اس روز گرمی اپنے پورے شباب پر تھی‘ ایسی گرمی کبھی نہیں پڑی کہ شہر کا شہر سنسان نظر آ رہا تھا‘ لوگ مجبوری کی حالت میں ہی گھر سے نکل رہے تھے۔ شہر کی سب سے بڑی مسجد کے سامنے انسانی سروں کا ہجوم بڑا حیران کن تھا‘ تجسّس تھا لوگوں کو کہ آخر کونسی ایسی بات ہو گئی ہے جو مسجد کے سامنے انسانوں کا سمندر موجیں مار رہا ہے جبکہ گرمی اُف خدا کی پناہ۔
ایسا اجتماع تو کبھی سالہا سال سے دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔ صدیوں سے رہتے خاندانوں نے بھی ایسا انسانی ہجوم مسجد کے سامنے کبھی نہ دیکھ پائے تھے‘ پھر کیا ہو گیا تھا ایسا؟
مسلمان یوں ایک جگہ تپتی ہوئی سڑک اور جھلسا دینے والے سورج تلے تکجا ہیں۔ بات تو کچھ نہ کچھ ضرور ہے‘ جو بہت اہم ہے اور یہی جاننے کے لیے بہت سے کانوں سے سننا چاہتے تھے ان آوازوں کو جو مسجد کے بالکل سامنے کھڑے لوگ بول رہے تھے مگر بھیڑ زیادہ تھی!
لوگ ایک دوسرے کو دھکیل کر آگے کی صفوں میں گھسنے کی کوشش کرنے لگے۔ اور پھر کچھ دیر کی ہاتھا پائی کے بعد اگلی صفوں والے پیچھے تھے۔ اور پیچھے والے آگے۔ آگے سے پیچھے جو لوگ آئے‘ اب وہ پیچھے آ کر جو بول رہے تھے وہ پچھلی صف والے بھی سن رہے تھے اور معاملہ سمجھ میں آ رہا تھا۔ جو لوگ آگے پہنچ گئے تھے ان کے سامنے معاملہ بہت صاف تھا ان کے بالکل سامنے اور مسجد کی سیڑھیوں کے قریب ایک لاش‘ سوالیہ انداز میں پڑی تھی۔ اور اس کی آنکھیں بند نہیں تھیں‘ لوگ کہہ رہے تھے! ان میں سے اکثر نے مرنے والے کی آنکھوں کو بند کرنا چاہا مگر وہ جونہی ہاتھ ہٹاتے آنکھیں آپ ہی آپ کھل جاتی ہیں۔
لوگوں کو حیرت تھی۔
پریشانی تھی۔
لوگ خوفزدہ تھے۔
جتنے بھی لوگ تھے وہاں سب کی زبانوں پر مختلف قسم کی باتیں۔ مختلف قسم کے تبصرے تھے۔ وہ انسان جو سوالیہ انداز سے کولتار کی تپتی سڑک پر اور شہر کی سب سے بڑی مسجد کی سیڑھیوں کے قریب مرا پڑا تھا وہ ایک اہم مسئلہ بنا ہوا تھا‘ لوگ کہہ رہے تھے۔
یہ کون تھا؟
کہاں سے آیا تھا؟
شیعہ تھا یا سنی؟
وہابی تھا یا بریلوی؟
ہندو تھا‘ سکھ تھا کہ عیسائی؟
جاسوس تھا کہ غدار؟
’’وہ جو بھی تھا‘ جو بھی ہے‘ ہے تو انسان۔‘‘ ایک نو عمر لڑکا شدت جذبات سے چلاتا ہوا بولا۔ ’’دیکھ رہے ہو تم کہ وہ تپتی ہوئی سڑک پر کس طرح پڑا ہے اور کیا تم اس کے قریب گئے ہو؟‘‘
’’تم نے اسے چھو کر دیکھا ہے؟‘‘
