عام خیال کے مطابق جو سیارہ سورج کے سب سے قریب ہو وہی سب سے گرم ہونا چاہیے تاہم ایسا نہیں ہے۔ نظامِ شمسی کا سب گرم سیارہ عطارد نہیں جو کہ سورج کے قریب ہے بلکہ یہ اعزاز نظامِ شمسی کے سورج سے قریب دوسرے سیارے زہرہ یعنی وینس کو جاتا ہے۔
عطارد پر دن کے وقت کا اوسط درجہ حرارت 430 ڈگری سینٹی گریڈ تک چلا جاتا ہے جبکہ اسکے مقابلے میں زہرہ پر دن کے وقت درجہ حرارت 460 ڈگری تک جانا معمول کی بات ہے۔ مگر ایسا کیوں ہے؟
یہ جاننے کے لیے ہم پہلے یہ جانتے ہیں کہ زمین پر درجہ حرارت معتدل کیونکر ہیں کہ اس سیارے پر زندگی پنپتی ہے؟
سورج کی روشنی جب زمین پر پڑتی یے تو یہ زمین کی فضا اور زمین کی سطح میں جذب ہوتی ہے۔ جیسے جیسے دن گزرتا ہے اور سورج ڈھلنے لگتا ہے، زمین میں جذب ہوئی توانائی حرارت کی صورت دوبارہ خارج ہوتی ہے۔ حرارت کی صورت یہ توانائی جب زمین کی فضا سے گزرتی ہے تو فضا میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ، پانی کے بخارات اور دیگر گیسیں جنہیں ہم مجموعی طور پر گرین ہاؤس گیسیز کہتے ہیں ، اس حرارت کے کچھ حصے کو جذب کرتی ہیں۔ یوں زمین پر درجہ حرارت رات کے وقت نہایت سرد ہونے کی بجائے معتدل رہتا ہے۔
اگر زمین کی فضا میں گرین ہاؤس گیسیں نہ ہوتیں تو رات کے وقت زمین پر درجہ حرارت منفی 190 ڈگری سینٹی گریڈ تک چلا جاتا۔ اور اگر زمین کی فضا میں گرین ہاؤس گیسیں نہ ہوتی تو یہاں دن کا درجہ حرارت بھی منفی میں ہی رہتا۔
تاہم فضا میں گرین ہاؤس گیسوں کی معتدل مقدار ہونا ضروری ہے۔ اگر انکی مقدار کم ہو جائے تو زمین ٹھنڈی ہو جائے گی اور اگر بہت بڑھ جائے تو زمین نہایت گرم۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے ترقیافتہ اور صنعتی دور میں گاڑیوں، انڈسٹری اور گوشت کی صنعت سے فضا میں گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج بڑھ رہا ہے جسکے باعث زمین پر ماحولیاتی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور زمین پر موسموں میں شدت آ رہی ہے۔ گویا ہم یہ جانتے ہیں کہ کسی سیارے کی فضا میں گرین ہاؤس گیسوں کے اضافے سے وہاں درجہ حرارت بڑھ سکتا ہے کیونکہ یہ گیسیں سورج کی توانائی کو جذب کر کے ایک طرح سے سٹور کرتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ سیارہ زہرہ نظامِ شمسی کا دہکتا سیارہ ہے کیونکہ اسکی فضا نہایت کثیف ہے اور اس میں کاربن ڈائی آکسائیڈ جو ایک گرین ہاؤس گیس ہے، 95 فیصد ہے۔ تقابل میں زمین کی فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر گرین ہاؤس گیسوں (پانی کے بخارات کو چھوڑ کر) کا تناسب 0.04 فیصد ہے تاہم یہ مقدار زمین پر درجہ حرارت کی تبدیلی کے لحاظ سے بے حد معنی رکھتی ہے۔ اس سے اندازہ لگائیے کہ زہرہ جہاں کی فضا میں 95 فیصد کاربن ڈائی آکسائیڈ ہے وہاں دن کے وقت درجہ حرارت کا 460 ڈگری تک چلے جانا کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ اسکے علاوہ ایک اور وجہ جس سے زہرہ جہنم ہے وہ ہے اس سیارے کی اپنے محور پر سست روی سے گردش ہے۔ زمین اپنے محور پر قریب 24 گھنٹے میں گھومتی ہے جسکے باعث زمین پر سورج کی روشنی کا دورانیہ قطبین کے علاقوں کو چھوڑ کر سال بہ سال اوسطاً تقریباً 12 گھنٹے کا ہوتا ہے۔ تاہم زہرہ اپنے محور پر 243 زمینی دنوں میں ایک چکر مکمل کرتا ہے جسکے باعث زہرہ کی ایک سائیڈ پر 121.5 دن سورج کی روشنی پڑتی ہے۔ یہ تمام عوامل زہرہ کو جہنم بناتے ہیں۔
مگر کیا اس جہنم جیسے سیارے پر زندگی ممکن ہے؟
