لاعلمی کی حیرت اور ستیہ جیت رے
میں اپنی رو میں بولے چلا جارہا تھا۔ خود ستیہ جیت رے کا کہنا ہے کہ آپو سیریز کو ایک تین قسط کی فلم کے طور پر انہوں نے کبھی نہیں سوچا تھا جب انہوں نے پہلی فلم ’’پتھر پنچلی‘‘ بنائی تو اس کی باکس آفس پر کامیابی اور نقادوں کے کامیاب تبصروں کی وجہ سے انہوں نے دوسری فلم ’’اپر جیتو‘‘ کی تخلیق کے بارے میں سوچا۔ بدقسمتی سے یہ فلم ہندوستان میں باکس آفس پر ناکام ہوگئی اور اس کی ناکامی نے ستیہ جیت رے کو اس حد تک مایوس کیا کہ انہیں کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اب آگے کیا کریں۔ اسی اثنا میں ’’اپرجیتو‘‘ کو وینس فلم فیسٹیول میں پہلا انعام مل گیا۔ اسی سلسلے میں منعقدہ ایک تقریب میں ستیہ جیت رے سے پوچھا گیا کہ اس سلسلے کی اب ایک اور فلم بنائی جائے گی؟ نامعلوم کیوں ستیہ جیت رے نے کہہ دیا کہ ہاں۔ اس وقت تک وہ خود بھی نہیں جانتے تھے کہ اسکرپٹ میں اتنی جان ہے یا نہیں کہ تیسری فلم بن سکے۔ مگر گھر آ کر جب انہوں نے ’’اپرجیتو‘‘ کا اسکرپٹ دوبارہ پڑھا توانہیں یقین تھا کہ وہ ’’اپُر سنسار‘‘ بنائیں گے۔
’’آپ لوگوں نے یقیناً یہ فلمیں دیکھ رکھی ہوں گی۔‘‘ میں یونیورسٹی کے جن طلبہ سے خطاب کر رہا تھا، پوچھا۔ مگر افسوس کہ سب کے چہروں پر ایک لاعلمی کی حیرت تھی۔ انہیں تو ستیہ جیت رے کا نام بھی معلوم نہیں تھا اور یہ سب جرنلزم اور فلم میکنگ کے طلبہ تھے۔ میں نے انہیں ستیہ جیت رے سے بے حد متاثر اورفلم ’’منڈی‘‘ کے ڈائریکٹر شیام بینگل کے بارے میں پوچھا وہ اس کے بارے میں بھی نہیں جانتے تھے۔
ان کی تمام تر نالائقی کے باوجود میں نے سوچا کہ انہیں ان دو عظیم فلم میکرز کے بارے میں کچھ تفصیل تو دینی ہی چاہئے۔ اس لئے کہ یہ ایسے عظیم لوگ ہیں کہ جنہوں نے نہ صرف برصغیر پاک و ہند بلکہ دنیا بھر میں ادب اور فلم کے طلبہ اور ناقدین کو بےحد متاثر کیا ہے۔
شیام بینگل اپنے اور ستیہ جیت رے کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’’وہ ایک عام سے طالبعلم تھے۔ لیکن فلموں میں میری دلچسپی عام طلبہ ا ور اپنے بھائی بہنوں کی نسبت کچھ زیادہ تھی۔ عرصہ دراز سے جب سے فلم نے لوگوں کے ذہنوں کوبے حد متاثر کرنا شروع کیا اور جب سے یہ ایک ایسا فن بنا کہ جس میں جغرافیہ، تاریخ، فلسفہ، ادب، موسیقی، مائی تھالوجی، فینٹسی سبھی شامل تھے، اس نے میری حیرت کی دنیا کو بھی بہت زیادہ متاثر کیا۔ اپنے بڑے ہونے پر میں نے بھی یہ فیصلہ کرلیا کہ مجھے اپنی حیرت کی دنیا کو پردہ اسکرین پر لانا ہے۔ اسی زمانے سے میں نے اچھی فلم اور بری فلم کی تخصیص کرنا شروع کردی تھی۔ اس کام میں مزید نکھار اس طرح آیا کہ میں نے وہ فلمیں جو مجھے پسند تھیں ان کے بارے میں یہ تحقیق شروع کی کہ وہ مجھے کیوں پسند ہیں۔ گویا ان کو تنقیدی اندازسے دیکھنا شروع کیا۔