’’مذہب‘ انسانیت‘ قومیت‘ نام لیتے ہوئے شرم نہیں آتی۔‘‘ لڑکا احساس کی آگ میں جلتا ہوا‘ منہ سے جذبات کے انگارے برساتا‘ انسانیت کے پھول دامن میں لیے آگے بڑھا اور بڑھتا چلا گیا‘ وہاں تک جہاں ایک انسان عجیب کربناک انداز میں پڑا تھا۔
وہ نو عمر لڑکا اس لاش پر یہ کہتا ہوا جھک گیا ’’تم کوئی بھی ہو‘ کہیں سے آئے ہو کسی ملک سے تمہارا ناتا ہو۔ کسی مذہب سے واسطہ ہو۔ میرے لیے تو تم صرف ایک انسان ہو‘ ہماری طرح کے صرف ایک انسان۔‘‘
جب لڑکے نے جھکا ہوا سر اٹھایا تو۔۔۔۔ اس کے چہرے پر عجیب سی چمک تھی۔ اور آنکھوں میں مسرتوں کے چراغ روشن تھے اور اس نے ہاتھ اُٹھا کر‘ مجمع سے کچھ کہنا چاہا اور پھر وہ چلا چلا کر کہنے لگا۔
’’یہ جسے تم مرا ہوا جان رہے تھے‘ یہ مرا ہوا نہیں ہے‘ یہ زندہ ہے زندہ ہے یہ۔ میں نے اس کے سوکھے لبوں پر جنبش دیکھی ہے۔۔۔ اس کی پلکوں پر لرزش دیکھی ہے‘ اس کے جسم میں ہلکی ہلکی حرکت دیکھی ہے‘ اسے فوری مدد کی ضرورت ہے اسے ایک چھت کی ضرورت ہے‘ اسے پانی کی ضرورت ہے‘ یہ بیچارہ پردیسی لگتا ہے‘ اسے یہاں سے اٹھا کر مرنے سے بچایا جا سکتا ہے۔‘‘
مگر اس لڑکے کا ہاتھ ہوا میں لرزتا رہ گیا‘ اس کی آواز انسانی شور میں ڈوب کر رہ گئی‘ کسی نے کچھ جاننا نہیں چاہا اور لڑکے کے سامنے ایک انسان کو زندگی کی آخری رمق تک سے محروم کر دیا گیا۔
لڑکا پھٹی پھٹی آنکھوں سے ایک انسان کو بے کسی سے مرتا ہوا دیکھتا رہا‘ اس کی زندگی کا یقیناً یہ پہلا اندوہناک حادثہ تھا‘ اس پر سکتہ سا ہو گیا اور وہ یوں محسوس کرنے لگا کہ جیسے وہ کمنام انسان نہیں مرا ہے بلکہ وہ خود مر گیا ہے جیسے ساری انسانیت مر گئی ہے‘ جیسے یہ ساری کائنات مر گئی ہے۔ اس کی آنکھ سے آنسو کا ایک قطرہ ٹوٹا اور مرنے والے کے دھوپ سے تپتے گرم چہرے پر گِر کر بکھر گیا۔۔۔ پھر یوں ہوا کہ وہ لڑکا جس کے چہرے پر وحشت سی چھائی ہوئی تھی اور جس کی آنکھوں سے خون بہہ رہا تھا‘ وہ اچانک انسانی ہجوم میں دھاڑیں مار مار کر رونے لگا اور چلانے لگا۔
’’تم سب اپنے آپ کو انسان کہتے ہو؟‘‘
’’نہیں تم انسان نہیں ہو‘ درندے ہو‘ وحشی ہو‘ قاتل ہو‘ انسانیت کے‘ شرافت کے‘ مذہب کے۔‘‘
’’انسان نہیں ہو؟‘‘
’’کہاں ہے انسان؟‘‘
’’کون ہے انسان؟‘‘
ہاں۔ ہاں میں بتاتا ہوں۔ وہ دیکھو۔ وہ۔ وہ ہے انسان جو ہمارے سامنے مرا پڑا ہے۔ مر گئی ہے آج انسانیت۔ دفنا دو اسے بے گوروکفن۔ دفنا دو۔ دفنا دو۔ لوگوں نے قہقہے لگاتے ہوئے کہا۔ دیوانہ ہو گیا ہے سالا۔
وحشت بیٹھ گئی دل پر۔
آیا تھا بڑا انسانیت بگھارنے۔
