زمین کا بائیوسفئیر پیچیدہ ترین نظاموں میں سے ہے جن کا سامنا ہمیں کرنا پڑا ہے۔ زمین کی ایکولوجی کی سائنس ابھی نئی ہے اور ابتدا میں ہے۔ اس لئے یہ حیرت کی بات نہیں کہ دیانتدار ماہرین بھی اس بارے میں کچھ فیکٹس پر متفق نہیں۔ لیکن اصل اور گہرا اختلاف اقدار کا ہے۔ جب ہم اقدار کے بارے میں اپنی پوزیشن کے بارے میں خود واضح نہیں ہوتے تو کوئی بھی مفید مکالمہ نہیں کر پاتے۔ دوسروں کو اور خود اپنے آپ کو بھی نہیں سمجھ سکتے۔ اقدار کی کسی بھی بحث سے پہلے اقدار کو پہچان لینا ضروری ہے۔ پلانیٹری ایکولوجی کے بارے میں آراء کو (ضرورت سے زیادہ) سادہ کر کے ان کا خلاصہ کیا جائے تو ایک سائیڈ نیچرلسٹ کی ہے۔
اس مکتبہ فکر کے مطابق، قدرت کو سب پتا ہے۔ انسان سب خراب کر دیتے ہیں۔ اس فکر کی اعلیٰ ترین قدر یہ ہے کہ انسان اپنے ہاتھ قدرت کے کاموں سے ہٹا لیں۔ اس میں مداخلت بند کر دیں۔ قدرتی ماحول میں کوئی بھی انسانی تبدیلی ایک برائی ہے۔ تیل سے توانائی حاصل کرنا بُرائی ہے۔ یہاں تک کہ قدرتی صحرا، خواہ صحارا کے ہوں یا سمندر کے، انکو ایسے ایکوسسٹم میں بدلنے کی سوچ جس میں زرافے اور ٹیونا مچھلیاں پھل پھول سکیں، یہ بھی برائی ہے۔ کیونکہ قدرت کو ہی سب پتا ہے۔ ہم اس کو جب بہتر کرنے کی کوشش بھی کریں تو مزید مصیبت مول لیں گے۔ سب کچھ اور خراب کر دیں گے۔ یہ نکتہ نظر بے وزن نہیں۔
ماحول کے لئے کام کرنے والی کئی بڑی تنظیمیں، بہت سے ایکٹیوسٹ، آرگینک اشیاء پر بضد صارف، دیسی مرغی پر اصرار کرنے والے، زرعی ٹیکنالوجی کو مشکوک نظروں سے دیکھنے والے اس مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ کسی چیز کے برا ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ یہ قدرتی نہیں۔
اس کے مقابلے میں اقدار کا ایک اور مکتبہ فکر ہے۔ اس کی بنیاد اس پر ہے کہ انسان بھی اسی قدرت کا ضروری حصہ ہے، الگ نہیں۔ اپنے ذہنوں کی وجہ سے اس نے صلاحیت حاصل کی ہے اور اس کی تقدیر اپنے ہاتھ میں لی ہے۔ اس کی وجہ سے انسانوں کا حق بھی ہے اور فرض بھی کہ وہ ماحول کی تشکیل ایسے کریں کہ انسان اور یہ مکمل بائیوسفئیر زندہ رہ سکیں اور پروان چڑھ سکیں۔ اس فکر کی اعلیٰ ترین قدر انسانوں اور قدرت کی ہم آہنگی ہے۔ جبکہ بیماری، غربت، بے روزگاری، بھوک، وہ حالات جو لوگوں سے مواقع مسدود کر دیں اور آزادی چھین لیں، برائیاں ہیں۔ زرعی انقلاب ہو یا صنعتی، ان بڑی تبدیلیوں نے ان برائیوں کو ختم کرنے میں مدد کی ہے۔ سیارے کے ارتقا کو ذمہ داری سے آگے گائیڈ کرنا خود ان برائیوں کو ختم کرنے کے لئے ناگزیر ہے۔
