”اچھی عبارت وہ ہے جس میں املا اور اِنشا کا کوٸی عیب نہ ہو“
عبارت جملوں سے بنتی ہے اور جملے لفظوں سے۔ اگر لفظوں کا املا درست ہوگا تو عبارت بھی درست اور معیاری قرار پاٸے گی۔ جب پڑھے لکھے شخص کے سامنے کوٸی تحریر آتی ہے تو وہ اُس تحریر سے ہی لکھنے والے کے بارے میں بہت کچھ جان لیتا ہے۔ یعنی لکھنے والے کی علمی قابلیت، ذوق، مطالعہ سے لگاٶ اور شخصیت وغیرہ سے متعلق کافی حد تک معلومات لکھی ہوٸی عبارت فراہم کردیتی ہے۔
آج کل جِدّت کی آڑ میں لفظوں کو توڑ مروڑ کر لکھنے کی ایک باغیانہ سی رَوَش چل نکلی ہے اور ہر دوسرا شخص اس روشِ بد کا شکار ہے، بہ طورِ خاص ہماری نوجوان نسل۔ بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ سوشل میڈیا نے اِس روشِ بد کو عام کرنے میں کُلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اگر بات لفظوں کے غلط اِملا تک ہوتی تو پھر بھی گزارے لاٸق تھی لیکن یہاں تو بات بڑھتے بڑھتے اس نہج تک جا پہنچی کہ ہم اپنی زبان کے الفاظ انگریزی رسمِ خط میں لکھنے لگے ہیں جوکہ یقیناََ ایک بھیانک صورتِ حال ہے۔ سامنے کی بات ہے کہ جن قوموں نے اپنی زبان اور رسمِ خط سے رُوگردانی کی آج اُن کی نسلیں اپنے آباٶ اجداد کی قبروں کے کَتبے پڑھنے سے قاصر ہے۔ خیر ”رومن طرزِ تحریر“ ایک علاحدہ موضوع ہے جو تفصیل طلب ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ آج شاید ہی ایسی کوٸی تحریر ہو جو غلطیوں سے پاک ہو یا جس میں کم سے کم غلطیاں ہوں ورنہ تو ہر عبارت میں غلطیوں کی بھرمار ہوتی ہے۔ عبارت میں اتنے لفظ نہیں ہوتے جتنی غلطیاں ہوتی ہیں۔ اِس کی کٸی وجوہات ہوسکتی ہیں مثلاََ
کم علمی
غفلت
جلد بازی
حد سے زیادہ خود اعتمادی ۔۔۔ وغیرہ
وجہ جو بھی ہو، بہ ہر حال اس کے نتاٸج اچھے نہیں ہوسکتے۔ شروع شروع میں لفظ غلط لکھنے کی کوٸی نہ کوٸی وجہ ہوتی ہے لیکن پھر آہستہ آہستہ انسان اس کا عادی ہوتا چلا جاتا ہے اور جب یہ عادت پُختہ ہوجاتی ہے تو انسان غلط کو بھی درست سمجھنے لگتا ہے اور یہی زعم بعض اوقات انسان کے لیے نقصان کا باعث بنتا ہے۔
