بابا جی نے چائے کا گھونٹ بھرا۔ پھر ایک لمبی آہ بھری!
عمامہ ان کا سفید تھا۔ تہمد بھی سفید کھدرکا تھا۔ داڑھی مہندی اور خضاب کے آمیزے سے رنگی ہوئی تھی۔ چٹائی پر نیم دراز تھے۔ شاگرد دم بخود تھے کہ آہ کیوں بھری ہے؟
’’آج چائے میں لطف نہیں آ رہا!‘‘ بابا جی نے کہا۔
پھر انہوں نے چائے کی صفات بتائیں۔
’’لازم ہے کہ چائے میں تین خواص ہوں تا کہ لطف اندوز ہوا جا سکے!
اوّل: لبریز ہو! یعنی فنجان (پیالہ) لبالب بھرا ہو!
دوم: لب سوز ہو! اتنی گرم کہ ہونٹ جیسے جل اٹھیں گے!
سوم: لب دوز ہو! یعنی شیرینی اس میں اس قدر ہو کہ حلاوت کے زور سے ہونٹ آپس میں جُڑ جائیں!
بابا جی کو دنیا سے کوچ کیے نصف صدی بیت چکی ہے۔ اس اثنا میں چائے پر کئی دورگزر گئے! اُس زمانے کا دودھ خواب و خیال ہوا! شکر دو چمچ سے ڈیڑھ ہوئی۔ پھر ایک اور اب نصف!
رہی لب سوزی! تو بہت لوگ اب خاصی ٹھنڈی کر کے پیتے ہیں جیسے چائے نہ ہو، شربت ہو! پوچھیے کہ ٹھنڈی چائے کا کیا فائدہ؟ تو آگے سے سوال داغیںگے کہ گرم چائے پینے میں کتنا ثواب ہے؟
اب تک آپ سمجھ چکے ہوں گے کہ لب دوزی سے مراد ہونٹوں کا سِی دینا ہے! آپ کئی اور الفاظ ذہن میں لا سکتے ہیں! کفش دوز۔۔۔ جُوتے سینے یعنی گانٹھنے والا۔ زرہ دوزی بھی ایک زمانے میں فن تھا! درزی کو جامہ دوز بھی کہتے تھے۔ ایک کفن دوز بھی ہوتا ہے جسے ہم بھلائے رکھتے ہیں، یہاں تک کہ وہ دن آتا ہے جب ہمارے لواحقین سفید کپڑا لیے کفن دوز کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں کہ آخری بار اِس دنیا کا بُنا ہوا اور اِس دنیا کا سیا ہوا لباس ہمیں پہنا سکیں! کنالی سوٹ کی قیمت ایک لاکھ روپے سے شروع ہوتی ہے مگر آہ! یہ سوٹ ہمیں کفن دوزکی محتاجی سے نہیں بچا سکتا!
لب دوزی کی طرف واپس آتے ہیں! آپ کا کیا خیال ہے، گرم چائے نہ ہو تو ہونٹ نہیں سیے جا سکتے؟ ہونٹ سینے کا ایک تو سیدھا سادا روایتی طریقہ ہے، سوئی دھاگہ لیجیے اور ہونٹ سی دیجیے، جیسے حال ہی میں شہباز تاثیر نے اپنی کہانی سنائی ہے کہ قید کے دوران ان کے ہونٹ سی دیے گئے۔ مغلوں کے زمانے میں یہ رواج عام تھا۔ قیاس کہتا ہے کہ مغل یہ رواج وسط ایشیا سے لائے ہوں گے، جبھی تو ازبکوں نے شہباز تاثیر کے ہونٹ سی دیے۔ مگر ہونٹ سینے کا ایک اور طریقہ بھی ہے۔ یہ طریقہ کیا ہے؟ باقاعدہ ہنر ہے! اس ہنر میں اہلِ اقتدار طاق ہوتے ہیں! یہ ہنر عجیب ہنر ہے۔ اس میں سوئی کی ضرورت ہے نہ دھاگے کی! نہ درزی کی! بس پیٹ بھرا جاتا ہے۔ پھر منہ نہیں کھُلتا!
