(Last Updated On: )
کرغزستان 🇰🇬 وسطی ایشیاء کی سابق سویت ریاست ہے جس کا دارالحکومت “بشکیک” ہے۔
اسے چین قزاقستان، ازبکستان اور تاجکستان کی سرحدیں چھوتی ہیں
نسلی اعتبار سے یہ منگول ہیں اولاد ہیں۔ یعنی ترک النسل۔
مذہبی لحاظ سے کرغزستان کی 90% آبادی مسلمان، 7% مسیحی اور 3% دیگر عقائد پر مشتمل ہے ۔
یہ ملک وسیع و عریض گھاس کے میدانوں اور سرسبز وادیوں پر مشتمل انتہائی خوبصورت ملک ہے اور لوگ بھی بہت خوبصورت ہیں اس ملک کے۔
کرغزوں کی ایک بڑی تعداد کاشتکاری، بھیڑیں بکریاں اور گھوڑے پالتی ہے۔
اور گھوڑے کا گوشت یہاں سرکاری سطح پے قومی ڈش ہے۔
۔
صدیاں گزر جانے کے باوجود بھی کرغزستان میں منگول دور کی کئی روایات اب بھی زندہ ہیں جن میں سب سے مکرو روایت اغواء برائے شادی یعنی Bride Kidnapping ہے۔جو کہ کرغزستان میں بڑے و مستقل معاشرتی مسائل میں سے ایک ہے۔
اس سب کو باقاعدہ ایک روایت کے تحت کیا جاتا ہے۔ جرم کے طور پر نہیں۔ اور قانون و پولیس بھی اس روایت کے آگے بہت حد تک بے بس ہیں۔
۔
تاریخ:
اس مکروہ روایت کی تاریخ صدیوں قبل کے منگول قبائل سے جا ملتی ہے جو شادی کی خاطر منظم طریقے سے دیگر قبیلوں سے تلوار کی نوک پر خوبصورت عورتوں کو اغواء کرکے اپنے ہاں لے آیا کرتے تھے اور ان سے شادی کرلیتے تھے۔
( ہندوستان میں پنڈاری قبائلیوں میں بھی کچھ ایسی روایات موجود تھیں)۔
مختصر جائزہ:
اغواء سے قبل دلہا و دوست لڑکی کے گھر اور معمولات کی نگرانی، ریکی کرتے ہیں۔
اغواء و شادی کا دن مقرر کیا جاتا ہے۔
دوسری طرف دولہا کے گھر شادی کی تیاریاں پوری کرلی جاتی ہیں۔ نکاح کے لیے بڑا خوبصورت سا یورٹ نما بڑا رنگین خیمہ لگایا جاتا ہے جس میں رنگین قالین و پردے ، آرام دہ نشستیں اور کھانے پینے ، مشروبات، مٹھائیوں کا انتظام پورا کرلیا جاتا ہے۔
پھر شادی سے ایک دن قبل دلہا و ساتھی لڑکی کو اغواء کرکے (کئی دفعہ گن پوائینٹ پے) چیختی چلاتی تکلیف میں تڑپتی لڑکی کو گاڑی میں ڈال کر اپنے ہاں لے آتے ہیں۔
گھر پہنچ کے اس دولہے کی مائیں، بہنیں اس مغوی لڑکی کو اس بات پے راضی کرنے اور منانے میں مصروف ہوجاتی ہیں کہ ان کے بیٹے، بھائی سے شادی کرنا اس کے لیے بہترین فیصلہ ثابت ہوگا۔
اکثریت واقعات میں لڑکی کے پاس سرے سے کوئی دوسرا راستہ یا چوائس ہی نہیں ہوتی۔
لڑکی کے سرنڈر کردینے کے بعد لڑکے کا پورا خاندان قافلے کی صورت میں لڑکی کے گھر جاتا ہے اور انہیں بتاتا ہے کہ جی آپ کی صاحبزادی ہمارے پاس ہے اور ہمارے بیٹے سے شادی کرنے کے لیے “رضامند” ہے۔
اب لڑکی والوں کے پاس تو سرے سے کوئی دیگر آپشن ہی نہیں ہوتا ماسوائے اس کے کہ وہ اس رشتے کے لیے مان جائیں۔
چنانچہ لڑکی والے۔ لڑکے والوں کے خاندان کو ایک اچھی سی دعوت دیتے ہیں اسی دن۔ جس میں انہیں پرتکلف کھانے کھلائے جاتے ہیں اور عمدہ مشروبات پیش کیے جاتے ہیں۔
اگلے روز باقاعدہ نکاح کی تقریب ہوتی ہے اور پورے دھوم دھام کے ساتھ شادی کی جاتی ہے جس میں دونوں خاندانوں کے لوگ شرکت کرتے ہیں۔
امام صاحب نکاح پڑھاتے ہیں۔