مزہ آئے گا جب گلی گلی پتھر کھوپڑی پر پڑیں گے۔
سالا۔ سور کا بچہ۔ دماغ خراب کر دیا چلا چلا کر۔
لیکن لڑکا بولے جا رہا تھا‘ جواب دو۔ دکھاؤ اس انسان کو جو تاریک غاروں سے نکل کر ترقی اور کامرانی کے بلند اور روشن میناروں پر پہنچ چکا ہے جو آسمانوں سمندروں اور زمین کی تہوں پر عبور رکھتا ہے‘ جو تاریخ کے سنگلاخ دور سے ٹکراتا‘ اندھیروں کو دور کرتا‘ روشنی میں چلا آیا ہے‘ کہاں ہے روشنی۔۔۔۔ کہاں ہے روشنی۔
ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے‘ دُکھ بھرا کبناک اندھیرا۔
کوئی زور سے چلایا۔ دیوانہ ہے دیوانہ۔
اس کے کان بہت حساس تھے‘ کچھ دیر پہلے جس نے مرنے والے کی ہلکی سے ہلکی دل کی دھڑکن تک سن لی تھی‘ وہ لفظ‘ دیوانہ کیسے نہیں سن لیتا۔
دیوانہ کہنے والے کی آواز بہت بھیانک تھی جس میں تمسخر کے ساتھ ساتھ بے حسی شامل تھی۔
ہاں میں دیوانہ ہو گیا ہوں‘ کیونکہ جو کچھ میں نے دیکھا‘ وہ تم دیکھتے ہوئے بھی نہ دیکھ سکے‘ جو کچھ میں نے جانا تم نے جان کر بھی نہیں جانا۔ اب غور سے سنو۔ ’’اے عقلمند انسانوں کہ میں کسی ایسے اصول‘ عقیدے رواج اور مذہب کو نہیں مانتا جس میں انسانیت نہ ہو‘ محبت نہ ہو۔
کوں ہے جو اتنی دیر سے بکواس کر رہا ہے۔؟
صاحب! یہ پاگل ہے کوئی۔
تو بھگا کیوں نہیں دیتے اسے یہاں سے۔
اور یہ کون ہے؟ کس کی ہے یہ لاش۔ معلوم ہوا کچھ‘ پولیس کو خبر کی گئی؟ آواز میں حاکمانہ پن تھا تو لہجے سے غرور جھلک رہا تھا‘ آنکھوں میں طاقت کا نشہ تھا‘ جسم پر قیمتی لباس تھا اور پاؤں میں شفاف اور قیمتی جوتے۔
’’اٹھاؤ‘ اس لاش کو یہاں سے فوراً۔ فرعون صفت انسان نے ناک چڑھاتے ہوئے انتہائی حقارت و بیزاری سے کہا۔
طاقت کا دیوتا کے ساتھ جو ان گنت چیلے تھے انہوں نے آگے بڑھتے ہوئے سوال کیا۔
’’کہاں پھنکوایا جائے؟‘‘
’’پولیس کو فوراً بلواؤ۔ وہ لے جائے جہاں چاہے۔ چاہے وہ سرد خانے میں ڈالے یا ہماری بلا سے جہنم میں لے جائے۔ ہمارا ایریا صاف ہونا چاہیے۔
اتنی دیر میں نماز ظہر کا وقت ہو گیا اور موذن آذان دینے لگا اور اللہ کے بندوں کو اللہ کی طرف بلانے لگا‘ لیکن وہ لوگ جو کچھ جان لینے کے لیے ہزاروں کی تعداد میں دھوپ کی تپش سے لاپروا ہو کر کھڑے تھے۔ وہ اللہ کے گھر کی طرف جانے کی بجائے اِدھر اُدھر ہو کر غائب ہو گئے۔ اور طاقت کا دیوتا بھی اچانک جانے کہاں غائب ہو چکا تھا اور مسجد اس تنہا لاش کی طرح اکیلی رہ گئی جو تپتی دھوپ میں تماشا بنی ہوئی تھی۔ جونہی نماز ختم ہوئی لوگ جانے کہاں کہاں سے نکل کر آنے شروع ہو گئے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہاں لوگوں کے سروں کا ہجوم نظر آنے لگا اور یہ لوگ آپس میں پھر خیالات کا تبادلہ کرنے لگے۔