بچپن میں جب ہم نے انگریزی شروع کی تو لفظوں کے اسپیلنگ پر زور دیا جاتا تھا۔ ایک ایک لفظ کے اسپیلنگ یاد کرنا پڑتے تھے (جو کہ اب بھی ہے) اور استاد صاحب ایک ایک لفظ بہ نظرِ غاٸر دیکھتے تھے۔ اس عمل میں جو چیدہ چیدہ باتیں بہ طورِ خاص دیکھی جاتی تھیں وہ یہ ہیں:
الف) لفظ میں حروف کی تعداد
ب) لفظ میں حروف کی ترتیب
ج) لفظ میں حروف کی بناوٹ
د) لفظ میں حروف کی قدو قامت
ان باتوں کے مجموعے کانام املا ہے۔ مثلاََ انگریزی کا ایک لفظ ہے School۔ اس لکھے ہوٸے لفظ میں یہ دیکھا جاتا تھا کہ حروف (Spellings) کی تعداد کتنی ہے، کون سا حرف پہلے اور کون سا بعد میں آنا ہے، کس حرف کی شکل کیسی ہے اور یہ کتنی سطروں پر لکھا جانا ہے۔ اگر لکھی ہوٸی عبارت مذکورہ بالا تمام باتوں پر پورا اترتی تو ہم استاد صاحب کی نظروں میں سرخرو نکلتے، بہ صورتِ دیگر یا تو اصلاح کردی جاتی یا ہم زیرِ عتاب رہتے۔ (لمحہ فکریہ ہے کہ آج کل اساتذہ انگریزی پڑھاتے وقت حروف (Spellings) کی تعداد، ترتیب، بناوٹ اور ساٸز وغیرہ پر توجہ دیتے ہیں لیکن اردو الفاظ کی اصلاح کرنا گوارا نہیں کرتے چاہے بچے نے کمرا کو کمرہ، گزرنا کو گذرنا، مُٹاپا کو موٹاپا یا جنھیں کو جنہیں ہی کیوں نہ لکھا ہو)۔ اردو لکھتے وقت بھی تقریباََ انھی باتوں کا خیال رکھا جاتا ہے۔
ایک لفظ ہے ”دُکان“۔ اس میں چار حروف ہیں۔ اگر اسے ”دوکان“ لکھا جاٸے تو کہا جاٸے گا کہ اس کا املا غلط ہوگیا۔ کیوں کہ دوکان میں ایک حرف ”و“ زاٸد ہوگیا۔ اگر اسے ”دُقان“ لکھا جاٸے تو اس صورت میں بھی املا غلط متصور ہوگا کیوں کہ دوسرا حرف تو ”ک“ ہے، نہ کہ ”ق“۔ ایک حرف بدل جانے سے پورا لفظ غلط ہوگیا۔ حرف ”د“ اُلٹا لکھنے سے یا ”د“ دو سطروں پر اور باقی حروف ایک سطر پر لکھنے سے بھی لفظ کا املا غلط سمجھا جاٸے گا۔
اسی طرح ایک لفظ ہے ”چاہیے“ جو کہ اردو تحاریر میں اکثر استعمال ہوتا ہے۔ اس میں حروف کی تعداد پانچ (چ ا ہ ی ے) ہے۔ اگر اسے ”چاہٸے“ لکھا جاٸے تو یہ غلط املا ہوگا۔ اگر ”چایٸے“ لکھیں تب بھی غلط (ی اور ہمزہ کی جگہ بدل گٸی). کچھ لوگ اسے ”چاہیٸے“ بھی لکھتے ہیں، حال آں کہ یہ بھی غلط ہے (حروف کی تعداد چھ ہو گٸی).
