کرنل سکھبیر سنگھ فوج کی ملازمت سے سبکدوش ہوئے کے بعد والکیشور ہل کی اپنی پشتینی حویلی لوٹے تھے جہاں انہیں موقعہ ملا تھا کہ پتنی رنجیت کور اور بیٹے سکھدیو سنگھ کیساتھ زندگی کے بقیہ دن سکون سے کاٹ سکیں۔ یہ چھوٹا سا خاندان اور ایک پرانا ملازم دینو کاکا ہی اس وسیع حویلی کا حصہ تھے۔ وہ تمام محبتیں جو بیوی رنجیت کور کا حصہ تھیں ٍ کرنل ہر پل اس پر نچھاور کرنے کر تیار رہا کرتے تھے۔ دن عید اور رات شب برات تھی۔ اکثر ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر کافی کے کپ کیساتھ کرنل و رنجیت کور اپنی پیار بھری باتوں کے ساتھ بیٹے کے مستقبل پر تبادلہء خیال کیا کرتے۔ اگررنجیت کور کو بہو لانے کی فکر ہوتی تو کرنل کو بیٹےسکھدیو کے بزنس کی ترقی کی۔ اس موضوع پر آپسی نوک جھونک جب تیز ہوتی تو کرنل کہہ اٹھتے " بھئ بہو آ جائیگی ٍ ابھی سکھدیو کی عمر ہی کیا ہے؟۔ ذرا اپنا بزنس set کرلے پھر اسکی شادی بھی کر دیں گے " لیکن رنجیت کور کہتی " بیٹا 21 سال کا گبرو جوان ہو چکا ہے۔ بیماری آزاری میرے ساتھ لگی ہوئ ہے۔ اب طبیعت برابر نہیں رہتی۔ بہو آجائے تو چابیاں حوالے کر ہم دونوں کاشی یاترا کو نکل پڑیں۔زندگی اور موت کا کیا بھروسہ ہوئے ہے." کرنل بیوی کی یہ باتیں سن ہنس پڑتے اور کہتے " ارے بھلی مانس ٍ کیا میں تمہیں اتنی جلدی بھگوان کے پاس جانے دوں گا؟۔ ابھی تو کئ سالوں کی دوری کا حساب باقی ہے" غرضیکہ اس حویلی نے روزانہ خوابوں کیساتھ جینا سیکھ لیا تھا۔
خواب پھر خواب ہوتے ہیں کب ٹوٹ کر بکھر جائیںٍ ٍ انسان سوچ بھی نہیں سکتا اور یہی ہوا کرنل سکھبیر سنگھ کے ساتھ کہ ایک رات اچانک رنجیت کور کو دل کا شدید دورہ پڑا اور دیکھتے ہی دیکھتے رنجیت کور نے اس پار سے اس پار کی سرحد پھلانگ لی۔ رنجیت کور بھگوان کو پیاری کیا ہوئ کہ کرنل پر پہاڑ سا غم ٹوٹ پڑا۔ وہ اپنا آپا ہی کھو بیٹھے۔ شراب کے جام کو ہونٹوں سے لگا کر وہ اپنی خوابگاہ کے ہو چلےحالانکہ بیٹے سکھدیو اور دینو کا کا نے انہیں سنبھالنے کی بہت کوشش کی لیکن نہ تو وہ کمرہ سے باہر آنے کو تیار ہوئے اور نہ ہی رنجیت کور کی تصویر کے فریم کو اپنے سے جدا کرنے دیا۔ دینو کاکا پرانے ملازم تھے۔ بوڑھے بھی ہو چلے تھے اسلئے ایکساتھ کر نل اور سکھدیو سنگھ کا خیال رکھنا ان کیلئے ٹیڑھی کھیر ہو چلا تھا۔ رات جب بھی دینو کاکا سکھدیو سنگھ کے کمرہ کی راہداری کی لائٹ بجھانے نکلتے تو انہیں اس کے کمرہ سے ہلکی سسکیاں سنائ دیتیں. وہ جہاندیدہ تھے اس لئے انہوں نے طے کیا کہ پہلے سکھدیو سنگھ کو سمجھایا جائے اور بعد میں دونوں مل کر کرنل صاحب کو سمجھائیں تو حالات درست ہو سکتے ہیں۔ دینو کاکا نے وہی کیا جو وہ طے کر چکے تھے ۔ انہوں نے ایک شام چائے کے وقت سکھدیو سنگھ کی توجہ کرنل کی خراب ہوتی ہوئ حالت کی جانب دلائ اور سمجھایا کہ اگر اس نے اپنے پاپا کو اس صدمہ سے باہرنہ نکالا تو وہ ماں کے بعد ان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے گا۔ سکھدیو دینو کاکا کی مشکلیں سمجھ رہا تھا اور پاپا کی حالت بھی۔ وہ جلد ہی رام ہوگیا۔
کہتے ہیں وقت ہمیشہ مرہم کا کام کرتا ہے۔ جوں جوں وقت گذرتا جاتا ہے انسان کے گھاؤ مندمل ہونے لگتے ہیں۔ ماں کے جانے کے غم سے پریشان بیٹا اب کبھی کبھی پتا کے پاس بیٹھ کر انہیں سمجھانے کی کوشش کرتا کہ پاپا " ماں تو نہیں رہی۔ آپ بھی مجھ سے دور ہوگئے ہیں۔ میں کس کے کاندھوں پر سر رکھ کر اپنا غم ہلکا کروں؟۔ پاپا آپ تو میرا خیال کریں۔ بے چارے دینو کاکا بھی ہم دونوں کو سنبھالتے سنبھالتے بجھ سے گئے ہیں۔ وہ ہمارے وفادار ملازم ہیں۔ ہم کیوں انہیں یہ سزا دے رہے ہیں؟ میری خاطر نہ سہی ان کی خاطر ہی آپ اپنے آپ کو سنبھال لیں۔"
یہ دیکھا گیا ہیکہ اکثر بار بار کہی جانے والی بات انسان پر ضرور اثر پذیرہوتی ہے۔ کرنل کیساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ انہیں جلد ہی سمحھ آگیا کہ بیوی تو چلی گئ لیکن بیٹا ان کی راہ تک رہا ہے۔ اس کے علاوہ رنجیت کور نے تو ان سے بہو لانےکی فرمائش بھی کی تھی تو کیوں نہ اسکے خوابوں کو سچ کر سکھدیو سنگھ کی شادی کر دی جائے؟۔ بہو آئیگی تو کل آنگن میں کلکاریاں بھی گونجیں گی ۔ ننھے منے ہاتھ میرے ہاتھوں میں ہوں گے اور میں ان کا ددو سکھدیو کے بچوں کو باغ میں جھولے بھی تو جھلاؤں گا۔
اس خیال کا آنا تھا کہ کرنل نے اپنے غموں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ رنجیت کور کی تصویر کے فریم کو اسکی اصل جگہ پر ٹانگا اور شراب کے جام کو کھڑکی کی سلاخوں سے باہر پھینک دیا۔
آج اتوار تھا۔ شام کے 6 بج رہے تھے۔ ایک عجیب سی کیفیت طاری تھی کرنل پر جسے وہ خود سمجھ نہیں پا رہے تھے۔ بار بار آرام کرسی پر پہلو بدل رہے تھے لیکن اضطرابی کیفیت کم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ سکھدیو بھی گھر پر موجود نہیں تھا۔ علی الصباح ہی اپنے دوستوں کیساتھ کرجت کے فارم ہاؤس پر نکل گیا تھا۔ دینو کا کا دور بیٹھے کرنل کی بیچینی کو بھانپ رہے تھے۔ اسلئے وہ کمرہ میں نمودار ہوئے اور آتے ہی بلند آواز سے دریافت کیا
