47 سال پہلے مراکش کے صدر مقام رباط میں یہ سب جمع ہوئے اور عہد کیا کہ مسلمان ریاستیں متحد ہو کر دنیا میں اہل اسلام کا نام بلند کریںگی۔ نام اس تنظیم کا آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس رکھا گیا۔ نشان میں تین علامات تھیں۔۔۔۔ کعبہ، کرۂ ارض اور ہلال۔ 2011ء میں نام تبدیل ہوکر آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن ہوگیا۔47 سال! تین سال اور جمع کریں تو نصف صدی! آہ! امّتِ مسلمہ کی بد قسمتی! اختر ہوشیارپوری نے ماتم توکسی اور حوالے سے کیا تھا مگر اس تنظیم پر صادق آ رہا ہے ؎
دامن خالی، ہاتھ بھی خالی، دستِ طلب میں گردِ طلب
عمرِ گریزاں! عمرِ گریزاں! مجھ سے لپٹ اور مجھ پر رو
ایک ہفتہ ہوا۔ استنبول میں اجلاس ہوا۔ آخری سیشن میں سعودی عرب اور اس کے حامی ملکوں نے ایران اور حزب اللہ کی مذمت میں قرار داد پیش کی۔ ایرانی صدر نے احتجاجاً آخری سیشن کا بائی کاٹ کیا۔ قرارداد میں افسوس ظاہرکیا گیا کہ ایران دوسرے ملکوں کے داخلی معاملات میں الجھتا ہے۔ بحرین، شام، یمن اور صومالیہ کی مثالیں پیش کی گئیں۔ حزب اللہ کی مذمت بھی اسی حوالے سے ہوئی۔
سیاسی حوالے سے او آئی سی کی ناکامی کا اس قرار داد سے بڑا کیا ثبوت ہو سکتا ہے! ایران اور عرب کا جھگڑا یوں تو ہمیشہ سے ہے، مگر بحرین، شام، یمن اور صومالیہ کے سیاق و سباق میں معاملات کئی سالوں سے دنیا بھر میں توجہ حاصل کر رہے ہیں۔ او آئی سی نے ان معاملات کو نمٹانے کی کوئی کوشش نہیںکی۔ ایران اور سعودی عرب میں کوئی ڈائیلاگ نہیں کرایا۔کسی ملک کو ثالث بنایا نہ خود ہی درمیان میں پڑی۔ مردہ بولے ہی نہیں، بولے تو کفن پھاڑے۔ اجلاس بلا کر اس کے آخری اعلامیہ میں ایران اور حزب اللہ کی مذمت کردی۔ بریں عقل و دانش بباید گریست، اس عقل اور دانش پر رونے کے علاوہ کیا ہوسکتا ہے۔ دنیا تماشہ دیکھ رہی ہے۔ خدا کے بندو! یہ معاملات کانفرنس کے اجلاسوں کے اندر نمٹاتے۔ جھگڑا، بحث، دلائل، جوابی دلائل سب کچھ اندر ہی اندر کرتے۔ فائنل اعلامیہ میں اتحاد اور یگانگت کی بات کرتے اور ایسا بیان جاری کرتے جس پر سب متفق ہوتے۔ ایران کی طرف سے آخری اجلاس کا بائی کاٹ او آئی سی کی ناکامی ہے۔ اگر ایران اعلامیہ سے مطمئن نہ تھا تو سفارتی سرگرمیاں بروئے کار لائی جاتیں۔گفت و شنید سے کیا نہیں ہو سکتا۔ایسا نہیں کہ ایران نے دوسروں کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی نہیںکی۔ حزب اللہ جو کچھ کر رہی ہے، سب کے سامنے ہے۔ مگر کیا یہ لازم تھا کہ فائنل اعلامیہ میں، جو دنیا بھر میں پڑھا اورسنا گیا، اس کا ذکر ہوتا؟