پچھلے دنوں ایک دوست نے اسی لفظ کے درست املا کے بارے میں پوچھا تو میں نے جھٹ سے ”چاہیے“ لکھ دیا جو کہ ان کے نزدیک غلط تھا۔ وہ اسے ”چاہٸے“ (ی کے بجاٸے ہمزہ) اور جمع کی صورت میں ”چاہٸیں“ لکھنے پر مصر تھے اور دلیل میں کسی کالم نگار کے کالم اور کسی درسی کتاب کا حوالہ دینے لگے تو مجبوراََ مجھے املا و تلفظ کی کٸی کُتب کی ورق گردانی کرنا پڑی۔ بعد از تحقیق میں اس نتیجے پر پہنچا کہ درست املا ”چاہیے“ اور جمع کی صورت میں ”چاہییں“ ہی ہے۔
سرِ دست چند مستند لغات سے مذکورہ بالا لفظ کا درست تلفظ و املا دیکھتے چلیں۔
1۔ ” چاہیے “
باید۔ شاید۔ مناسب۔ واجب۔ مطلوب ہے۔ ضرور ہے۔ واجب ہے۔ لازم ہے
(فرہنگِ آصفیہ ، صفحہ 97
مرتبہ : مولوی سیّد احمد دہلوی)
2۔ ” چاہیے “
باید، شاید
(نسیم اللغات ، صفحہ 373
مرتبین : سید مرتضیٰ حسین فاضل لکھنوی، سید قاٸم رضا نسیم امروہوی، آغا محمد باقر نبیرہِ آزاد)
3۔ ” چاہیے “ chaa-hi-ye
(متعلق فعل)
مناسب ہے، درکار ہے، موزوں، لازم ہے، چاہنا مصدر کا صیغٸہ امر
(اردو کی صوتی لُغت ، صفحہ 453
مرتبہ : پروفیسر نصیر احمد خاں)
4۔ ” چاہیے “
باید، شاید، مناسب، موزوں، مطلوب ہے
(فیروز اللغات ، صفحہ 275
مرتبہ : مولوی فیروزالدین احمد)
5۔ ”چاہیے “
cahiye (the precative form of the aorist of "cahna", used as a phrase), Is necessary, is needful or requisite, is proper or right; it behoves; should or ought (=Lat. Opuset, necesse est; debet; —pl. Cahiye N: see Hind. Gram. 439, et seq.):—–kya na cahiye, What is not wanting (to me), what do I not want, I want everything;—–nothing is wanting (to me), I have everything.
(A DICTIONARY OF URDU, CLASSICAL HINDI AND ENGLISH Page no. 892
By John T. PLatts)
یہ سچ ہے کہ کچھ لغات میں مذکورہ بالا لفظ کا املا ”چاہٸے“ درج ہے لیکن میں اسے کاتبین، مرتبین اور پبلشرز کی مہربانی کہوں گا۔ کیوں کہ نہ صرف مستند لغات بل کہ استاد شعرا ٕ اور علماٸے تطہیرِ املا کے نزدیک بھی اس لفظ کا املا ”چاہیے“ ہی درج ہے (ی سے، نہ کہ ہمزہ سے). خُداٸے سُخن میر تقی میر نے پوری غزل میں چاہیے کو بہ طور ردیف رکھا ہے۔
غیر سے اب یار ہوا چاہیے
ملتجی ناچار ہوا چاہیے
جس کے تئیں ڈھونڈوں ہوں وہ سب میں ہے
کس کا طلبگار ہوا چاہیے
تاکہ وہ ٹک آن کے پوچھے کبھو
اس لیے بیمار ہوا چاہیے
زلف کسو کی ہو کہ ہو خال و خط
دل کو گرفتار ہوا چاہیے
تیغ بلند اس کی ہوئی بوالہوس
مرنے کو تیار ہوا چاہیے
مصطبۂ بے خودی ہے یہ جہاں
جلد خبردار ہوا چاہیے
مول ہے بازار کا ہستی کے یہ
دل کے خریدار ہوا چاہیے
کچھ نہیں خورشید صفت سرکشی