پھر روایتی میوزک، کھانے پینے اور شادی کی دیگر رسومات کی جاتی ہیں۔
اگلے دن یعنی ولیمہ کے دن بہت ہی پرتکلف انتظام ہوتا ہے کئی بھیڑیں بکریاں ذبح کی جاتی ہیں اور بہت سے لوگوں کو مدعو کیا جاتا ہے۔
۔
لیکن اسی روز لڑکی کے ساتھ ایک اور بھیانک نفسیاتی کھلواڑ ہوتا ہے “عزت” کے نام پر۔
وہ یہ کہ۔
روایات کے مطابق ۔
دولہا دلہن کے بستر پے شادی کے روز ہمیشہ نئی نکور صاف سفید چادر بچھاتے ہیں۔
اگلے روز ولیمہ کی جگہ پے وہ خون آلود چادر پورے اہتمام سے کسی تمغے کی طرح لٹکائی جاتی ہے۔
یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ شادی سے قبل ہماری بہو کنواری تھی۔
۔
ایک شخص جس سے اس لڑکی کو ایک زرہ برابر بھی محبت نہیں تھی۔اور شاید اسے جانتی بھی نہ تھی۔
پھر اس نے اغواء کرکے اپنے لیے شدید نفرت پیدا کردی۔
اور پھر ایسی شادی بھی بلامبالغہ #ریپ کے ذمرے میں آتی ہے کیونکہ خود ہی سوچیں دل دہلا دینے والی اغواء کی واردات کے محض چند گھنٹے بعد کیا لڑکی۔۔۔سکون، خوشی اور رغبت ، محبت کے ساتھ ازدواجی تعلقات کا آغاز کرسکے گی؟
ظاہر ہے وہ دلی طور پے بری طرح سے سہمی ہوئی ہے اور دماغی طور پے بری طرح سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔
ایسے میں اس کا خاوند چاہے بھی تو اسے چند دن نہیں دے سکتا اسے ایڈجسٹ کرنے میں کیونکہ اسے اگلی صبح “خون کی نمائش” کرنی ہوتی ہے۔
۔
کرغزستان میں ہر سال ایسے سینکڑوں واقعات ریکارڈ ہوتے ہیں۔
سرکاری سطح پے یہ روایت غیر قانونی اور جرم تصور کی جاتی ہے تاہم حکومت و پولیس میں بھی ایک بڑی تعداد میں لوگ اس مکروہ روایت کے حامی ہیں اس لیے تاحال اس کے سدباب کے لیے کوئی سنجیدہ و کارگر کوشش نہیں کی جاسکی۔
بڑے شہروں میں ایسے واقعات کم ہیں تاہم دیہاتوں و قصبوں میں ایسے کئی واقعات مسلسل وقوع پذیر ہورہے ہیں۔
۔
جبری شادی کے ایسے تقریبا سبھی واقعات میں لڑکی عمر بھر کے لیے دماغی و نفسیاتی امراض کا شکار ہوجاتی ہے اور کئی مرتبہ اس روایت کا انجام خودکشی کی صورت میں نکلتا ہے۔
۔
تبصرہ:
میرے نزدیک اس غیر انسانی روایت کے چلتے رہنے میں حکومت کے ساتھ ساتھ ایک بڑا کردار ایسی لڑکیوں کے والدین اور خاندان کا بھی ہے جو بغیر کسی مزاحمت کے اکثر و بیشتر اپنی بیٹی کا ہاتھ اغواءکار کو تھمانے پر رضامند ہوجاتے ہیں۔
حالانکہ ہونا تو یوں چاہیے کہ جب اغواءکار اپنے دوستوں کی مدد سے لڑکیوں کو اغواء کرتے ہیں تو لڑکیوں کے خاندان کو بھی اپنی برادری، رشتے داروں دوستوں کی مدد سے ان پر سخت مزاحمت کرنی چاہیے اور بعد از اغواء رشتے کے لیے آنے والے، اغواکار کے خاندان کو اپنے گھر تب تک سختی سے یرغمال بنا لینا چاہیے کہ جب تک ان کی بیٹی کی فوری و محفوظ واپسی یقینی نہ بنا لیا جائے۔ یا پھر ان کو پیش کردہ کھانے میں زہر ملا کر اغواکار کے والدین و پورے خاندان کو ٹھوک دینا چاہیے۔۔۔۔ایسے کچھ مزاحمتی واقعات رونما ہوجائیں گے تو یقینا یہ روایت اپنی موت آپ مر جائے گی!
سورس: وائس نیوز ڈاکومینٹری “Bride kidnapping in Kyrgyzstan “