" بابا چائے لے کر آؤں " " ہاں لے آؤ اور کچھ بسکٹ بھی " کرنل نے آہستگی سے جواب دیا۔ تھوڑی ہی دیر میں دینو کاکا نے ناشتہ و چائے کی ٹرے ان کی میز پر رکھ دی اور رخصت ہو گئے۔ کرنل نے ایک ہاتھ میں چائے کا کپ اٹھایا اور دوسرے ہاتھ سے بسکٹ اٹھا کر منہ میں رکھا۔ پھر کپ سے چائے کا ایک گھونٹ ہی لیا تھا کہ ایک خیال ان کے ذہن میں کوندے کی طرح لپکا اور اس خیال کے آنے کیساتھ ہی چائے کا کپ ان کے ہاتھ سے چھوٹ کر فرش کا ہو رہا۔ جھٹ میز کی دراز سے فون نکال کر سکھدیو کے موبائیل کا نمبر ملایا۔ گھنٹی بجی اور خاموش ہو گئ۔ ایک بار ٍ دو بار ٍ تین بار اور پھر کئ بار کرنل نے فون کو ری ڈائیل کیا لیکن جواب ندارد تھا۔ اب ان کی سمجھ میں آگیا تھا کہ وہ اسقدر بے چین کیوں ہو رہے تھے۔ طرح طرح کے خیالات ان کے ذہن میں گردش کرنے لگے۔ ان ہی لمحات میں ان کے موبائیل کی گھنٹی بجی تو بیٹے کا نمبر دیکھ کر انہوں نے فون کانوں سے لگا یا اور ہیلو کی آواز کیساتھ ہی انہوں نے بیٹے سے سوالات شروع کر دئے " تم فون کیوں نہیں اٹھا رہے تھے؟ میں کتنا پریشان ہو رہا ہوں۔ تم خیریت سے ہو نا؟ گھر کب پہنچ رہے ہو؟ ۔ جلد پہنچو" ایک سانس میں یہ سوالات سننے والے کی سماعت سے ٹکرائے اور فون پر ایک اجنبی آواز نے کہا " میں سٹی اسپتال سے بول رہا ہوں۔آپ کے بیٹے کی کار حادثہ کا شکار ہوگئ ہے۔ اسکی طبیعت نازک ہے۔ آپ جلد سٹی اسپتال آجائیں۔ یہ کہہتے ہوئے اس نے سٹی اسپتال کا پتہ بتایا اور خاموش ہو رہا۔
کرنل نے وہیں کھڑے کھڑے دینو کا کا کو آوازدی اور گیریج سے کار نکالنے کو کہا۔ اب ان کی کار کا رخ سٹی اسپتال کی جانب تھا۔ اسپتال پہنچتے ہی کرنل تیزی کیساتھ رسیپشین ٹیبل کے عملہ کے پاس پہنچے اور انھیں تفصیل بتائ۔ عملہ نے انہیں ساتویں منزل پر آپریشن تھیٹر جانے کی صلاح دی۔ اس دوران دینو کاکا کار پارک کر کے آ چکے تھے۔ کرنل نے لفٹ کی طرف بڑھتے ہوئے دینو کا کا کو ساتھ آنے کیلئے کہا۔
آپریشن تھیٹر میں داخل ہوتے ہی ایک ڈاکٹر ان کا منتظر تھا۔ اس نے باہر کے دروازے کی کانچ کی کھڑکی سے اندر اسٹریچر پر لیٹے ایک مریض کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا " یہ آپ کا بیٹا ہے۔ بری طرح حادثہ کا شکار ہوا ہے۔ اسکی حالت بہت ہی نازک ہے۔اگر فوری آپریشن نہ کیا گیا تو اسکی زندگی کو خطرہ لاحق ہے۔ آپ کو ابھی ابھی اسپتال کے اکاؤنٹ میں 11 لاکھ روپے جمع کرنا ہوں گے تو ہی ہم اس کا آپریشن کر سکیں گے۔" کرنل کیلئے بیٹے کی یہ حالت ناقابل برداشت تھی۔ انکی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور وہ دھاڑیں مار کر رونے لگے۔ ڈاکٹر نے کرنل کو تسلی دیتے ہوئے کہا کہ " آپ نہ گھبرائیں پلیز ۔بس کسی طرح رقم کا انتظام کردیں۔ ہم آپریشن کر کے آپ کے بیٹے کو بچا لیں گے۔" دینو کا کا نے بھی ہمت بندھاتے ہوئے کرنل کو واپس گھر چل کر رقم کے انتظام کی صلاح دی۔