یہ مرا ہوا انسان اس شہر کا نہیں لگتا۔
’’ظاہر ہے بھائی اگر یہاں کا ہوتا تو مسجد کے سامنے کیوں مرتا۔ کسی فٹ پاتھ پر یا گندی گلی میں‘ یا کسی کیچڑ پر پڑا ہوتا۔‘‘
’’باکل سچ کہا۔‘‘ لوگوں نے تائید کی۔
’’لیکن سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ خدا کے گھر کے آگے ہی کیوں مرا۔‘‘
’’بھائی ظاہر ہے سو فیصدی یہ مسلمان ہو گا۔‘‘ اور پھر لوگوں نے اس بات کو بہت غور سے سنا اور پھر لوگ مرنے والی کی شناخت پر اصرار کرنے لگے۔۔۔ آوازوں کے شور میں زور دار گونج تھی۔ اور اسی لمحے وہاں ایک آدمی نمودار ہوا‘ وہ بھی اپنے چیلوں کے ساتھ ساتھ تھا‘ اس نے آتے ہی ایک گہری نظر مجمع پر ڈالی اور ہاتھ اٹھا کر کہنے لگا۔
’’آپ لوگ مطمئن رہیے‘ میں آ گیا ہوں‘ ابھی مرنے والے کی شناخت کروائی جاتی ہے۔ اگر یہ مسلمان ہے تو ہم اسے دفنانے کا بندوبست بھی کریں گے۔‘‘ اس نے اپنی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے کہا اور یہ سُنتے ہی لوگوں کے چہروں پر خوشی اور اطمینان کی لہر دوڑنے لگی اور واہ‘ واہ ہونے لگی‘ زندہ باد کے نعرے بھی لگنے لگے‘ پھر آنے والے نے حکم صادر کیا کہ فوراً چادر کا انتظام کیا جائے۔
اور معتبر ہستیوں کو بھی ساتھ لیا جائے تاکہ وہ تصدیق کر سکیں کہ مرنے والا مسلمان تھا‘ پھر چادر آئی اور مردے کے تپتے بدن پر ڈال دی گئی اور معتبر ہستیاں کہ جن کے چہروں پر گز گز بڑی داڑھیاں اور ماتھے پر سجدوں کے نشان تھے‘ وہ لاش کے قریب آئے اور لمبی لمبی داڑھیوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے تصدیق کی کہ مرنے والا مسلمان تھا۔
پہلے والا جو واپس آیا تو اس نے دیکھا کہ اس کی جگہ پر اس کا حریف تقریر کر رہا ہے، حکم چلا رہا ہے اور لاش کے مذہب کی تصدیق بھی کروا چکا ہے۔ اور تب اس کی انا کو زبردست ٹھیس لگی‘ تلملا اٹھا وہ۔ غصے سے اور نفرت سے اس کا چہرہ تمتانے لگا۔ اپنے اندر کھولتے لاوے پر قابو پانے کے لیے اس نے اپنے دونوں ہاتھ ایک دوسرے میں پیوست کر لیے تھے‘ تیوری پر ہزاروں بل اور آنکھوں میں شعلے رقصاں نظر آ رہے تھے‘ لیکن باطنی جذبے پر قابو پاتے ہوئے اس نے‘ اپنے حریف کی کار گزاری پر پانی پھیرتے ہوئے کہنا شروع کیا۔
