لفظ کھردرے، تنویر سپرا اور لیبر ڈے
آج یکم مئی ہے ۔۔۔ آج کے دن کو مزدوروں کےعالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے ۔
میرے ہاتھ میں تنویر سپرا کی کتاب " لفظ کھردرے " ہے ۔ تنویر سپرا مزدروں کے شاعر کہلاتے ہیں تو آج کے دن کی مناسبت سے میں نے یہ کتاب چنی ۔ جس میں تنویر سپرا کی زندگی کی اہم باتیں اور ان کی خوبصورت اور دل سوز شاعری شامل ہے ۔
تنویر سپرا کی شاعری میں مزدور طبقے اور غریبوں کے لئے جو درد ، جو تکلیف پائی جاتی ہے اس کی ایک وجہ ان کی زندگی کے وہ سخت حالات ہیں جو انہوں نے گزارے ۔
تنویر سپرا کا اصل نام محمّد حیات سپرا تھا ۔ ١٩٣٣٣ء کو داراپور ، تحصیل و ضلع جہلم ( پنجاب ) میں پیدا ہوۓ اور ١٣ دسمبر ١٩٩٣ ء میں رشید آباد ، جہلم ( پنجاب ) میں ان کا انتقال ہوگیا ۔
بچپن سے لے کر اپنے بڑھاپے تک وہ محنت کش رہے اور محنت کشوں کے لئے آواز اٹھاتے رہے ۔
یوسف حسن ، تنویر سپرا کا سوانحی خاکہ لکھتے ہوۓ لکھتے ہیں کہ تنویر سپرا نے ایک قصباتی غریب گھرانے میں آنکھ کھولی ۔تنگ دستی کے باعث رسمی تعلیم جاری نہ رکھ سکے اور لڑکپن میں ہی محنت مزدوری کرنے کراچی ( سندھ ) چلے آئے ۔قیام پاکستان سے پہلے وہ کچھ مدت کے لئے کراچی سے واپس چلے گئے لیکن پاکستان وجود میں آنے کے بعد پھر واپس آگئے اور جہلم میں دکانداری اور پھر لاہور میں صحافت کرتے رہے ۔
تنویر سپرا نے ١٩٦٣،٦٤٤ میں شاعری شروع کی اور مرزا طالب گورگانی سے باقاعدہ اصلاح لیتے رہے ۔ان کی پہلی شعری تخلیق " بھوک " کے عنوان سے ایک اردو نظم تھی ۔ ١٩٦٩ ء میں " فنون " کے ذریعے پاکستان بھر کے ادبی حلقوں میں متعارف ہوۓ اور بہت جلد ایک منفرد جدید حقیقت پسند شاعر کی حیثیت سے مقبول ہو گئے ۔ان کا پہلا اردو مجموعہ کلام " لفظ کھردرے " پہلی بار ١٩٨٠ ء میں اور دوسری بار ١٩٨٣ء میں شائع ہوا ۔ اب اس کا موجودہ ایڈیشن " بک کارنر جہلم " نے اردو اور پنجابی کلام کے اضافے کے ساتھ چھاپہ ہے ۔
١٩٨٨٨ء میں انھیں سابق وزیر اعظم پاکستان محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی طرف سے نیشنل بک کونسل اف پاکستان کا عوامی جمہوری ادبی انعام ملا ۔
احمد ندیم قاسمی ، تنویر سپرا کے بارے میں لکھتے ہیں کہ " وہ خود کہتا ہے کہ اس کی غزل کے مضمون خشک ، زبان تلخ اور لفظ کھردرے ہیں اور نازک سماعتوں پر اس کے اشعار بار گذرتے ہیں مگر یہ " نازل سماعتیں " دراصل روایت زد سماعتیں ہیں ورنہ اس کے ہاں خشکی ، تلخی اور کھردرا پن نہیں ہے ۔ حقیقتیں اور سچائیاں ہیں ۔ سچائی عموما خشک ، کھردری اور بے رنگ ہوتی ہے ۔ رنگین اور شیرینیاں صرف خوابوں میں ہوتی ہیں ۔
وہ لکھتے ہیں کہ تنویر سپرا سراسر مختلف غزل گو ہے اس لئے کبھی کبھی اسے لہجے کی تندی کا کوئی نا کوئی جواز پیش کرنا پڑتا ہے ۔ مثلا ایک جگہ وہ کہتا ہے
میری غزل میں اس لئے دریا کا شور ہے
لکھتا ہوں شعر بیٹھ کے جہلم کے گھاٹ پر
مگر میں اس سے کہوں گا کہ پیارے سپرا ! ہمیں بناؤ نہیں ، تمہاری غزل میں جو شور و غوغا کی کیفیت ہے ۔ وہ محض دریاۓ جہلم کی شرمندہ احسان نہیں ۔ تمھارے کلام میں جو شور ہے وہ زندگی کا شور ہے ۔ کراہوں اور فریادوں کا شور ہے ۔ ان حقوق کا شور ہے جو چھین لئے گئے اور ان مقاصد کا شور ہے جو زندگی کو بامعنی اور تہہ دار بناتے ہیں ۔ آخر تمہی نے تو کہا ہے کہ