پھر دوسری دخل اندازیوں کا ذکر بھی کیا جانا چاہیے تھا۔ پاکستان خود اِن دخل اندازیوں کا شکار ہے! بہت بُرا اور قابل رحم شکار! مشرقِ وسطیٰ میں وہ ملک بھی تو ہیں جو خود اپنے ہاں نجی شعبے میں کوئی مدرسہ قائم کرنے کی اجازت نہیں دیتے، مگر پاکستان میں ایک دو نہیں، درجنوں نہیں، سیکڑوں مدارس کی کفالت کی جا رہی ہے! پاکستان کی حکومت میں اتنا دم خم کہاں کہ عرض کرے حضور! ہم پر رحم کیجیے، یہ ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت ہے۔ ایران اور عرب ممالک ہر دوکی طرف سے مدارس کی پشت پناہی ہو رہی ہے مگر ہم ایران کا نام تو بلا جھجک لیتے ہیں، عرب ملکوں کا نام لیتے ہوئے سو بار جھجکتے ہیں اور ہزار بار ڈرتے ہیں۔ مدرسہ نوازی تو ہو ہی رہی ہے، کم یاب پرندے بھی نایاب ہوتے جا رہے ہیں۔ غیر ملکی شہزادوں اور بادشاہوں کے لیے شکار کے قوانین مختلف ہیں، پاکستانیوں کے لیے مختلف! واہ! واہ! سبحان اللہ! امریکہ تو امریکہ ہے، علاقے کے ملکوں کے سامنے بھی دست بستہ کھڑے ہیں اور ملک کی حالت اُن کے سامنے وہی ہے جو وڈیرے کے سامنے ہاری کی جھونپڑی کی ہوتی ہے!
یہ ممالک خود کس درجہ محتاط ہیں، اس کا ہم پاکستانی شاید تصور بھی نہ کر سکیں! ایک بار پاکستان کی ایک مذہبی تنظیم سے وابستہ کچھ افراد نے مشرق وسطیٰ کے ایک ملک میں، ایک گھر کے اندر درسِ قرآن کا اہتمام کیا۔ ریاست کو خبر ہوئی۔ اُسی گھر سے اُن افراد کو ایئرپورٹ لے جایا گیا اور ملک سے نکال دیا گیا۔ باقی کے خلاف بھی کارروائی ہوئی۔ ایک اور بڑے ملک میں تبلیغی جماعت کی سرگرمیوں پر پابندی ہے۔ یہ مثالیں جو پیش کی جا رہی ہیں، دو حوالوں سے اہم ہیں۔ ایک تو یہ کہ ہمارے ہاں بھی ایسے ہی قوانین ہونے چاہئیں مگر دوسرا حوالہ یہ ہے کہ خود جو ممالک اِس درجہ محتاط ہیں، ہمارے ہاں سب کچھ کھلے عام کر رہے ہیں۔ مذہبی تنظیموں کی سرپرستی کر رہے ہیں۔ مدرسے چلا رہے ہیں۔ اِن ملکوں میں کیا مجال ہے کہ ریاست کی اجازت کے بغیر کوئی مسجد بنے۔ یہاں کسی رہگزر پر، کسی نالے پر، کسی سرکاری قطعۂ زمین پر مسجد بن سکتی ہے اور بیرونِ ملک سے مقدس کفالت بھی حاصل کی جا سکتی ہے! پاکستان نہ ہوا، غریب کی جورو ہوئی!