’’ابھی ہم کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے دوستو! یہ مسئلہ بہت اہم‘ بہت نازک اور انتہائی سنگین ہے آپ لوگ کسی کی باتوں میں ہرگز نہ آئیں‘ ہر اک کے بس کی بات نہیں ہے‘ یہ مذہب کا معاملہ ہے اور یہ سب کچھ آپ مجھ پر چھوڑ دیں اور کیونکہ جو ثبوت آپ کو فراہم کیا گیا ہے وہ تسلی بخش نہیں ہے‘ اس پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ آج دنیا کے اکثر مذاہب میں مسلمانوں جیسی رسمیں رائج ہے۔ اس لیے یہ یقین کر لینا کہ مرنے والا مسلمان تھا ہمارے لیے ممکن نہیں۔ ان گنت سوالات ہیں ہمارے سامنے!‘‘
’’کیا کسی نے اسے قتل کیا ہے۔۔ یا اس نے خودکشی کی ہے؟‘‘
’’یا یہ کسی ملک کا جاسوس تھا؟‘‘
’’اور یہ بھی ہو سکتا ہے اسے مارنے میں کوئی سیاسی پارٹی ملوث ہو!‘‘
’’اب دیکھیے ہر شخص یہ باریکیاں سمجھ نہیں سکتا‘ جیسے آپ بظاہر بہت معمولی کیس سمجھتے ہیں‘ غیر اہم معاملہ گردان رہے ہیں‘ یہ اتنا آسان اور غیر اہم نہیں ہے۔ لیکن ہمیں آتا ہے اسے سنبھال لینا‘ کیونکہ یہی تو ہمارا کام ہے!‘‘
لیکن لوگوں نے اس کی بات کاٹتے ہوئے انتہائی بلد آواز سے سوال کیا۔
’’مگر آخر کب تک یہ لاش پڑی رہے گی؟‘‘
’’اور لاش کی آنکھیں بھی بند نہیں ہو رہی ہیں‘ کہیں کچھ ہونے والا تو نہیں‘ لوگوں کی خوفزدہ آوازیں گونجنے لگیں!
’’آپ لوگ بالکل فکر نہ کریں‘ کچھ نہیں ہو گا‘ کچھ بھی نہیں ہو گا‘ آپ لوگ اطمینان رکھیں۔‘‘ طاقت کے دیوتا نے یقین دلاتے ہوئے کہا۔
’’پوسٹ مارٹم بھی کروایا جائے تاکہ پتہ چل سکے اس کی موت کا سبب‘‘ کسی نے کہا تو ایک اور آواز مجمع سے ابھری۔
’’کہیں ایسا تو نہیں ہو گا کہ وقت اتنا لگ جائے کہ لاش سڑنے لگے اور بد بو پھیلنے لگے۔ اک اور آواز نے چلاتے ہوئے کہا۔ ’’وہ چادر کہاں گئی جو شناخت کے لیے آئی تھی۔ کم از کم وہ اس مردے پر ڈال دی جائے!‘‘
طاقت کے دیوتا نے سینہ تانتے ہوئے کہا۔ ’’آپ لوگ بالکل فکر نہ کریں یہ لاش ابھی اٹھوا دی جائے گی۔‘‘ ابھی وہ اتنا ہی کہہ پایا تھا کہ دوسرا طاقت ور جو بہت دیر سے تاؤ کھا رہا تھا۔ غصے سے بھناتے ہوئے کہا۔ ’’تم کبھی نہ مجھ سے پہلے جیت سکے ہو اور نہ آئندہ جیت سکو گے کیونکہ میں تم سے اور تمہاری تمام مکاریوں سے واقف ہوں اور تم سے اچھی طرح نمٹنا بھی مجھے آتا ہے۔‘‘
’’تم ٹکر لینا چاہتے ہو؟‘‘ دوسرے طاقتور نے تضحیک آمیز مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
