صبح ملت چوک فیملی مارٹ سامنے سے گُزر رہا تھا تو دیکھا کُچھ دہاڑی دار ٹائپ لوگ بند مارٹ سامنے کام کی تلاش میں بیٹھے تھے ۔
موبائل کال کے بہانے میں نے گاڑی سڑک سے اُتار کر دکان سامنے پارکنگ میں روکی اور نظر سے ایک صاحب کو لاک کیا ۔
کچھ پچاس سال اُن کی عمر ہو گی ۔ بڑی بڑی مُونچھیں بتا رہی تھیں کہ صاحب نے اچھے دن دیکھے اور زندگی اپنے ڈھنگ سے گُزاری ہوئی ہے ۔ سر پر پگڑی نما کپڑا ۔ متواتر استعمال سے گلی سڑی گندی قمیض اور پُرانی نامکمل سی دھوتی ۔ پاؤں میں پرانے ٹائرز کے بنے جوتے ۔ لال سُرخ آنکھیں جیسے بہت دن سے اچھے وقت کے انتظار میں جاگ رہے ہوں ۔ بلا کی حسرت اور کرب سے بھرا پچھلے پچاس پچپن برس کی داستان بیان کرتا چہرہ ۔
وہاں ایک ڈیڑھ منٹ رُک کر میں آگے چلا گیا ۔ دوپہر دو بجے واپسی پر پھر مارٹ سامنے سے گزرتے ہوئے ان صاحب کو ڈھونڈا ۔ اب وہ صاحب دکان کے کارنر پر لگے فون پول ساتھ دھوپ میں ٹیک لگا کر بیٹھے تھے ۔ میں نے سڑک پار سامنے فروٹ کی ریڑھی ساتھ گاڑی روکی اور دوبارہ کان ساتھ موبائیل لگا کر ان صاحب کو دیکھنے لگ گیا ۔
تقریبا تین چار منٹ میں وہاں رکا جس دوران وہ صاحب فون پول کے سہارے سے تین چار بار مُٹھیاں بھینچتے کھڑے ہوئے اور تین چار بار بیٹھے ۔ یوں جیسے اپنے آپ سے لڑ رہے ہوں ۔ اسی دوران میں اُن صاحب بارے سوچتا گھر واپس آ گیا ۔
میرے اندر کے تَجسس نے مجھے مجبور کیا تو ابھی نماز مغرب کے بعد میں نے گھر داری کا سامان خریدنے بہانے پھر فیملی مارٹ سامنے جا گاڑی پارک کی اور ان صاحب کو ڈھونڈنا شروع کر دیا ۔
اب کے وہ صاحب مُجھے مارٹ سامنے سڑک کے پار نیشنل بنک سامنے نظر آئے ۔ سر سے پگڑی نُما کپڑا اُتار ، تھیلے جیسا بنا کر ہاتھ میں پکڑا ہوا ۔
اندھیرا ہو رہا تھا ۔ دائیں بائیں کھڑے فروٹ کی ریڑھی والے اپنے خراب ہوتے فروٹ کی چھانٹی کرتے جو گندے پھل فٹ پاتھ کنارے سڑک پر پھینکتے وہ صاحب وہ اُٹھا کر کپڑے میں ڈال لیتے ۔
شاید ان کی بیٹی نے کہا ہو کہ ابو جی رات کام سے واپس آتے میرے لئیے فروٹ لیتے آنا ۔