اقدار کا یہ بنیادی فرق عالمی معاہدوں اور عملی اقدام میں بھی رکاوٹ بن رہا ہے لیکن ان دونوں اقدار کے درمیان ایک بڑا تنازعہ اس وقت جینیاتی انجیرنگ کی ریگولیشن کا ہے۔ نیچرلسٹ قدر رکھنے والوں کے مطابق جینیاتی طور پر تبدیل شدہ خوراک ہو یا کوئی بھی جینیاتی انجینرنگ کا پراجیکٹ، برا اس لئے ہے کہ یہ قدرتی نظام میں خلل ڈالتا ہے۔ جبکہ اس کے مخالفین کے خیال میں جینیاتی انجینرنگ سے حاصل ہونے والے فوائد غربت اور بھوک کو ختم کر سکتے ہیں اور ساتھ ساتھ وہ ٹُول بھی دے سکتے ہیں جو کاربن ڈائی آکسائیڈ کے بڑھنے کو بھی قابو کر سکیں۔
انسان نے اپنی لاعلمی سے ماحول کو خود اپنے لئے اور اس پورے بائئیوسفئیر کو نقصان پہنچایا ہے اور یہ جاری ہے۔ مجموعی رویے میں تبدیلی کرنے کی ضرورت فوری اور انتہائی ضروری ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں۔ لیکن اس کا ایک اور رخ بھی ہے۔ اس کے لئے برطانیہ کے جزیرے کی مثال دیکھی جا سکتی ہے۔ انسان کی آمد سے پہلے یہ بہت بڑی بورنگ جگہ تھی۔ بغیر تنوع کے بالکل یکساں جنگل۔ آج کا برطانیہ زبردست خوبصورتی اور متنوع ایکولوجی رکھتا ہے۔ یہ سب انسانوں کی بنائی ہوئی ہے۔ اس میں جنگل بھی ہے، چراگاہیں بھی، میدان بھی، بیابان بھی، کھیت اور کھلیان بھی۔ اس میں پودوں اور جانوروں کا پہلے سے بہت زیادہ تنوع موجود ہے، جو انسان کی آمد سے قبل نہ تھا۔ اور پھر صرف ایک ہزار سال پہلے انسان یہاں پر خرگوشوں کو لے کر آئے جنہوں نے اس زمین کا نقشہ ہی بدل دیا۔ انہوں نے وہ جگہیں کھولیں جہاں پھولدار پودوں نے قبضہ جمایا۔ برطانیہ میں جگہ زیادہ نہیں ہے لیکن جنگلی پھول اور پرندے، تتلیاں، ہر طرح کا لینڈسکیپ اور ساتھ ہی بہت سے انسان۔ الگ جزیرے میں ان میں سے کچھ بھی نہ ہوتا۔ جسے برطانیہ پر آج قدرتی سمجھا جاتا ہے، وہ اتنا قدرتی نہیں۔ کیا برطانیہ انسانوں سے پہلے بہتر تھا یا ان کے بعد؟ اس کی جانچ کا کوئی معروضی پیمانہ نہیں۔
اس گُندھے ہوئے قدرتی نظام میں شہد کی مکھی کی سپیشلائزیشن زرِ گل بکھیرنا ہے۔ ہاتھی کی گوڈی کر کے زمین زرخیز کرنا اور بیج بکھیرنا، شیر اور شارک کی انواع کی تعداد قابو میں رکھنا، درخت کی شمسی توانائی کو کیمیائی توانائی میں بدلنا۔ (ان کو ایکسٹنڈڈ فینو ٹائپ کہا جاتا ہے)۔ اس میں انسان کی سپیشلائزشن عقل ہے۔ اس بائیوسفئیر کی تشکیل میں ہر ایک کا اپنا بڑا حصہ رہا ہے۔ عقل کی صلاحیت سے دو الگ چیزیں پھوٹتی ہیں۔ علم اور انتخاب۔ بائیوسفئیر پر انسان کا تیزی سے بڑھا اثر ان دونوں کی اہمیت بھی تیزی سے بڑھا رہا ہے۔ کسی کی اقدار کچھ بھی ہوں، اس پر اختلاف شاید کسی کو نہیں ہو گا۔
ہم اپنی تاریخ میں ٹیکنالوجی کے ذریعے دنیا بدلتے آئے ہیں۔ یہ ٹیکنالوجی دو طرح کی رہی ہے۔ سبز اور گرے۔ سبز ٹیکنالوجی میں بیج اور پودے ہیں، باغ اور کھیت، گھوڑے اور بکریاں، دودھ اور پنیر، شہد اور ریشم، چمڑا اور اون، دیہی کمیونیٹی۔ گرے ٹیکنالوجی میں کانسی اور سٹیل، نیزے اور بندوقیں، کوئلہ، تیل اور بجلی، گاڑیاں، جہاز اور راکٹ، ٹیلیفون اور کمپیوٹر، بیوروکریسی۔