دونوں ہی لفٹ کی جانب چل پڑے اور جوں ہی لفٹ میں داخل ہوئے ان کیساتھ ہی آپریشن تھیٹر سے ایک شخص اور بھی نکل کر لفٹ میں سوار ہوا۔ نچلے منزلہ پر پہنچتے ہی کرنل اور دینو کا کا پارکنگ لاٹ میں کھڑی کار کی طرف بڑھے کہ درمیان راستے میں ہی کسی نے انہیں پیچھے سے آواز دی۔ پلٹ کر دیکھا تو یہ وہی شخص تھا جس نے وارڈ بوائے کے کپڑے پہن رکھے تھے اور لفٹ میں ان کے سا تھ سوار ہوا تھا۔ کرنل کے پلٹتے ہی وہ آہستگی سے گویا ہوا "سر ٍ میں آپ کو ایک بات بتانا چاہتا ہوں۔ آپ میرا یقین کریں۔ آپ کے بیٹے نے آپریشن تھیٹر میں آنے کبساتھ ہی دم توڑ دیا تھا۔ اب وہ اس دنیا میں نہیں ہے پھر بھی ڈاکٹر آپ سے 11 لاکھ روپے کی رقم اسپتال میں جمع کرنے کیلئے کہہ رہا ہے ۔ یہ سب ڈاکو ہیں۔ رقم جمع کر تجوری بھر رہے ہیں۔ میں روزانہ دیکھ رہا ہوں لیکن خاموشی کے سوائے میرے پاس کوئ چارہ نہیں۔ فیصلہ آپ کو کرنا ہے۔ " یہ کہہ کر وہ شخص اسپتال کے اندرونی حصہ کی جانب لوٹ گیا۔
گھر پہنچتے ہی کرنل نے تجوری سے نقد رقم نکالتے نکالتے اپنا ہاتھ کھینچ لیا اور پھر ایک فیصلہ لیا۔ اندر رکھی ہوئ چیک بک اٹھائ۔ 11 لاکھ کا چیک اسپتال کے نام بنایا اور دینو کاکا کے ساتھ دوبارہ اسپتال کا رخ کیا۔ یہاں پہنچ کر منی کلیکشن کاؤنٹر پر چیک جمع کرا کر رسید لی اور ساتویں منزل پر آپریشن تھیٹر میں پہنچ کر تھیٹر کےبیرونی حصہ میں داخل ہونا ہی چاہتے تھے کہ اسی ڈاکٹر سےجس نے انہیں رقم جمع کرنے کیلئے کہا تھا ٍ ملاقات ہوگئ۔ ڈاکٹر نے کرنل کو دیکھتے ہی کہا کہ " تمہارے بیٹے کا آپریشن جاری ہے۔ فکر نہ کریں ٍ لابی میں انتظار کریں۔"
نہہ جانے کیوں کرنل کا دل ڈوبا جا رہا تھا۔ وہ تھیٹر کے باہر آکر موجود بینچ پر بیٹھ توگئے لیکن ان کا دماغ وارڈ بوائے کی باتوں میں الجھا ہوا تھا۔ وہ سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ حقیقت کیا ہے؟ بغل میں بیٹھےدینو کاکا کی پرارتھنا سے بھی ان کی تسلی نہیں ہو رہی تھی۔
ایک گھنٹہ بیتا۔ اندر سے وہی ڈاکٹر باہر آیا اور کرنل سے مخاطب ہوا "وی آر ساری سر ٍ ہم آپ کے بیٹے کو نہیں بچا سکے " یہ اطلاع کرنل کی سماعت پر بم کی طرح گری اور وہ چینخ پڑے۔" نہیں ٍ تم سب نے میرے بیٹے کو مار ڈالا۔ تم سب قاتل اور لٹیرے ہو۔ اس نے سچ کہا تھا کہ میرا بیٹا اسپتال میں داخل ہوتے ہی مر گیا تھا لیکن تم نے مجھے جھوٹی تسلی دے کر 11 لاکھ روپے اینٹھ لئے۔ میں تم سب کو نہیں چھوزوں گا اور بھگوان بھی تم سب کو کبھی معاف نہیں کرے گا۔ تم سب لاشوں کے سوداگر ہو ٍ لاشوں کے سوداگر"
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...