اور بالآخر شیخ رشید ، ون مین آف عوامی لیگ کی اس برس مُلک میں تبدیلی کی پیش گوئی پوری ہو گئی ہے ۔ سیاسی نجومی کا اقبال بلند ہو کہ جنرل راحیل شریف اپنے عہدے سے سبکدوش ہوکر میڈیا کے قوالوں کی تالیوں کی گونج اور الوداعی ضیافتوں کے چٹخاروں کے درمیان رُخصت ہو رہے ہیں اور جنرل قمر جاوید باجوہ کی آمد آمد ہے ۔ اب اُن کی شان میں قصیدے ہوں گے اور اُن کے قصیدہ خوانوں کی گوشمالی بھی ۔
بوٹ پالش کا طعنہ دینے والے اپنی ڈفلی پر اپنا راگ بجائیں گے اور سول جمہوریئے اپنی توپیں چلائیں گے ۔ بہر حال خوب تماشا ہوگا کیونکہ جُگت بازوں اور زندگی کے بارے میں غیر سنجیدہ لوگوں سے اور توقع ہی کیا باندھی جا سکتی ہے ۔ کچھ لوگ اُن کو ملک کا نیا وزیرِ خارجہ قرار دیں گے تاہم یہ طے ہے کہ ضربِ عضب ایک نئے مرحلے میں داخل ہو جائے گی ۔ سبحان اللہ دنیا کی بہترین فوج کا میڈیا کا دیا ہوا تمغہ قوم کو مبارک ہو ۔
عوام کی حالت بدلے نہ بدلے ، ملکی قیادت میں تو ایک نیا چاند چہرا بادلوں کی اوٹ سے نکل کر جھلکا ۔ خاکیوں کے چاہِ نخشب سے قمر طلوع ہوا ۔ اب دیکھیں اس کی چاندنی ملک کے کتنے گھروں کو روشن کرتی ہے :
امیرِ شہر کو ضد ہے کہ شامِ غربت میں
غریبِ شہر کی کُٹیا میں چاندنی بھی نہ ہو
لیکن ایک سوال اور بھی ہے اور وہ یہ کہ اس ملک میں کل کتنے گھر ہیں؟ اعداد وشمار میں آنے والے گھر ۔
گھروں کی گنتی تو ایک سابق حکومت نے کر دی تھی ۔ خانہ شُماری کا مرحلہ طے ہوگیا تھا لیکن اس مُلک کی کل آبادی اس وقت ہے کتنی؟ کل کتنے نفوس ہیں جو قانونی طور پر پاکستانی ہیں اور کتنے نادرا ساختہ پاکستانی ہیں جنہوں نے پاکستان کی شہریت خریدی ہے ۔ وہ جن کی مٹی افغانستان ، ازبکستان ، تاجکستان ، چچینیا اور افریقہ سے لائی گئی ہے جن کی برکت و افراط سے پاکستانی معاشرہ ملٹی نیشنل ، ملٹی لنگول ، ملٹی سیکٹ یعنی کثیرالفرقہ ، جامع الجرائم اور مرکزِ دہشت گردی بن گیا ہے ۔
اس ملک کی تاریخ عجیب ہے کہ یہ ہمیشہ سے عوام کے بجائے یا تو فوج کا رہا ہے اور بین الاقوامی طاقتوں کی خدمات بجا لاتا رہا ہے۔ یا پھر چار جرنیلوں کی بنائی مسلم لیگوں کے جی ایچ کیو ساختہ سیاستدانوں کی بلا شرکتِ غیرے ملکیت ۔ بے چارے عوام تو پچھلے ستر برس میں ان طاقتوں کی استحصالی چیرہ دستی کا شکار رہے ہیں اور اس صورتِ حال نے جو قانون شکنی کی اعلیٰ ترین روایت سے مزین رہی ہے ، عوام کو ہمشہ پس منظر میں اور گھاٹے میں رکھا ہے ۔
قانون شکنی کی روایت اس ملک کی سیاسی روایت رہی ہے۔ اس ملک میں چار بار ملکی آئین توڑے گئے اور ہر بار عدلیہ کی رضامندی اور تعاون سے توڑے گئے ، جن پر پاکستان کے نامور چیف جسٹسوں کی مہرِ تصدیق ثبت رہی ہے ۔ ان لوگوں نے لا قانونیت کو قانونی جواز فراہم کرنے میں کبھی کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھی ۔ اور نظریہء ضروت جیسے نظریوں کو نظریہ ء پاکستان کے متبادل کے طور پر نہ صرف منظور کیا گیا بلکہ اُسے ہمیشہ کے لیے قانونی حیثیت دے دی کہ اس ملک میں نظریہ ء ضرورت کے تحت کرپشن کرو ، منی لانڈرنگ کرو ، آف شور کمپنیاں بنا کر اثاثے چھپاؤ ، ٹیکس چراؤ ، سب جائز ہے اور اس کا حاصل یہ ہے کہ ووٹوں کے لالچ میں لاقانونیت کی رویوڑیاں بانٹنا ملک کا غیر تحریری دستور بن کر رہ گیا ہے ۔
ہم نے اپنے ملک میں جعلی ڈگریوں کو رواج دیا جو میڈیا کے چینلوں سے اسمبلیوں کے ایوانوں تک کو سر بلند و سرفراز کر گئیں ۔ ہم نے ٹیکس چرانے ، اثاثے چھپانے ، بجلی کے میٹروں کو ریورس گیئر میں ڈال کر پیچھے کرنے ، نالائقوں اور پیشہ ور کرپٹوں کو اہم سرکاری عہدوں پر فائز کرنے کو رواج دیا اور ایسے دیا جیسے ہم نیکیوں کا دریا بہا رہے ہوں ۔ یہاں صاحبِ حیثیت مالدار جو " سب سے پہلے پاکستان" کا نعرہ لگانے میں شہرت رکھتا ہے ، بیمار ہو جائے تو سب سے پہلے پاکستان سے بھاگ کر یورپ کے ہسپتالوں میں سفید فام نرسوں کی گود میں جا بیٹھتا ہے ۔ جب کہ پاکستان کے ہسپتال بدانتظامی اور جعلی دوائیوں کے ڈپو بنے ہوئے ہیں ۔ اور کسی شخص کو خوف٘ خُدا نہیں ، جس کی وجہ سے یہاں قانون اور لاقانونیت کا فرق مٹ کر رہ گیا ہے ۔
یہاں تک کہ حلال و حرام کی تمیز تک نہیں رہی ۔ مسلمانوں نے ہی مسلمانوں کو اس ملک میں مردار اور گدھے کا گوشت کھلوایا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم سب لاقانونیت کے سفیر ہیں ۔ اور آج چنبہ ہائوس سے جس خاتون کی لاش برامد ہوئی ہے اس کے پیچھے بھی قانون کا قتل ہی کارفرما ہے اور یہ کہانی اگلی بار سہی ۔
http://www.karwan.no/column/38178/2016-11-27/ambassadors-of-lawlessness/
“