سایۂ دیوار ہوا چاہیے
کر نہ تعلق کہ یہ منزل نہیں
آہ سبک بار ہوا چاہیے
گو سفری اب نہیں ظاہر میں میرؔ
عاقبت کار ہوا چاہیے
(میریات دیوان 1 غزل نمبر 497)
آخر میں املا کی تطہیر کے کچھ معتبر ناموں کے حوالہ جات مع قاعدہ نقل کیے جاتے ہیں:
1۔ (الف) جب ”ی“ سے پہلے والے حرف پر زیر ہو تو وہاں دو ”ی“ آٸیں گی۔ جیسے لکھیے (لکھ ی ے)، پڑھیے (پڑھ ی ے)، کیے (ک ی ے)
(ب) ہمزہ اس صورت میں آٸے گا جب ”ی“ سے پہلے والے حرف پر زبر یا الف یا واو ساکن ہو، جیسے گٸے، نٸے، آٸے، جاٸے، نہاٸے، سوٸے، روٸے دھوٸے ۔“
(قواعد املا و انشا از اختر حسین فیضی مصباحی صفحہ 48 49)
چاہیے میں بھی ”ہ“ پر زیر ہے اس لیے یہ لفظ بھی اِسی اصول کے تحت ہمزہ کے بجاٸے دو ”ی“ سے لکھا جاٸے گا۔
2۔ ایسے مصادر جن کی علامت مصدر ”نا“ ہٹانے سے امر کے آخر میں الف، و، ی کے علاوہ کوٸی اور حرفِ صحیح آتا ہو جیسے کہنا سے کہہ، پڑھنا سے پڑھ، لکھنا سے لکھ، رونا سے رو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وغیرہ ان کے افعال کی بھی ہر شکل بغیر ہمزہ کے لکھی جاٸے گی۔ یعنی کہیے، پڑھیے، لکھیے، رویے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وغیرہ میں ہمزہ نہیں آٸے گا۔
(اردو املا اور رسم الخط، اصول و مساٸل از ڈاکٹر فرمان فتح پوری صفحہ 38)
چاہنا سے چاہیے بھی چوں کہ اسی قبیل کا ہے اس لیے اسے بھی چاہیے (ی سے) لکھا جانا چاہیے۔
3۔ کیجیے، دیجیے، لیجیے وغیرہ فعل امر کی تعظیمی صورتیں ہیں۔ ایسے افعال کے آخر میں دو ”ی“ ہوتی ہیں۔ ان میں پہلی ”ی“ کی جگہ پر ہمزہ لکھنا (دیجٸے) غلط ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دیجیے جیسے افعال میں آخر میں دو ”ی“ ہیں۔ اس قاعدے کا پہلے ہی ذکر آچکا ہے کہ پہلے حرف پر اگر زیر ہوتو اس کے بعد لازماََ ”ی“ ہوتی ہے ۔۔۔۔۔ (د ی ج ی ے ، ل ی ج ی ے) یہی صورت ”لیے“ اور ”دیے“ وغیرہ کی ہے۔
(درست اردو لکھنا سیکھیں، صحیح املا از محمد عرفان رامے صفحہ 81)
جیسے لیجٸے کو ہمزہ سے لکھنا غلط ہے ویسے ہی چاہٸے کو بھی ہمزہ سے لکھنا صریحاََ غلط ہے۔
4۔ فعل کی تعظیمی صورت میں (جو بالعموم فعل امر کی ایک صورت ہوتی ہے) لفظ کے آخر میں دو ”یا“ (ی۔ ے) آٸیں گی جیسے کیجیے میں ”ج ی ے“۔ اکثر لوگ ایک”ی“ کی جگہ ہمزہ لکھ دیتے ہیں جیسے کیجیے کے بجاٸے کیجٸے۔ یہ طرزِ املا غلط ہے۔ ہمزہ صرف ان الفاظ میں آٸے گا جن کے افعال کے مصادر کی علامت ”نا“ سے پہلے الف یا واٶ ہو جیسے آنا سے آٸیے، سونا سے سوٸیے۔
(اصلاحِ تلفظ و املا از طالب الہاشمی، صفحہ 55)
5۔ دیکھیے، دیجیے، اس لیے وغیرہ میں ی سے پہلے ہمزہ نہ لکھا جاٸے۔
(رسالہ فصیح الملک مٸی 1905 از مولانا احسن مارہروی)