اچھی فلموں کو شیام بینگل نے دوبارہ دیکھنے کے لئے الگ کرلیا۔ اس وقت زیادہ تر فلمیں انگریزی کی آتی تھیں۔ چند ایک میراٹھی کی فلمیں بھی تھیں لیکن زیادہ تر سینما انگریزی میں ملتا تھا۔ اس وقت شیام بینگل کے پسندیدہ ڈائریکٹر جان فورڈ، ولیم وائلر، جان ہیوسٹن وغیرہ تھے۔ ہندی فلموں میں انہوں نے محبوب، سہراب مودی، شانتا رام، فتح لال وغیرہ کی فلمیں دیکھ رکھی تھیں۔
پھر کالج کے زمانے میں انہیں کچھ یورپین سینما دیکھنے کا موقع ملا اور انہوں نے بائیسکل تھیوس، شوشاین، Miralce in Milan، Bitter Rice دیکھیں جنہوں نے انہیں حد درجہ متاثر کیا۔ اسی اثنا میں انہیں روسی ڈائریکٹر ڈون سنکی کی فلمیں جو میکسم گورکی کے ناولوں پر بنائی گئی تھیں، دیکھنےکو ملیں۔ پھر انہوں نے Battle star Potemkin اور Ivan the Terrible ایسے شاہکار دیکھے۔ ایک ہندی فلم جس نے انہیں متاثر کیا وہ بمل رائےکی ’’دو بیگھا زمین‘‘ تھی۔
اس وقت تک شیام بینگل نے ستیہ جیت رے کی کوئی فلم نہیں دیکھی تھی۔ لیکن ایک رشتہ دار کی دعوت پر کولکتہ کے سفر کے دوران انہیں ایک سینما میں ’’پتھر پنچلی‘‘ دیکھنے کو ملی۔ اس تجربے کو وہ بیان نہیں کرسکتے خود انہوں نے کہا جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ اس فلم نے ان کے دماغ کے پرخچے اڑا دیئے۔ یہ ہے فلم۔ انہوں نے باکس آفس کارخ کیا اور فلم کے دوسرے شو کے ٹکٹ خریدے۔ پھر تیسرے شو کے۔ اور تب انہیں معلوم ہوا کہ بہت کم اخراجات اور نامساعد حالات اور بڑے ایکٹروں کے بغیر بھی بڑی فلم بلکہ بہت بڑی فلم بنائی جاسکتی ہے۔
ان کے بقول اس ایک فلم سے ستیہ جیت رے نے بہت عرصے سے چھاپے پہ چھاپہ مار ہندی فلم انڈسٹری کو ہلا کر رکھ دیا۔ انہوں نے فلم کو بنائے گئے تمام فرسودہ اصولوں کو توڑ دیا۔ اب اسے کیا کہئے کہ اسی وقت یورپ فلم میکنگ کے حوالے سے ایک عجیب دور سے گزر رہا تھا۔ اس وقت ایک انقلاب کی سی صورتحال تھی۔یورپ میں اٹلی کے نیورئیلزم (Neorealism) فرانس کے Nouvelle Vague، انگلینڈ کے فری سینما اور سینٹرل اور ایسٹرن یورپ کی جنگ کے بعد کے دور کی فلمیں عام تھیں۔ ان تمام نے سینما کو ایک بہترین حیرت انگیز تجربہ بنا دیا تھا۔ لیکن ایسے میں ایک ہندوستانی کا ایک ایسی فلم بنانا اور وہ بھی ایسے میں کہ وہ ایک پروفیشنل فلم میکر نہیں بلکہ پہلی بار فلم بنانے والاڈائریکٹر تھا۔ حیران کن تجربہ تھا۔ اس فلم نے روایتی فلم کی زبان (Language) اور Idiom کو ماڈرن بنا دیا۔ اس فلم کے کردار اور لوکیشنز ایسی تھیں جیسی ہمارے اردگرد نظر آتی ہیں۔
میں یہ سب کیوں لکھ رہا ہوں۔ آئے دن بہت سے جغادری پروڈیوسر اور ایکٹر جن کا ہماری بوسیدہ، بدبودار فلم سے تعلق رہا ہے یہ درخواست کرتے رہتے ہیں کہ حکومت کو ان کی سرپرستی کرنی چاہئے۔ کیوں؟ وہ کیا بنانا چاہتے ہیں؟ کیا وہ دنیا جہان میں ہونے والے فلم کے تجربوں سے آگاہ ہیں؟ کیا وہ جانتے ہیں کہ شیام بینگل اور ستیہ جیت رے ایسے ڈائریکٹروں نے اپنی فلموں کے ذریعے عوام کی سوچ کو کس درجے متاثر کیا؟ کیا حکومت کو ایسی فلم بنانے والوں کی سرپرستی نہیں کرنی چاہئے؟ کیا فلم پڑھانے کے نام پر دھوکہ دینے والے اداروں پر پابندی نہیں لگ جانی چاہئے؟
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