میرے خیال میں برصغیر کے مسلمانوں کو آزاد پاکستان کے قیام کے لیے متحد کرنے میں قائد اعظم محمد علی جناح اور اردو زبان نے بڑا اہم کردار ادا کیا ہے جب کہ اردو زبان کو ترقی دینے میں 2 شخصیات نے بڑا اہم اور تاریخی کردار ادا کیا ہے اور وہ شخصیات منشی نول کشورصاحب اور مولوی عبدالحق صاحب ہیں ۔ قابل غور بات یہ ہےکہ ایک ہندو ہے اور ایک مسلمان لیکن دونوں اردو زبان کے عاشق تھے اور ان دونوں شخصیات اردو کو کسی ایک مذہب یا گروہ کےلئے مخصوص نہیں سمجھا اگر ایسا سمجھا جاتا تو اردو ایک بڑی زبان کے طور پر کبھی ترویج اور ترقی کی منازل طے نہ کر سکتی ۔ ان دونوں نے اپنی زندگی اردو زبان و ادب کےلئے وقف کر رکھی تبھی جا کر اردو نے عروج حاصل کیا اردو کی لازوال اور ناقابل فراموش خدمات کے اعتراف میں منشی نول کشور کو اردو کا محسن اعظم اور مولوی عبدالحق کو بابائے اردو کے خطاب سے نوازا گیا ہے ۔ مگر ان دونوں کی وفات کے بعد اردو یتیم اور لاوارث ہو کر رہ گئی ہے ۔ اب حالت یہ ہے کہ اشرافیہ طبقہ اردو کو دیس نکالا دینے کی کوشش میں لگے لگا ہوا ہے ۔اردو کو اچھوت سمجھا جا رہا ہے حالانکہ اب بھی ہندوستان اور پاکستان میں کروڑوں لوگ اردو بولتے اور اس سے عشق کی حد تک پیار کرتے ہیں لیکن بدقسمتی سے اشرافیہ طبقہ طاقتور ہونے کے باعث اردو کو سرکاری زبان کی عملی حیثیت دینے کی بجائے کے اسے کھڈے لائن لگانے میں کامیاب رہا ہے ۔
نول کشور 1836 میں پیدا ہوئے اور 1895 میں انتقال کر گئے ۔ انہوں نے اردو زبان و ادب اور صحافت کی خدمت کی اس کو ترقی دلائی اور فروغ دیا جو ایک بڑا تاریخی کارنامہ ہے ۔ جب اردو زبان ناتواں ،لاغر ،کمزور اور پسماندہ تھی اس کی حالت نومولود بچے کی طرح تھی تو ایسی صورت حال میں منشی نول کشور نے اس کی پرورش اور آبیاری کی ۔ انہوں نے 26 نومبر 1858 کو اودھ نامی 30 روزہ اخبار لکھنو سے جاری کیا اس کے بعد 15 روزہ پھر ہفت روزہ اور پھر روزنامہ کر دیا ۔ اس دور میں اردو کے لئے کوئی مطبع اور چھاپہ خانہ نہیں تھا کاغذ بھی انگلینڈ سے آتے تھے ۔ منشی صاحب نے اپنے اخبار کے رپورٹرز کے لیے ماہنامہ معاوضہ مقرر کیا اس سے پہلے نامہ نگاروں کے لیئے معاوضہ یا تنخواہ مقرر کرنے کا ہندوستان میں تصور ہی نہیں تھا ۔ پھر اپنے اخبار میں اپنے دور کے بڑے ادباء اور شعراء کو کالم نگاری کے لیئے لکھنے پر آمادہ کیا اور ان کے لیے بھی پہلی بار تنخواہ مقرر کی گئی ۔ ان کے اخبار میں کالم اور مضامین وغیرہ لکھنے والوں میں مرزا اسد اللہ خان غالب، سر سید احمد خان، عبدالحلیم شرر، منشی غلام احمد، منشی امیر اللہ سلیم، منشی ہادی علی رشک، قدر بلگرامی، عبدالمجید سحر کاکوروی، پنڈت رتن ناتھ سرشار اور منشی نسیم دہلوی شامل تھے ۔ منشی نول کشور نے اخبارات اور رسائل و جرائد ،قرآن مجید اور احادیث مبارکہ کی کتابوں کی چھپائی کے لیے بھی چھاپہ خانے قائم کر دیئے جس سے ہندوستان بھر میں علم و ادب کی ترویج و ترقی کا عمل شروع ہو گیا ۔ قرآن مجید اور احادیث مبارکہ کی چھپائی کے لیے انہوں نے ہندوستان بھر سے مسلمانوں کے جید علماء کی خدمات حاصل کیں جس کی سربراہی سید امیر علی ملیح آبادی کو دے دی ۔ قرآن مجید اور احادیث مبارکہ کے تقدس کے پیش نظر منشی نول کشور نے اس کام پر مامور اہلکاروں کو یہ ہدایت جاری کر دی کہ وہ وضو اور پاکیزگی کے بغیر وہاں مت جائیں ۔ منشی نول کشور نے ہندو ادباء اور ان کی علمی اور ادبی خدمات کے لیے ناظر کاکوروی کی سربراہی میں " اردو کے ہندو ادیب " کے عنوان سے کتاب چھپوائی ۔ جبکہ عالمی ادب اور صحافت کو اردو ادب اور صحافت سے متعارف کروانے کی غرض سے انگریزی کتابوں کے اردو میں ترجمے کروائے ۔ انہوں نے پہلی بار انگلینڈ سے کاغذ برآمد کرنے کی بجائے لکھنو میں کاغذ سازی بھی شروع کر دی ۔ انہوں نے ہندوستان بھر کے تمام بڑے شہروں میں اردو اخبارات و رسائل اور جرائد کا اجراء بھی کیا ۔ ڈاکٹر اکبر حیدری نے اردو کو ہندو مسلم کی مشترکہ وراثت قرار دے کر منشی نول کشور کو اردو زبان کے محسن اعظم کا خطاب دے دیا ۔
بابائے اردو مولوی عبدالحق 1912میں ایجوکیشنل کانفرنس علی گڑھ کے شعبہ ترقی اردو کے معتمد مقرر ہوئے انہوں نے اپنی شب و روز محنت سے اس ادارے کو اردو زبان کی ترویج و ترقی اور فروغ کے حوالے سے ہندوستان کا سب سے بڑا ادارہ بنا دیا ۔انہوں نے سہ ماہی اردو جاری کیا اردو ٹائپ کا مطبع قائم کیا اور 200 سے زائد کتابیں شایع کرائیں ۔ قیام پاکستان کے بعد وہ پاکستان چلے آئے ۔ کراچی میں کل پاکستان انجمن اردو ترقی کی بنیاد ڈالی، اردو کالج قائم کیا جبکہ اردو یونیورسٹی کے قیام کے لیے بھی انہوں نے ہی کوششیں شروع کیں کہ زندگی نے ساتھ نہیں دیا اور 92 برس کی عمر میں انتقال کر گئے ۔ اردو سے ان کی محبت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے خود کو اردو زبان کی ترویج و ترقی اور فروغ کے لئے وقف کر رکھا تھا یہاں تک کہ وہ بے پناہ مصروفیات کے باعث شادی بھی نہ کر سکے ۔ جب اردو کا کوئی والی وارث نہیں تھا تو اس وقت منشی نول کشور اور مولوی عبدالحق نے اردو کی سرپرستی کی اسے مثالی ترقی دی جس میں نہ بھارت سرکار کا کوئی عمل دخل تھا اور نہ ہی حکومت پاکستان کا کوئی کردار رہا لیکن جب منشی نول کشور اور مولوی عبدالحق صاحب اس دنیا میں نہیں رہے تو حکومتوں کی یہ ذمیداری بنتی تھی کہ اردو کی سرپرستی کرتے مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ۔ پاکستان میں اردو کے نام سے چند ایک ادارے قائم کرکے یہ سمجھا گیا کہ بس ہم نے اپنی ذمہ داریاں پوری کر دی ہیں ۔ بہت افسوسناک پہلو یہ ہے کہ قیام پاکستان کے 7 سال بعد 1954 میں پاکستان کا جو قومی ترانہ منظور کیا گیا اور وہ بھی اردو میں نہیں بلکہ فارسی میں لکھا گیا ۔ یہ قومی ترانہ عبد الحفیظ جالندھری کا یے جس میں فقط ایک لفظ اردو کا شامل ہے اور وہ لفظ "کا" ہے ۔ حالانکہ بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح نے اردو کو پاکستان کا قومی زبان قرار دیا تھا لیکن عجیب بات ہے کہ پاکستان کا قومی ترانہ تیار کرنے اور اس کی منظوری میں 7 سال کا طویل عرصہ لگ گیا پھر بھی اردو کی بجائے فارسی زبان کا قومی ترانہ منظور کیا گیا حالانکہ قومی ترانے کے لیے کمیٹی کے سامنے 723 ترانے پیش کیے گئے تھے مگر ان میں سے کوئی بھی اردو زبان کا ترانہ منظور نہیں ہو سکا ۔ یہ عجیب اتفاق تھا یا ایک طئے شدہ منصوبہ تھا کہ یہ قومی ترانہ سب سے پہلے ایران کے شہنشاہ رضا شاہ پہلوی کی آمد پر ان کے سامنے پیش کیا گیا اور رضا شاہ کی مادری زبان فارسی ہی تھی جس سے ایک خیال یہ بھی ذہن میں آتا ہے کہ شاید ایران کی خوشنودی حاصل کرنے کی غرض سے اردو کی بجائے فارسی زبان کا قومی ترانہ منظور کیا گیا ۔
پاکستان کے قیام کے بعد نظریہ ضرورت کے تحت کئی بار آئین کو تبدیل کیا گیا اور 1973 کے متفقہ آئین میں بھی اب تک کئی ترامیم کی گئی ہیں تو میرے خیال میں اسی نظریہ ضرورت کے تحت پاکستان کے فارسی زبان کے قومی ترانے کی جگہ پر اردو زبان میں قومی ترانہ منظور کیا جائے اور سرکاری زبان کے طور پر بھی اردو کو ہی نافذ کیا جائے کیوں کہ اس بارے میں قائد اعظم محمد علی جناح کا اردو کو پاکستان کی سرکاری زبان قرار دینے ،دستور پاکستان میں بھی اردو کے نفاذ کی شق موجود ہونے اور سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے بھی اردو کو پاکستان کی سرکاری زبان قرار دینے کے فیصلے پر عمل درآمد کروانے کا بھرپور جواز موجود ہے ۔ پاکستان کے تمام سرکاری و غیر سرکاری اداروں اور دفاتر میں انگریزی کی بجائے اردو میں خط و کتابت کو لازمی قرار دیا جائے اور اس پر سختی کے ساتھ عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے نیز تمام دفاتر اور سڑکوں وغیرہ کے نام بھی اردو میں لکھنے کو لازمی قرار دیا جائے اور اس کے ساتھ سینیٹ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے اجلاسوں میں اردو کے خطاب کو اولین ترجیح دی جائے ، پبلک سروس کمیشن اور سی ایس ایس کے امتحانات بھی اردو میں ہی لیئے جائیں ۔ کیوں کہ جب تک پاکستان میں اردو کو سرکاری سرپرستی حاصل نہیں ہوگی اس وقت تک یہ ترقی نہیں کر سکے گی بلکہ اسی طرح لاوارث بنی رہے گی اور اس کی جگہ پر انگریزی زبان کی اہمیت اور اجارہ داری برقرار رہے گی جس سے اردو اور پاکستان کے عوام کی قدر و قیمت اور اہمیت میں اضافہ ممکن نہیں ہوگا ۔