2020 میں امریکہ کے ریاستی جزیرے “ہوائی” پر نصب ریڈیو ٹیلیسکوپ سے سیارہ زہرہ کی فضا کابغور مشاہدہ کیا گیا اور اس سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کو جانچا گیا۔ ڈیٹا جانچنے والی ٹیم برطانیہ کی ویلز یونیورسٹی کے کچھ سائنسدان تھے۔ اس ڈیٹا سے سائنسدان اس نتیجے پر پہنچے کہ زہرہ کی فضا کے بادلوں میں ایک خاص گیس موجود ہے جسے فاسفین کہتے ہیں۔ فاسفین ایک فاسفورس اور تین ہائڈروجن کے ایٹموں کے ملاپ سے بنتی ہے۔ مگر اس گیس میں کیا خاص بات ہے؟
زمین پر یہ گیس وہ مائیکروب پیدا کرتے ہیں جو ایسی جگہوں پر ہوں جہاں آکسیجن نہایت کم ہو۔ گو فاسفین گیس قدرتی طور پر بھی پیدا ہو سکتی ہے جس میں فاسفورس سے بھری چٹانیں، پانی اور تیزابی ماحول میں گھلیں تاہم اسکے امکانات زہرہ جیسے سیارے پر کم ہیں۔ جب سائنسدانوں نے اس ڈیٹا سے یہ نتیجہ نکالا کہ فاسفین زہرہ کی فضا میں موجود ہے تو دنیا بھر کی سائنس کمیونیٹی میں دلچسپی، حیرت اور تشکیک بڑھ گئی۔ یہ غیر متوقع نتیجہ تھا۔ اس پر مزید ڈیٹا درکار تھا اور اسے کنفرم کرنا ضروری تھا۔ اس حوالے سے اگلے 3 سالوں میں دنیا بھر کے سائنسدان مختلف طریقوں سے زہرہ کی فضا میں فاسفین کے ہونے یا نہ ہونے کے ثبوت اکھٹے کرتے رہے۔ یہاں یہ بات ذہن نشین کرنے کی ہے کہ زہرہ کی فضا کا زمین سے کیا گیا مشاہدہ اور اس میں ایک خاص گیس کی معمولی مقدار کو تلاش نہایت پیچیدہ عمل ہے اور اس میں غلطی کی گنجائش بہرحال موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نتیجے کے بعد سائنسدان اسے دوسرے طریقوں سے کنفرن کرنے میں لگ گئے کہ یہی سائنس کی اصل خوبصورتی ہے۔
2022 میں ناسا کی SOFIA ٹیلسکوپ جو دراصل ایک بوئنگ 747 جہاز میں نصب ہے اور زمین کی اوپری فضا میں جا کر نظامِ شمسی کے دیگر سیاروں کا مشاہدہ کرتی ہے تاکہ بہتر ڈیٹا اکھٹا کیا جا سکے، نے سیارہ زہرہ کا مشاہدہ کیا اور یہاں فاسفین گیس کے نہ ہونے کا عندیہ دیا۔
تاہم یہ بحث سائنسی حلقوں میں جاری ہے کہ آیا زہرہ پر فاسفین ہو سکتی ہے یا نہیں اور کیا یہ فاسفین وہاں کی فضا کے ننھے قطروں میں موجود ممکنہ طور پر زندگی کی سادہ شکل جیسے کی مائیکروب وغیرہ سے خارج ہو رہی ہے؟ اس حوالے سے حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا تاقتیکہ زہرہ کی فضا کے مشاہدے کے لیے وہاں مشنز بھیجے جائیں۔
اس حوالے سے اس دہائی کے تین مشن اہم ہیں جو ہمیں یہ جواب دے سکتے ہیں کہ آیا زہرہ کی فضا میں زندگی ہے یا نہیں۔
پہلا بھارت کا شکریان-1 جو 2024 میں زہرہ کی طرف بھیجا جائے گا۔ اس مشن کا ایک حصہ آربیٹر پر مشتمل ہو گا جو زہرہ کے گرد گھومے گا اور اسکی فضا کا تفصیلی جائزہ لے گا۔ مشن کا دوسرا حصہ ایک غبارہ ہو گا جس پر کئی سائنسی آلات نصب ہونگے۔ یہ غبارہ زہرہ کی فضا میں رہے گا اور اس میں زندگی کی تلاش کرے گا۔
دوسرا اہم مشن ایک پرائیویٹ کمپنی راکٹ لیب کا ہے جو 2025 میں زہرہ کی طرف بھیجا جائے گا جو اسکی فضا میں جا کر اسکا جائزہ لے گا۔
تیسرا مشن چین کاVOICE ہے جو 2026 میں یہاں بھیجا جائے گا جبکہ چوتھا اہم مشن ناسا کا DAVINCI ہے جو زہرہ کے مشاہدے کے لیے2028 میں بھیجا جائے گا۔
ان تمام مشنز سے حاصل ہونے والا ڈیٹا ہمیں یہ حتمی طور بتا سکے گا کہ زہرہ پر زندگی ہے یا نہیں اور یوں شاید ہمیں اکیسویں صدی کے سب سے اہم سوالوں کے جواب مل سکیں کہ کیا کائنات میں ہم اکیلے ہیں؟ اور کیا زندگی زمین کے علاوہ بھی کہیں موجود ہے؟
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...