بہ حوالہ علمی نقوش از ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خاں
6۔ اردو ادب کے ایک معتبر نام گوپی چند نارنگ نے اس مسٸلے کو تکنیکی انداز سے مزید وضاحت کے ساتھ لکھا ہے۔ سابقہ صورتوں کے مقابلے میں یہاں کسی اشکال کی گنجاٸش نہیں رہتی۔ ان کی راٸے ملاحظہ فرماٸیں۔
ہمزہ کے سلسلے میں ایک بڑی دِقت یہ ہے کہ ”چاہیے“ میں ہمزہ کیوں نہیں لکھنا چاہیے اور ”جاٸیے“ میں کیوں لکھنا چاہیے یا کٸی، گٸے اور گٸی کو تو ہمزہ سے لکھا جاتا ہے، لیکن کیے، لیے اور دیے کو ہمزہ سے کیوں نہ لکھا جاٸے؟
واقعہ یہ ہے کہ کسرے اور اعلان کی ی (نیم مُصوّتہ ی) کا مخرج ساتھ ساتھ ہے چناں چہ ”چا ہِ یے، لِ یے، دِیے“ میں بالترتیب ہ، ل اور د کے زیر کے بعد دوسرے مُصوّتے تک جانے سے پہلے زبان ”ی“ کے مخرج سے گزرتی ہے، جس سے ی کا شاٸبہ پیدا ہوجانا لازمی ہے۔ اس کے برعکس ” کَ+ی، گَ+ے، گَ+ی“ میں کسرہ نہیں بل کہ زبر ہے۔ اس لیے ی کے شاٸبے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ ان میں دو مصوتے ساتھ ساتھ آٸے ہیں اور یہ طے ہے کہ جہاں دو مصوتے ساتھ ساتھ آٸیں وہاں ہمزہ لکھنا چاہیے۔
اب اس سلسلے میں اصول یہ ہوا:
اگر حرفِ ماقبل مکسور ہے تو ہمزہ نہیں آٸے گا، ی لکھی جاٸے گی، جیسے۔
کِیے، دِیے، لِیے، جِیے، سِیے، چاہِیے
فعل کی تعظیمی صورتیں دیجِیے، لیجِیے اسی اصول کے تحت لکھی جاٸیں گی۔
دیجِیے، لیجِیے، کیجِیے، اُٹھِیے، بولِیے، بیٹھِیے، کھولِیے، تولِیے
(املا نامہ از گوپی چند نارنگ، صفحہ 83 ، 84)
اب جب کہ یہ طے ہو گیا کہ ”چاہیے“ ہی درست املا ہے اگر اسے ”چاہٸے“ لکھیں گے تو یہ املا غلط سمجھا جاٸے گا اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کی جمع بناتے وقت بھی درج بالا قواعد کی پیروی کی جاٸے گی یا وہاں ان قواعد کا اطلاق نہیں ہوگا اور ”چاہییں“ کے بجاٸے ”چاہٸیں“ لکھا جاٸے گا۔ اس کی جمع کا قاعدہ بھی دیکھ لیں۔
1. ایسے افعال جن کے ماضی کے صیغے میں ی سے پہلے حرفِ مکسور ہو ، ان میں واحد اور جمع کے صیغوں میں ہمزہ کبھی نہیں آٸے گا اور وہ تصریفی صورت میں یوں لکھے جاٸیں گے:
جیے سے جییں
سیے سے سییں
پیے سے پییں
(اردو املا از رشید حسن خاں صفحہ 392)
لہٰذا چاہیے سے جمع بناتے وقت بھی ”چاہییں“ ہی لکھا جاٸے گا، نہ کہ ”چاہٸیں“
2۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو:
( اردو املا از رشید حسن خاں صفحہ 354 اور 391 تا 398)
3۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو:
( عبارت کیسے لکھیں از رشید حسن خاں صفحہ 98)
4۔ بعض لفظوں میں ہمزہ اور بعض میں ”ی“ کا استعمال اس طرح ہوگا۔
صحیح غلط
لیے لٸے
جیے جٸے
لکھیے لکھٸے
