے لوگ کسی حروف کو ادا نہیں کرسکتے ہیں اور اس کی جگہ دوسرا حروف بولتے ہیں۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ حروف علت یا حروف صحیح میں بدل جاتا ہے۔ یہ لفظ سنسکرت اور اوستا میں پتر ہے یونانی اور لاطینی میں پاتر Patr، جرمنی اور انگریزی میں فادر Father جو قدیم ٹیوٹن سے مشق ہیں۔ مگر یہ لفظ ہسپانوی، اطالوی اور فرانسیسی میں بگڑ کر پادری pastor اور پھر پیٹر peter ہوگیا، جب کہ کیلٹی زبانوں یعنی گیلک، ونیش، آئرش اور آرمویکی آتھر Athar اور آرتھا Artha ہوگیا۔
ماں کے لیے آریائی زبانوں میں جو لفظ ہے اس میں بہت کم تغیر ہوا ہے۔ سنسکرت میں ماتا، اوستا میں ماتر میں صرف لہجے کا فرق ہے۔ یونانی میں منیتیر Manitirلاطینی ماتر Matar، سلاوی ماتر Matar، روسی میں ماتیMati ہے۔ کیلئی ماتھیMathieu ، جرمن مسٹر Mestar، انگریزی مدرMother جو ٹیوٹن مُواُٹَرMutter سے ماخوذ ہے، اطالوی اور ہسپانوی کو بگڑ کر مادریMadri ہوگیا اور فرانسیسی میں بگڑ کر منیزMinss ہوگیا اور باپ پنیزPinss ہوگیا۔ کیوں قدیم زمانے میں ہم قافیہ الفاظ پسند کیا جاتا تھا۔ اس لفظ کا مادہ ’ما’ہے جس کہ معنی بنانا اور ناپنا ہیں۔ دونوں خیالات قابل لحاظ ہیں۔ کیوں کہ وجود میں لانے کے علاوہ ماں کا یہ فریضہ تھا کہ وہ غذا، غلہ اور دیگر ضروریات زندگی ناپ کر دے۔ اس مادے سے ماس Mass (چاند) بھی ہے جو وقت کا ناپنے والا ہے۔ اس لیے مہینے کے لیے یہی لفظ مستعمل ہے۔ جیسے کہ سلاوی لفظ مینیاسManias ہے۔
گائے قدیم آریاؤں کی زندگی کا ایک اہم جزو تھا اور ان کی زندگی کا دار مدار اسی پر تھا۔۔ کسی قوم کی زندگی میں گائے کا اہم ہونا ثبوت ہے کہ یہ ایک جگہ رہنے کے عادی اور جانوروں کی پرورش کے ساتھ زراعت کرنے لگے ہیں۔ کیوں کہ گائے خانہ بدوشی کی عادی نہیں ہوتی اور مسلسل نقل مکانی کی تکلیف کو برداشت نہیں کرسکتی ہے۔
گائے کو سنسکرت میں گو کہتے ہیں اور اس کی جمع گاؤس Gaus ہے۔ یہ مادہ خفیف سے تغیر کے ساتھ یورپ کی زبانوں میں اکثر موجود ہیں۔ مثلاً قدیم جرمن چو Cho، جدید جرمن میں کر Cer، انگریزی میں کاؤCow ، سلاوی میں گودیاGodia (مویشیوں کا ریوڑ) جدید سروی گو و دار (گائے کا چرواہا) روسی گودیا دوGovadar (گائے کا چرواہا) روسی میں گوہ یا دیناGoh or Dina (گائے کا گوشت) اس طرح گوسوپودینGosopodin (آقا) گوس پودGospod (خدا) گوس پووارGospowar (جنوبی سلاد احکام) جن کے سب کے معنی گایوں کا مالک ہیں جو قدیم سنسکرت گوپ کے ہم معنی ایک مادے سے مشتقات کے نکلنے سے جن کے معافی ہیں اصل مادے سے فرق ہوتا ہے۔ سنسکرت گوتر پہلے اس احاطے کو کہتے تھے جس میں مویشی کو رکھتے تھے تاکہ وہ چوروں سے اور بھاگنے سے محفوظ رہیں۔ مگر رفتہ رفتہ اس لفظ کا اطلاق خاندان اور پھر ایک قبیلے پر یعنی ان لوگوں پر جو ایک احاطے کی دیواروں کی پشت پر رہتے تھے۔ چرواہا جو مویشی کے گلے کا حاکم ہے اور بادشاہ انسانوں کا حاکم ہے۔ گاؤں، گوٹھ، گوپ اور گوتر وغیرہ اسی مادے سے نکلے ہیں۔
بیوہ کے لیے سنسکرت میں وِدھدا کا کلمہ آیا ہے اور دوسری زبانوں میں اس سے ملتے جلتے الفاظ ملتے ہیں۔ جس کے لیے لغوی معنی بغیر شوہر والی کے ہیں۔ اس لفظ کے وجود سے ثابت ہوتا ہے کہ قدیم زمانے میں بے شوہر کی عورتوں کا وجود ثابت ہوتا تھا اور کئی مرتبہ ان کا آتا ہے کہ قبر یا چھتے سے واپس ہوکر زندہ لوگوں میں آکر رہیں۔ اس طرح خاندانی رشتہ جو شادیوں سے پیدا ہوتے ہیں ان کا تذکرہ ملتا ہے۔ مثلاً بھائی بہن دیور وغیرہ۔
آریاؤں کی قدیمی زبان میں ایک سو سے زیادہ کا کوئی لفظ نہیں تھا۔ مگر اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ ان کے ذہنوں میں ہزاز یا اس سے زیادہ کا تخیل نہیں آیا یا اتنی کثیر تعداد انہوں نے نہیں دیکھی تھی۔ وہ غالباً ہزار کو دس سو کہتے ہوں گے۔ جیسا کہ ہم بھی بارہ سو پچیس سو کہتے ہیں۔
ان چند مثالوں سے ہم ان کی زبانوں کی ہیئت ترکیبی اور ان کے ارتقا کا ثبوت ملتا ہے اور ان کی قدیمی زندگی اور وسیع پیمانے پر ان کی ہجرتوں کا واضح ثبوت ہمیں ملتا ہے۔ اس طریقہ کار سے ہمیں بہت سا قبل تاریخ مواد میسر آجاتا ہے۔ جس پر بہت سے محققین نے تحقیق کی ہے، اگرچہ ہر ایک نتائج مختلف ہیں اور یہ کہنا ممکن نہیں ہے کہ انہوں نے کامیابی سے اس مسلے کو حل کرلیا۔ تاہم نتجہ غلط بھی ہو تو راہ درست ہی معلوم ہوتی ہے اور اس طرح بہت سے عقدے خاص طور پر وید کے حل ہوگئے ہیں۔