لبرل کا لفظ لبرٹی سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے آزاد ہونا،آزادی حاصل کرنا لبرل ازم آج کی دنیا کا سب سے مقبول فلسفہ ہے والٹیٸر،روسو،تھامس گورڈن، ایڈم سمتھ اور کارل پوپر کے علاوہ اور بہت سے نام ہیں مگر ان سب میں انگریز فلسفی اور فزیشن
جان لاک(Jhon locke1632 -1704) کو اس کا بانی مانا جاتا ہے جس نےکہا کہ انسان کو کچھ حقوق فطری طور پر حاصل ہیں ان میں زندہ رہنے،آزادی اور جاٸداد رکھنے کا حق شامل ہیں۔زندہ رہنے کے حق کا مطلب ہے کہ اگر کوٸی مجھے آکر قتل کردے تو یہ میرے فطری حق کی خلاف ورزی ہے،آزادی بھی میری ضرورت ہے اور جاٸداد رکھنا بھی میرا فطری حق ہے کہ جس چیز پر میں محنت کرتا ہوں وہ میری ہونی چاہیۓ میں نے جاٸداد پر محنت کی ہے کوٸی مجھ سے وہ چھین لے تو یہ میرے ساتھ ظلم اور زیادتی ہے کہ اس نے میری محنت چھین لی، وہ کہتے ہیں کہ ریاست کا بنیادی کام یہ ہے کہ وہ لوگوں کی زندگی،آزادی اور جاٸداد کی حفاظت کرے اس کے علاوہ ریاست کا کوٸی کردار نہیں ہونا چاہیۓ جو ریاست یہ کردار ادا نہیں کرتی اس کے خلاف بغاوت کردینی چاہیۓ جان لاک اپنے زمانے میں بہت انقلابی آدمی تھا درحقيقت اس زمانے میں سارے لبرلز بہت انقلابی ہوا کرتے تھے گلورسین ریوولوشن 1688ع ایک مسلح بغاوت تھی جس میں لبرلز نے اپنی حاکمیت قاٸم کی تھی 1776ع کے آمریکی انقلاب میں تھامس پین اور تھامس جیفرسن کا کردار انتہائی اھم تھا جو اس دور کے معروف لبرل تھے 1789ع کا انقلابِ فرانس کی قیادت بھی لبرل نے کی تھی اس زمانے کے لبرلز انقلابی تھے اس وقت جو انقلابی ہوا کرتے تھے وہ اپنے آپ کو لبرلز کہا کرتے تھے مگر اب ایسا نہیں ہے کوٸی غلط فہمی میں نہ رہے اب لبرلز کہتے ہیں کہ نہیں انقلاب کی کوٸی خاص ضرورت نہیں بس تھوڑی تھوڑی تبدیلی کرلیں تو معاملہ ٹھیک ہوجاۓ گا۔
لبرل ازم کب شروع ہوا؟ یہ روشن خیالی(Age of enlightenment )کے دور میں شروع ہوا یعنی یہ زیادہ قدیم نہیں اس کا آغاز چار پانچ سٶ سال پہلے شروع ہوا اس زمانے میں اہم مسٸلہ یہ تھا کہ تاجر طبقہ جو بعد میں سرماٸیدار طبقہ بنا وہ چاہتے تھے کہ بادشاہت پیچھے ہٹے اور انہیں اقتدار میں حصہ ملے بادشاہت نے جو تجارت پر پابندیاں لگاٸی ہوٸی تھیں وہ سب ختم ہوجاٸیں لہذا روشن خیالی کا زمانہ وہ تھا جب لبرلز ریاست کے خلاف لڑ رہے تھے بعد میں وہ خود ہی اسٹبلشمنٹ بن گۓ وہ ریاست اور بادشاہ کی اجارہ داری ختم کرنا چاہے رہے تھے اس میں اہم پہلو یہ تھا کہ وہ اس زمانے کی کیتھولک چرچ کے سخت خلاف تھے کیونکہ چرچ اس وقت بہت بڑی فیوڈل طاقت تھی یورپ کی ایک تھاٸی زمین اس کی ملکیت تھی لبرلز کہتے تھے چرچ کی مداخلت ریاست اور سیاست میں نہیں ہونی چاہیۓ۔
لبرلز کیا چاہتے ہیں؟
لبرلز چاہتے ہیں کہ ایسا سماج بنایا جاۓ جس کے اندر فرد کے پاس زیادہ سے زیادہ اختیارات ہوں زیادہ سے زیادہ فیصلے انفرادی طور پر فرد خود کرے نہ کہ ریاست یا کوٸی اور گروپ لبرلز شخصی آزادای کی بات کرتے ہیں اور اس آزادی کو ممکن بنانے کے لۓ ان کےکچھ بنیادی اصول ہیں۔
١۔حکومت اکثریت کی راۓ سے قاٸم ہونی چاہیۓ۔
٢۔عوام اپنے نماٸندے خود منتخب کرے۔
٣۔ہر بندے کو ووٹ دینے کا حق ہو اور جمھوریت ہو۔
٤۔صنفی مساوات ہو،نسل پرستی نہ ہو۔
٥۔تمام انسانیت برابر ہو،بین القوامیت ہو۔
٦۔پریس آزاد ہو،اظہار راۓ کی آزادی ہو۔
٧۔ہر فرد کو تنظيم بنانے کا حق ہو۔
٨۔عدالتیں آزاد ہوں اس پر ریاست کا اثر نہ ہو مقدمات سرے عام سنے جانے چاہٸیں۔
٩۔مذہبی آزادی ہو جس کا دل چاہے وہ اپنی مرضی کا مذہب اختیار کرے یا نہ کرے۔
١٠۔قوم کے مفادات وہی ہوں جو فرد کے مفادات کا تحفظ کریں۔
١١۔ایسے قوانين بناۓ جاٸیں جو آفاقی ہوں جیسے(Universal declaration of Human rights)کسی قوم کے لۓ مخصوص قوانين نہ ہوں۔
ہر لبرل سیکیولر ہوتا ہے لیکن ضروری نہیں کہ ہر سیکیولر لبرل ہو مثلا ایک سوشلسٹ فرد بھی سیکیولر ہوتا ہے مگر وہ لبرل نہیں ہوتا کیونکہ معاشی نظام اور معاشی پاليسيوں کے حوالے سے لبرلز اور سوشلسٹوں میں بہت بڑا اختلاف ہے لبرلز سب سے پہلے لوگ تھے جنہوں نے کہا تھا آزاد منڈی قاٸم ہونی چاہیۓ آزاد تجارت ہونی چاہیۓ لبرلز کہتے ہیں کہ آزاد تجارت ہوگی تو معیشت زیادہ تیزی سے آگے بڑھے گی وہ سرماٸیداری نظام کے حمایتی ہیں وہ کہتے ہیں ریاست کی معیشت میں مداخلت کم سے کم ہونی چاہیۓ لبرلز ساٸنسی ترقی اور پھیلاٶ کی حمایت کرتے ہیں، ان کے فلسفہ کی بنیاد استدلال(Rationalism) پر ہے اس سے مراد ہے منطق اور دلیل کو اہميت حاصل ہو نہ کہ تصورات(Revelation )کو زندگی،سیاست اور دیگر فیصلوں میں منطق کا استعمال ہو۔۔!!
ڈاکٹر تیمور رحمان کی کتاب ”چند فکری و سیاسی اصطلاحات کا تعارف“ سے اقتباس!