لہجہ نا دیکھ بات کا مفہوم بھی سمجھ
سن لے ذرا ٹھہر کے صداے کرخت کو
جسٹس محمّد انوار الحق ، تنویر سپرا کے لئے لکھتے ہیں کہ تنویر سپرا ان چند قلم کروں میں سے ہیں جو مر کر بھی مرحوم نہیں ہوۓ ۔ آج بھی مزدوروں کا کوئی جلسہ تنویر سپرا کی آواز کے بغیر ادھورا سمجھا جاتا ہے ۔آج بھی سپرا کی شاعری کے بغیر کسی بھی مزدور یونین کا آئین مکمل نہیں ہوتا ۔
تنویر سپرا خود اس کتاب کے آغاز میں " اپنی بات " لکھتے ہیں کہ
میں اور میرا فن انہی خاک زادوں کی پہچان اور ترجمان ہیں کہ
" ہر شخص اپنے طبقے کا نمائندہ ہوتا ہے " ۔
تنویر سپرا کی غزلیں ، نظمیں اور پنجابی کلام سب مزدوروں کے لئے لکھا گیا ہے ۔
کہیں وہ مزدور کی ساری زندگی کی محنت کے احساس میں کوئی شعر کہہ رہے ہیں جیسے یہ شعر :
آج بھی سپرا اس کی خوشبو مل ملک لے جاتا ہے
میں لوہے کی ناف سے پیدا جو کستوری کرتا ہوں
اور کہیں سپرا صاحب مزدور کے بچے کے ساتھ ہونے والے ظلم و زیادتی پر شعر کہتے ہیں
میں اپنے بچپنے میں چھو نا پایا جن کھلونوں کو
انہی کے واسطے اب میرا بیٹا بھی مچلتا ہے
اپنے پنجابی کلام میں بھی وہ غربت کی تکلیف کو محسوس کرتے پاۓ گئے ۔ ان کی پنجابی غزلوں میں ایک مزدور کی آہ ہے ۔۔
جیسے ایک شعر ہے :
جیوندے جی تے ہو نئیں سکدا تیرا میرا میل
میں جھگیاں دہ ات انھیرا تو محلاں دہ نور
اگر لکھتے ہیں
اتنے مہنگے لے کر سپرا کون پڑھے دیوان
کندھن اتے غزلاں لکھ جے ہونا آئ مشہور
لیکن کہیں کہیں وہ پر امید بھی لگتے ہیں اور اس کا اظہار وہ کچھ یوں کرتے ہیں :
وہ وقت یقینا آئے گا
وہ وقت یقینا آئے گا
وہ وقت یقینا آئے گا
جب دہقانوں کے کنبے خالی پیٹ نا مرنے پائیں گے
جب محنت کش کی محنت کا پھل اس کے بچے کھائیں گے
جب موٹی موٹی توندوں پر ہاری کوڑے برسائیں گے
جب جاگیروں کے مختاروں پر کتے چھوڑے جائیں گے
جب سیٹھوں کی لاشوں کو چوکوں میں لٹکایا جاۓ گا
وہ وقت یقینا آئے گا
وہ وقت یقینا آئے گا
اس نظم کا لہجہ ترش اور تلخ ضرور ہے لیکن ایک انسان جس نے ساری زندگی مزدوری کرتے اور دوسرے مزدوروں کو محنت کرتے کرتے مرتے دیکھا ہو اور پھر ان کے بچوں کو تڑپتے دیکھا ہو ۔۔۔ کسی کو امید دلانے کے لئے بھی تلخ الفاظ ہی استعمال کر سکتا ہے ۔ اور شاید یہی لہجہ سپرا صاحب کو سب سے جدا ثابت کرتا ہے ۔
آج کا دن یعنی یکم مئی تنویر سپرا کے نام ۔۔ اور ہر اس مزدور کے نام جو سپرا صاحب کے شعروں کی عملی شکل میں ہمیں اپنے آس پاس نظر آتے ہیں۔ آج کا دن بھٹی پر کام کرتے ان بچوں کے نام جنہیں والدین قلیل رقم کی خاطر ساری زندگی بھٹی پر کام کرنے کے لئے بیچ جاتے ہیں ۔آج کا دن فلپائن اور بہت سے دوسرے ممالک میں سونے کی پانی میں موجود کانوں کی تلاش میں مزدوری کرتے بچوں کے نام ۔
صرف ایک عرضی ہے صاحب ۔۔۔
آج کے دن اپنے آس پاس نظر دوڑا کر دیکھ لیجئے اور اگر ان محنت کشوں کو آپ ایک پل کا بھی آرام دے سکیں تو ضرور دیجئے ۔
کیونکہ وہ وقت جس کے آنے کا انتظار اور یقین سپرا صاحب کو تھا وہ اسکے اور میں اور آپ اس وقت کو لانے میں ایک دورے کے مدد گار بن سکیں ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