یہ ہنر قدیم زمانے سے رائج ہے۔ اُس وقت کمیٹیاں تھیں نہ وفاقی وزیر کے برابر مراعات! نہ ہی ولایت تک کے ہوائی ٹکٹ مہیا کرنے پڑتے تھے! عباسی خلیفہ مہدی نے اپنے وقت کے مشہور عالم اور فقیہ قاضی شریک کو طلب کیا۔ اُن کے سامنے تین باتیں رکھیں کہ ایک کو قبول کرنا ہوگا۔ یا تو جسٹس کا عہدہ قبول کیجیے یا شہزادوں کو تعلیم دینے کی ذمہ داری سنبھالیے۔ یہ دونوں باتیں منظور نہ ہوں تو ایک بار، صرف ایک بار میرے ہاں کا کھانا تناول فرمائیے۔ قاضی صاحب کو تیسری بات آسان لگی کہ ایک بار کھانا کھا کر جان چھوٹ جائے گی! مہدی نے باورچی کو حکم دیا کہ اپنے فن کو پوری طرح بروئے کار لائے۔ انواع و اقسام کی ڈشیں تھیں۔ خلیفہ نے خاص طور پر فرمائش کی کہ انڈے کی زردی کا حلوہ ضرور ہو جس میں اُس زمانے کی اعلیٰ ترین شکر (جسے طبرزَد کہا جاتا تھا) اور شہد پڑتا تھا! قاضی صاحب دعوت کھا کر رخصت ہوئے تو باورچی خانے کے ناظم نے خلیفہ سے کہا: ’’جہاں پناہ! ممکن ہی نہیں کہ اب شیخ اپنے عزائم میں کامیاب ہوں! یہی ہؤا۔ قاضی صاحب نے سپر ڈال دی۔ قضا کا عہدہ قبول کیا، شہزادوں کو تعلیم دینے پر بھی راضی ہوئے۔ تاریخ اس سلسلے کا عجیب واقعہ بیان کرتی ہے۔ پہلی تنخواہ لینے لگے تو خزانے کا داروغہ (جو زیادہ تر یہودی ہوتے تھے) کم دینے لگا۔ قاضی صاحب نے جھگڑا کیا۔ آخر داروغہ نے کہا تم کس شے کا معاوضہ مانگ رہے ہو؟ کیا تم نے کپڑا فروخت کیا ہے؟ جواب میں قاضی صاحب نے بذلہ سنجی سے کہا کہ بھائی! میں نے تو کپڑے سے بھی زیادہ قیمتی شے فروخت کی ہے! میں نے تو اپنا دین بیچا ہے! اس بذلہ سنجی میں اُن کے ضمیر کی کسک موجود تھی!
حکومتی امور سے بے توجہی اور کھانے پینے میں حد درجہ مصروفیت۔۔۔! آج کی بات نہیں! ہماری تاریخ کے روشن صفحات شکم پروری کے ذکر سے بھرے ہیں! آج لوگ حیرت کا اظہار کیوں کرتے ہیں کہ باورچی جدّہ لے جایا جا رہا ہے یا لندن! مشہور حاکم ابن ہبیرہ جس نے امام ابو حنیفہؒ کو جیل میں کوڑے مارے یا مروائے تھے، صبح بیدار ہونے کے بعد ایک بڑے پیالے میں دودھ اور شہد کا مرکب پیتا تھا۔ پھر ناشتے میں دو بھُنی ہوئی مرغیاں، دو بھُنے ہوئے کبوتر اور دیگر غذائیں کھاتا۔ دوپہر کے کھانے پر پھر دستر خوان بھرا ہوتا! عصر کے بعد تخت بچھایا جاتا۔ اس پر ابن ہبیرہ بیٹھتا، مصاحبین کے لیے کرسیاں ہوتیں۔ پہلے دودھ، شہد، شکر اور قند کے ساتھ شربت پیش کیے جاتے، پھر مغرب تک کھانوں کا سلسلہ جاری رہتا! ایک خلیفہ نے ایک منہ چڑھے مصاحب سے پوچھا کہ تم ہمیشہ دستر خوان ہی پر کیوں اپنی ضرورتیں پیش کرتے ہو؟ اس نے جواب دیا حضور کا موڈ اِس وقت بہت ہی اچھا ہوتا ہے! منصور تخت نشین ہوا تو لوگوں نے پیش گوئی کی کہ پیٹ کی تکلیف ہی سے مرے گا! ایک ہندوستانی طبیب نے ہاضمے کی پھکی بنا کر دی۔ اس سے بسیار خوری میں اضافہ ہو گیا! حضرت محمد نفس ذکیہ کے بھائی حضرت ابراہیم سے اُس وقت مقابلہ ہو رہا تھا۔ ہڈیوں کے مغزکا حلوہ، جو خاص غذا تھی، باورچی نے پیش خدمت کیا تو کہنے لگا: ’’ابراہیم چاہتا ہے اس حلوے سے اور دیگر مزیدار کھانوں سے مجھے محروم کر دے‘‘!
