کسی نے آپ کو سائیکل چلانا سکھایا ہو، یا درخت سے امرود توڑنے میں مدد دی ہو، یا کبھی کسی اہم موڑ پر ساتھ دیا ہو تو آپ اُسے ہمیشہ یاد رکھتے ہیں۔ بچپن میں کسی نے پٹائی کروائی تھی، کس نے نوجوانی میں نوکری سے نکلوایا تھا، یا کیسے کوئی دھوکا دیا تھا، اِن باتوں کو آپ بھول جاتے یا پس پشت ڈال دیتے ہیں۔
لیکن اگر کسی دوست نے آپ کو اپنے کسی من پسند کام کو جاری رکھنے کے قابل بنانے یا آگے بڑھانے میں مدد دی ہو، آپ اُن کا شکریہ ادا کرنے یا ڈھنڈورا پیٹنے کے قابل بھی نہیں رہتے۔ ایسا ہی میرے ساتھ ول ڈیورانٹ پروجیکٹ کے حوالے سے ہوا۔ پڑھنے اور کتاب سے محبت کو ضروری سمجھنے والوں کے ساتھ میرا ایک نیا قسم کا تعلق بنا۔
میں نے زندگی میں ابھی تک تین کروڑ سے زائد الفاظ لکھے ہیں۔ پہلی کتاب 1992ء میں شائع ہوئی تھی۔ ان تیس میں سے 25 سال تک بالکل خاموشی رہی۔ یہ جیسے خفتہ دور تھا، جس میں میں نے تجربہ بھی حاصل کیا اور کام بھی کیا۔ گزشتہ پانچ چھ سال ایک مختلف دور تھا، لیکن گزشتہ ایک ماہ تو بالکل ہی مختلف اور حیران کن ثابت ہوا۔
شاید آپ کو یقین کرنا مشکل ہو گا کہ دو ایسے حضرات نے رابطہ کیا جو فیس بک پر بھی میرے واقف نہیں تھے، بلکہ اُنھیں رابطے کے بعد اَیڈ کیا۔ دو دیگر حضرات نے گمنام رہنے کی تاکید کی۔ اگرچہ میں نے مایوسی کا پرچار نہیں چھوڑا، لیکن لکھے ہوئے لفظ کی اہمیت پر یقین میں اضافہ ہوا ہے۔ مایوسی اپنے کام اور لفظ سے نہیں، بلکہ معاشرتی بے دماغی سے ہے۔
مایوسی کی گھنگھور ترین حالت بھی آپ سے لفظ نہیں چھین سکتی۔ فرائیڈ نے کہا تھا کہ تہذیب کا آغاز اُس وقت ہوا جب پتھر کی بجائے لفظ یا دلیل سے پہلا وار کیا گیا۔ یہ وار کرتے رہنا ہی انسانیت ہے۔ اپریل کے آخر میں تقریباً پانچ لاکھ الفاظ کا بھرپور وار پہلی جلد کی صورت میں شائع ہو گا جس میں معاون دوستوں کا حوالہ بھی ہو گا، جن کے بغیر یہ کام نہ ہو پاتا۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...