او آئی سی کی طرف پلٹتے ہیں۔ تعلیم اور مالیات کے حوالے سے کچھ ادارے ضرور قائم ہوئے مگر گہری چھاپ کسی کی نہ پڑ سکی۔ 47 سال میں کوئی ایک یونیورسٹی اِس سطح کی نہ بنی جو ہارورڈ اور آکسفورڈ کی ٹکر کی ہو! کوشش تک نہ ہوئی۔ عرب شہزادے اربوں کے عطیات امریکی یونیورسٹیوں کو دیتے رہے، خود کچھ نہ کیا۔ کوئی ٹیلی ویژن چینل ایسا نہ بن سکا جو سی این این یا بی بی سی کے مقابلے کا ہوتا۔ الجزیرہ موجود ہے مگر کم و بیش ایک لسانی گروپ کی حمایت کرتا ہے اور انہی خبروں کی جگالی کرتا ہے جنہیں مغربی میڈیا اہمیت دے کر نمایاں کر چکا ہوتا ہے۔
نصف صدی میں، او آئی سی کے زیر انتظام مسلمان ملکوں کے سائنسدانوں نے کوئی ایک ایجاد بھی ایسی دنیا کے سامنے پیش نہیں کی جس کا انسانیت کو فائدہ ہوتا! پنسلین سے لے کر بائی پاس آپریشن اور گردوں اور جگر کی پیوندکاری تک، ٹیلی ویژن سے لے کر انٹرنیٹ تک، ریلوے سے لے کر طیاروں تک کہیں بھی عالمِ اسلام کا نام نہیں، نہ ہی او آئی سی نے اس میدان میں کچھ کیا۔ مسلمان ملکوں کے لیے اور خود او آئی سی کے لیے شرم کا مقام ہے کہ عالمِ اسلام کی واحد ایٹمی طاقت پاکستان کے وزیراعظم کی طبیعت گزشتہ ہفتے خراب ہوئی تو 57 مسلمان ملکوں میں کہیں بھی ان کا علاج ممکن نہ ہوا۔ پاکستان ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود اس قدر بدحال اور پس ماندہ ہے کہ اس کے وزیراعظم اپنے ملک میں اپنا علاج کرانا پسند نہیںکرتے۔ سب سے بڑے صوبے کے وزیراعلیٰ طبی معائنہ کرانے اکثر و بیشتر ولایت جاتے ہیں! یہی رویہ دوسرے مسلمان ملکوں کے سربراہوں کا ہے!
فقہ اور اجتہاد کے میدان میں بھی او آئی سی کی کارکردگی صفر ہے۔ کوئی ایک ایسا مرکزی ادارہ نہ بن سکا جو فقہی معاملات میں جدید دور کے مسلمانوں کی رہنمائی کرتا۔ پاکستان کا سب سے بڑا فقہی ادارہ جو سرکار کے خرچ پر چل رہا ہے، کمسن بچیوں کی شادی کے مسئلے میں الجھا ہوا ہے۔ آج او آئی سی کے زیرانتظام کوئی تحقیقی مرکز ہوتا تو ان مسائل میں رہنمائی کرتا جن میں کم علم اور تنگ ذہن مُلا نے مسلمانوں کو جکڑ رکھا ہے۔
کسی ذہین سکالر نے اقوامِ متحدہ کے ضمن میں ایک نہایت دلچسپ فارمولا وضع کیا تھا کہ
٭… اگر جھگڑا دو بڑے ملکوں کے درمیان ہو تو اقوامِ متحدہ درمیان سے غائب ہو جاتی ہے۔
٭… اگر جھگڑا ایک بڑے ملک اور ایک چھوٹے ملک کے درمیان ہو تو چھوٹا ملک غائب ہو جاتا ہے۔
٭… اگر جھگڑا دو چھوٹے ملکوں کے درمیان ہو تو وہ مسئلہ غائب ہو جاتا ہے جو حل کیا جانا ہے اور جھگڑے کا باعث ہے۔
او آئی سی کی حالت اِس سے بھی ابتر ہے! اکثر و بیشتر غائب رہتی ہے۔ یہ اُس بیمار اور لاچار بڑھیا کی طرح ہے جو اپنے روزمرہ کے اخراجات کے لیے اولاد کی محتاج ہے۔ اتنی سکت کہاں کہ جھگڑتے ہوئے بیٹوں میں صلح کرا سکے!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“