دیے دیٸے
چاہیے چاہٸے
چاہییں چاہٸیں
کیجیے کیجٸے
(آٸینہِ تلفظ از حفیظ رحمانی صفحہ 71)
چاہیے اور نہ جانے اس جیسے کتنے ہی الفاظ ہیں جن کا املا ہم شعوری یا لاشعوری طور پر غلط لکھ جاتے ہیں۔ اس ”کارِ خیر“ میں جہاں خطبا، مقررین، کالم نگاروں، اخبارات، پبلشرز، کمپوزرز اور خبریں پڑھنے والوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے وہاں کاتبین اور خطاط حضرات بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ یہ درست ہے کہ خطِ نستعلیق خطاطی کے کمال کا شاہ کار ہے اور نستعلیق کا عروج خطاطوں کا مرہونِ منت ہے لیکن خطاطی چوں کہ ایک مستقل فن ہے اس کا املا سے کوٸی تعلق نہیں، بل کہ یہ اندازِ نگارش ہے جس کی راہیں املا سے جدا ہیں۔ لفظوں کو خوب صورت لکھنا اندازِ نگارش ہے اور فنِ خطاطی کے تحت آتا ہے اس لیے خطاطی کو املا سے گڈ مڈ کرنا محض خام خیالی ہے۔ جیسا کہ کچھ کاتبین اور خطاطوں کی تحریروں سے پتا چلتا ہے کہ لفظوں کو خوب صورت اور جاذب نظر بنانے کی کوشش میں شوشوں میں کمی بیشی یا دیگر معاٸب سے بعض لفظوں کا املا غلط کردیا گیا۔
درسی کتب نے املا کے بگاڑ میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ جب کسی لفظ کا غلط املا کتابوں میں راہ پاجاتا ہے تو طَلَبا کے لیے یہ سند کا درجہ رکھتا ہے پھر چاہتے ہوٸے بھی غلط کو درست ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ خاص طور پر ابتداٸی درسی کتب میں املا کی غلطیاں طلبا پر زیادہ اثر انداز ہوتی ہیں۔ کیوں کہ ابتداٸی جماعتوں میں بچے ”لفظوں کی صورت نویسی“ کے عمل سے گزر رہے ہوتے ہیں۔ صورت شناسی کے عمل سے گزرنے کے بعد جب بچہ تحریر لکھنے یا پڑھنے کے قابل ہوتا ہے تو اس وقت لفظوں کا املا (چاہے وہ غلط ہو یا درست) اس کے ذہن میں نقش ہوچکا ہوتا ہے اور پھر وہی املا بچے کے لیے مستقل حیثیت اختیار کرلیتا ہے۔ اس لیے نصاب مرتبین کے لیے یہ لازم ہوجاتا ہے کہ نصابی کتب کی کتابت (کمپوزنگ) کے بعد اصلاح و درستی (پروف ریڈنگ) کا خاص اہتمام کیا جاٸے۔
آج کے اس سوشل میڈیا کے دور میں جہاں لفظوں کے غلط املا کی روش راہ پا گٸی ہے وہاں ہمیں انفرادی و اجتماعی حیثیت سے اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اس حقیقت کو ماننا پڑے گا کہ املا کے بگاڑ سے خود لکھنے والے کی شخصیت گہنا جاتی ہے اور پڑھنے والا لکھنے والے کو بے پروا سمجھتا ہے۔ آخر میں مجھے رشید حسن خاں صاحب کے الفاظ یاد آرہے ہیں کہ :
”پرانے حکیم صاحبان نسخے اس طرح لکھا کرتے تھے کہ پورے نقطے نہیں لگاتے تھے، حرف بھی اچھی طرح نہیں بننے پاتے تھے۔ آپ کی تحریر کو اُن پُرانے نُسخوں کی طرح نہیں ہونا چاہیے۔“