لال سلام کامریڈ انتونیو گرامچی
آج کامریڈ انتونیو گرامچی کا 81واں یومِ وفات ہے ۔22جنوری1891 کو اٹلی کے ایک گاؤں ساردینیا میں پیدا ہونے والے کامریڈ گرامچی اٹلی کے مایہ ناز مارکسی فیلسوف اور انقلابی مساعی پسند تھے ۔ انھوں نے شدید جسمانی عوارض کے باوجود 46سالہ قابل رشک انقلابی زندگی گزاری ۔ان کا تعلق اطالوی کمیونسٹ پارٹی سے تھا ۔وہ محض ایک انقلابی دانشور ہی نہیں تھے بلکہ عملی طور پر محنت کشوں کی بستیوں میں انھیں منظم کرنے کے لیے موجود ہوتے تھے ۔گرامچی وہ پہلے انقلابی دانشور تھے جنھوں نے دیگر اطالوی انقلابیوں کے برعکس جنوری1921میں اٹلی میں رجعت پسند فاشست قوتوں کے متحد ومنظم ہونے کا ٹھوس تجزیہ پیش کیا تھا ۔ گرامچی نے اطالوی کمیونسٹ پارٹی کے مختلف گروہوں کو متحد کرنے اور دیگر جمہوریت پسند طاقتوں طاقتوں کے اشتراک وتعاون سے فاشزم کے خطرات کامقابلہ کرنے کے لیے کلیدی کردار ادا کیا ۔ اٹلی میں فاشزم کے اُبھار کے خلاف اس زبردست انقلابی مزاحمتی کردار نے اپنی زندگی کے آخری دس سال مسولینی کی کال کوٹھری میں گزارے اور27اپریل 1937 کو جس دن انھیں رہا کیا جانا تھا اسی دن جیل میں وفات پائی ۔
گرامچی نے کامریڈ لینن کی قیادت میں بالشویک پارٹی کے برپا کردہ عظیم اکتوبر انقلاب کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے کارل مارکس کے داس انقلاب کے برخلاف برپا پونے والا انقلاب قرار دیا تھا ۔ اس حوالے سے گرامچی 24نومبر1917کوروزنامہ اونتی میں ’داس کیپٹل کے خلاف انقلاب‘کے عنوان سے اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ ’’بالشویک انقلاب مارکس کے داس کیپٹل‘کے خلاف انقلاب کی حیثیت رکھتا ہے ۔ روس میں پرولتاری سے زیادہ بورژوا طبقہ داس کیپٹل سے متاثر تھا ۔ کیپٹل میں انتقادی نقطہ نظر سے یہ دکھایا گیا ہے کہ روس میں جبری احتیاج کے طور پر بورژوا طبقے کا قیام عمل میں آئے گا اور وہاں سرمایہ دارانہ نظام کی داغ بیل دالی جائے گی ۔ مغربی طرز کی جمہوریت وہاں فروغ پائے گی اور اس کے بعد ہی پرولتاریہ اپنی نجات ،اپنے طبقاتی مفادات ،اپنے انقلاب کے بارے میں فکر کر سکے گا ۔ لیکن واقعات نے اس ڈھانچے کو تار تار کر دیا جس کے چوکھٹے میں تاریخی مادیت پسندی کے مطابق روس میں واقعات ظہور پذیر ہونے چاہیے تھے ۔
بالشویکوں نے مارکس کی تردید کی ہے اور انھوں نے اپنے افعال ،اپنی کامرانیوں سے اس حقیقت کی تصدیق کر دی ہے کہ تاریخی مادیت کے قوانین اس سے زیادہ لچکدار ہیں جتنا کہ اب تک انھیں سمجھا جاتا رہا ہے ۔ اگر بالشویکوں نے داس کیپٹل کی چند پیش گوئیوں کی تردید کی ہے تو اس کے ساتھ ہی انھوں نے اس کے اُن عناصر سے انحراف نہیں کیا ہے جو اس میں زندہ اور مستقل عناصر کی حیثیت رکھتے ہیں ۔‘‘
کامریڈ انتونیوگرامچی تاریخ کی دھارا پرگہری نظر رکھتے تھے ۔ انھوں نے جنوری 1926میں اطالوی کمیونسٹ پارٹی کی کانگریس میں بائیں بازو کے انتہا پسندانہ اور انقلابی لفاظی کرنے والے رحجانات کے خلاف تقریر کرتے ہوے کہا تھا کہ ’’ کوئی بھی ملک ایسا نہیں ہے جہاں پرولتاریہ اپنے طور پر اقتدار حاصل کرنے اور اس پر قابض رہنے کی پوزیشن میں ہو ۔ چنانچہ اسے ہمیشہ اتحادیوں کی تلاش کرنی چاہیے ۔اسے ایسی پالیسی اپنانی چاہیے جس کے ذریعے وہ سبھی سرمایہ دار دشمن طبقات کی قیادت حاصل کر سکے ۔اٹلی میں اس سوال کو خاص اہمیت حاصل ہے کیونکہ وہاں پرولتاریہ طبقہ ایک اقلیت ہے ۔اور جہاں وہ جغرافیائی لحاظ سے اس طرح منتشر ہے کہ وہ اس وقت تک اقتدار کے لیے کامیاب جدوجہد کی رہنمائی نہیں کر سکتا جب تک وہ کسانوں کے طبقے سے اپنے تعلق کے مسئلے کوصریحاََ حل نہیں کر لیتا ۔‘‘
کامریڈ گرامچی کا انقلابی ورثہ ان کے گراں مایہ انقلابی تحریریں ہیں جو خود کو وقت کی آغوش میں زندہ ثابت کر رہی ہیں ۔انھوں نے16مئی1925کو اطالوی پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے فاشسٹ مسولینی سے مخاطب ہو کر کہا تھا کہ ’’ آپ حکومت پر قابض ہو سکتے ہیں ۔ آپ آئین میں تبدیلی کر سکتے ہیں ۔آپ تنظیموں کی ان صورتوں کو ختم کر سکتے ہیں جن میں وہ اب تک کام کرتی رہی ہیں لیکن آپ ان معروضی حالات پر حاوی نہیں ہو سکتے جو خود اپنے افعال کا تعین کر رہے ہیں ۔‘‘
کامریڈ انتونیو گرامچی کے یہ الفاظ نہ صرف اس وقت کے فاشسٹ اطالوی آمر بلکہ آج بھی طبقاتی اور قومی جبر کرنے والی سفاک قوتوں کے لیے نوشتہ ء دیوار ہیں ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