’’تم انسانیت کے دشمن ہو‘ قاتل ہو‘ لٹیرے ہو‘ ایمان فروش ہو‘ تمہارے پاس جو دولت کا انبار ہے‘ جانتا ہوں وہ کیسے اور کیوں ہے‘ تم اسمگلر ہو اور تمہارے اندر شیطان ہے جو تمہیں ہر لمحہ شیطانیت کی طرف ابھارتا رہتا ہے‘ تم ملک اور قوم کے غدار ہو۔‘‘ یہ لفظ اس نے پوری طاقت سے چلاتے ہوئے کہے۔
پھر دوسری طرف سے بھی اسی قسم کے راز منکشف ہونے لگے اور نوبت گالی گلوچ سے بڑھ کر دھکم دھکا تک اور ہاتھ گریبانوں تک پہنچے اور گریبانوں کی دھجیاں اڑنے لگیں‘ پھر دونوں طاقت کے دیوتا مع اپنے چیلوں کے گتھم گتھا ہو گئے اور ان کی آنکھوں سے نفرت‘ حقارت اور دشمنی کے بھیانک شعلے نکلنے لگے اور منہ سے ڈھیروں جھاگ اڑ اڑ کر ایک دوسرے کے چہروں پر بکھرنے لگا۔
اور منہ سے گز گز بھی کی زبانیں باہر نکل آئیں اور پھر ہر طرف چاقو‘ چھری‘ لاٹھی‘ پتھر چلنے لگے اور چلتے رہے‘ چلتے رہے لوگ گرنے لگے زخمی ہو ہو کر‘ مر مر کر‘ کٹ کٹ کر اور وہ لاش بھی اکیلی تھی پھر یوں اکیلی نہیں رہی۔
موذن جو مسجد کے کسی کونے میں خوف و دہشت سے سہما بیٹھا تھا‘ اذان کا وقت ہونے لگا تھا نہ چاہنے کے باوجود اپنی ڈیوٹی کی خاطر کونے سے باہر نکلا اور زمین سے آسمان تک پھیلتے برستے خون کو خوف زدہ نگاہوں سے دیکھتا آگے بڑھا۔
اور جونہی اس نے اذان کے لیے اپنا منہ کھولنا چاہا اس کا منہ تازہ تازہ انسانی خون سے اس طرح بھر گیا کہ وہ ایک لفظ بھی نہ بول سکا اور اس کا منہ کُھلا کا کُھلا رہ گیا اور جسم مٹی کا ڈھیر ہو گیا۔
انسانی لاشوں کا ڈھیر بڑھتا رہا‘نفرت کی آگ سلگتی رہی‘ پھیلتی رہی اور پھر جس کی لپیٹ میں سارا شہر تھا۔۔۔۔۔۔۔ طاقت کے دیوتا جانے کہاں چھپے اپنی اپنی فتح و کامرانی کی دعا مانگ رہے تھے اور سارا شہر نفرت کی آگ میں جل رہا تھا اور تب شہر میں ہر طرف انسانی خون سے ہولی کھیلی جا رہی تھی۔
آسمان حیران تھا‘ فرشتے پریشان تھے۔
زمین پر کہرام برپا تھا۔
اور تب شہر میں یوں لگتا تھا جیسے خدا اور انسان کے بیچ کوئی واسطہ نہیں اور کوئی ایسا وہاں نہیں جو طاقت کے بے رحم دیوتاؤں پر قابو پا سکے۔
ہاں۔ وہاں کوئی نہیں تھا۔ ہر طرف اندھیرا تھا اور وہ لاش تھی کہ جس کی آنکھیں کچھ اور کھل کر پھیل گئی تھیں اور جو ہزاروں لوگوں کا تازہ تازہ خون‘ شہر کی سب سے بڑی مسجد کے سامنے پہتا دیکھ رہی تھیں!
https://www.facebook.com/photo.php?fbid=1848782802034845&set=pcb.1848782812034844&type=3&theater
“