حجاج کے زمانے میں ’’لب دوزی‘‘ کا باقاعدہ ’’نظام‘‘ تھا۔ جن کے ہونٹ سینے ہوتے تھے انہیں دستر خوان پر ساتھ بٹھایا جاتا تھا۔ کہتے ہیں عراق میں ایسے درویشوں کا گروہ تھا جن کی دعائیں قبول ہوتی تھیں! وہ گورنر کو بد دعا دیتے۔ وہ مر جاتا یا معزول کر دیا جاتا۔ حجاج نے انہیں گورنر ہاؤس بلایا اور کھانا کھلایا۔ پھر مسکرا کر کہا اب ان کے پیٹ میں حرام کا لقمہ داخل ہو گیا ہے، ان کی دعائیں بے اثر جائیںگی۔ طرفہ تماشا ہے کہ عوام کو یہ قصّہ صبح و شام پڑھ کر سنانے والے خود کبھی مری کے سرکاری مہمانوں خانے میں قیام فرما ہوتے ہیں کبھی قطر کے شاہی محل میں دستر خوان پر تشریف رکھتے ہیں! ٹیکس بچانے والے اور عمروں پر عمرے کرنے والے ’’دیندار‘‘ تاجر اپنے پسندیدہ علما کو اپنے ہاں کئی کئی دن مہمان رکھتے ہیں! عینی شاہد بتاتے ہیں کہ ’’بزرگ‘‘ جتنے دن قیام فرما ہوتے ہیں، ریفریجریٹر مشروبات سے بھرے رہتے ہیں اور دسترخوان مغل بادشاہوں کی یاد تازہ کرتے ہیں! اسی لیے تو اِن ’’دیندار‘‘ تاجروں کو ملکی قوانین پر عمل پیرا ہونے کی نصیحت نہیں کی جاتی! یہی لب دوزی ہے! بلکہ یہاں تک فرمایا جاتا ہے کہ سمگلنگ میں کیا برائی ہے؟ تجارت ہی تو ہے! واہ رے لب دوزی! تیرے بھی کیا کیا کمالات ہیں!
آج اگر حکمرانوں کے پاس امور خارجہ اور دہشت گردی کے مسائل کے لیے وقت نہیں، آج اگر کابینہ کے اجلاس سات سات ماہ بعد ہوتے ہیں، آج اگر وزرا حاضری کا وقت حاصل کرنے کے لیے مہینوں انتظار کرتے ہیں، آج اگر منتخب ایوان میں ورُود، تہوار کی طرح منایا جاتا ہے تو یہی وہ ’’مصروفیات‘‘ تھیں جنہوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے لیے راستہ صاف کیا۔ اودھ کے نواب اور دکن کے نظام میں باورچیوں پر جھگڑا رہتا تھا۔ دونوں سلطنتوں میں امورِ حکومت انگریز ریزیڈنٹ نمٹاتے تھے۔ نواب واجد علی شاہ کے خاصے کا پلاؤ چونتیس سیر گوشت کی یخنی ہیں پکتا تھا۔ ناشتے میں ہر روز دوسیر گھی خرچ ہوتا تھا۔ معلوم نہیں، اُس وقت باقر خانیوں کا الگ باورچی ہوتا تھا یا نہیں! مگر ماش کی دال کے لیے باورچی خاص ہوتا تھا۔ حکمران ان باورچیوں کے حصول کے لیے زیادہ سے زیادہ معاوضہ پیش کر کے ’’حریف‘‘ کو نیچا دکھاتے تھے! تو پھر یہ روایت بھی سچ ہی ہو گی کہ صاحبزادہ یعقوب خان امور خارجہ پر بریفنگ دینے کے لیے رضاکارانہ طور پر حاضر ہوئے۔ کچھ دیر بات سنی گئی پھر طبیعت اچاٹ ہو گئی اور فرمایا: ’’چھوڑیے صاحبزادہ صاحب! آئیے ناشتہ کرتے ہیں!‘‘
ہو سکتا ہے یہ بے پر کی اڑائی گئی ہو! رَو چل پڑے تو لوگ اپنی طرف سے بہت کچھ گھڑ لیتے ہیں! مگر ہماری تاریخ تو یہی کچھ بتا رہی ہے! تو پھر تعجب کیا ہے اگر قطار میں کھڑا ہو کر سینڈوچ یا ایک برگر خرید کر لنچ کرنے والا اوباما ہم پر حکمران ہے!!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“