دس ہزار سال قبل تہذیب کے آغاز میں سبز ٹیکنالوجی تھی۔ پھر تین ہزار سال پہلے گرے ٹیکنالوجی نمایاں ہونا شروع ہوئی۔ کان کنی، دھات سازی اور مشینری کی مدد سے۔ اور پچھلے پانچ سو سال میں گرے ٹیکنالوجی سرپٹ بھاگ رہی ہے اور اس نے جدید دنیا کو جنم دیا ہے، جس میں شہر، فیکٹریاں اور سپرمارکیٹس ہیں۔
پچھلے پچاس سال میں ہم جاندار خلیوں کی تہہ تک پہنچ رہے ہیں۔ جب ہم سمجھ جاتے ہیں تو اس سے فائدہ اٹھانے اور کنٹرول کرنے کی اہلیت حاصل کر سکتے ہیں۔ جدید بایئولوجی سے حاصل کردہ علم سے جدید بائیوٹیکنالوجی بڑھ رہی ہے۔ یہ نئی سبز ٹیکنالوجی ہمیں پاور دے سکتی ہے جس میں توانائی کا ذریعہ صرف سورج ہو۔ پانی، مٹی اور ہوا میٹیریل کے ذرائع ہوں۔ اور ان کی مدد سے ہر طرح کے کیمیکل کو تیار اور ری سائیکل کیا جا سکے۔ یہ گرے سے سبز کی طرف کا سفر ہو گا۔ مشینوں اور کمپیوٹروں کی گرے ٹیکنالوجی غائب نہیں ہو جائے گی لیکن سبز ٹیکنالوجی کے بھاگنے کی رفتار گرے سے تیز ہو جائے گی۔ یہ سبز ٹیکنالوجی زیادہ صاف، زیادہ لچکدار ہو گی اور فاضل مادوں کے اخراج میں موجودہ کیمیکل انڈسٹریز سے بہت بہتر ہو گی۔ بہت سی چیزیں بنانے کے بجائے اگائی جا سکیں گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر ہم آج کی دنیا دیکھیں تو آبادی کا سفر گاوٗں سے شہر کی طرف ہے۔ غربت کے بدترین مناظر شہر میں نظر آتے ہیں لیکن اس کی اصل جڑ گاوٗں ہیں جہاں پر روزگار کے مواقع نہ ہونے کی سبب لوگ رہنا نہیں چاہتے۔ اگر ٹیکنالوجی اس کھیل کو پلٹا دے تو یہ سفر رک جائے گا۔ ہم کوئی بھی ہوں، جس بھی سوچ و فکر سے تعلق رکھتے ہوں، غربت کے بدترین اثرات ختم کرنے کی کوششوں پر کسی کا کوئی اختلاف نہیں۔ سبز مستقبل اس کیلئے ایک موقع ہے۔ دنیا کے غریب ترین ممالک اور غریب ترین لوگ ان جگہوں پر بستے ہیں جہاں دھوپ وافر مقدار میں ہے۔ سبز ٹیکنالوجی ان تک وہ معاشی مواقع لے جا سکتی ہے جو ابھی میسر نہیں۔
لیکن “ہو سکتا ہے” اور “ہو گا” ہم معنی نہیں۔ اچھے مستقبل کیلئے نہ صرف نئی ٹیکنالوجی چاہیے بلکہ سیاسی اور معاشی حالات بھی تا کہ لوگ ان تک رسائی حاصل کر سکیں، عوامی اتفاقِ رائے بن سکے، اخلاقی حدود طے کی جا سکیں۔ نہ ہی یہ کام صرف ٹیکنالوجی کی مدد سے کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی سیاسی اور اخلاقی لیڈر کر سکتے ہیں۔ جس طرح گرے ٹیکنالوجی میں تاریک شیڈ ہیں، ویسے ہی سبز ٹیکنالوجی میں بھی۔ گرے ٹیکنالوجی ٹیلی فون بھی لے کر آتی ہے اور ہائیڈروجن بم بھی۔ سبز ٹیکنالوجی میں اینٹی بائیوٹکس بھی ہیں اور اینتھراکس بم بھی۔ لیکن مسئلہ صرف ہتھیاروں کا نہیں۔ اس کی تاریک سائیڈ زیادہ گہری ہو سکتی ہے۔ یہ جینیاتی انجنیرنگ سے انسانوں کو بدل سکتی ہے۔ انسانی جینز کی فری مارکیٹ بنا سکتی ہے۔ امیر والدین اپنے بچوں کے لئے “اچھا جینیاتی مواد” خرید سکتے ہیں۔ چند ہی نسلوں میں طبقاتی فرق بائیولوجیکل فرق میں ڈھل کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مستقل ہو سکتا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو انسانی معاشرہ غلاموں اور آقاوٗں کی تقسیم میں بٹ کر تنزلی کے ناقابلِ واپسی راہ کی طرف جا سکتا ہے۔ ہم آزاد مارکیٹ کی اکانومی کے جتنی مرضی حق میں ہوں، اس سے اتفاق کرتے ہیں کہ ہر چیز بِکنے کے لئے نہیں ہوتی۔
ہم یہ لکیر پہلے بھی لگا چکے ہیں، جب غلامی کا ادارہ ختم ہوا تھا۔ انسانوں کی تجارت کی منڈی ختم کر کے ہم نے غلاموں کے مالکوں سے ان کے مالکانہ حقوق چھین لئے تھے۔ ہم سب نے ملکر فیصلہ کیا تھا کہ انسانی جسم آزاد منڈیوں میں نہیں بک سکتا۔ یہ سرخ لکیر عبور نہیں کی جائے گی۔ ہم سب متفق ہیں کہ اس اتفاقِ رائے کے بعد دنیا ایک بہتر جگہ ہے۔ انسانی جین کے بارے میں بھی اسی طرح کے فیصلے لئے جانے ہیں۔ سائنسدان، مذہبی راہنما، ڈاکٹر، قانون دان، ان سب کو ملکر اکٹھا ہونا ہے اور ایک دوسرے کے احترام کے ساتھ اتفاقِ رائے بنانا ہے کہ جینیاتی ٹیکنالوجی کی سرخ لکیریں کہاں پر کھینچنی ہیں۔
ہر ٹیکنالوجی کی طرح بائیوٹیکنالوجی ایک ٹول ہے۔ اس کو اچھے مقاصد کے لئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے اور برے کیلئے بھی۔ اگر ہم اس کے برے پہلو سے محفوظ رہ سکیں تو اگلی صدی میں دو بہت زبردست چیزیں ممکن ہیں۔ میڈیسن میں ترقی کی وجہ سے انسانی تکلیف و مصائب میں کمی اور دوسرا عالمی طور پر امیر اور غریب میں فرق کی کمی۔ دو خطرات ہیں۔ انسانی جین کی تجارت اور حیاتیاتی ہتھیار۔ ایسی کوئی وجہ نہیں کہ اس کے برے پہلو سے بچتے ہوئے اس سے فوائد لئے جا سکیں۔ یہاں پر رکاوٹیں ٹیکنیکل نہیں ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بدقسمتی یہ ہے کہ دنیا کے اکشر ممالک میں لوگوں کی بڑی تعداد سبز ٹیکنالوجی سے خائف ہے۔ اور جن وجوہات کی بنا پر ہے، ان کا اس کے اصل خطرات سے کوئی تعلق نہیں۔ اس لئے یہ اہم ہے کہ اس ٹیکنالوجی کے مخالفین سے احترام سے بات کی جائے۔ ان کو خوف کو توجہ دی جائے اور سبز ٹیکنالوجی کی دنیا میں احتیاط سے چلا جائے تا کہ انسانی وقار مجروح نہ ہو۔ اگر اس میں اس کو مدِنظر نہ رکھا گیا تو مخالفین کے موقف سخت ہوتے جائیں گے۔ ایک بار یہ ہو جائے تو پھر دلائل کی اہمیت صفر ہو جاتی ہے۔
اگر سبز ٹیکنالوجی کو احتیاط سے آگے بڑھایا جا سکتا ہے تو ہم اس چیز کا اچھا امکان ہے کہ اگلے سو سالوں میں نہ صرف ماحولیاتی پائیداری آ سکے گی، بلکہ ساتھ ہی ساتھ سماجی انصاف بھی۔ فضا میں بڑھتی کاربن کے مسئلے کو بھی اپنے فائدے میں بدلا جا سکتا ہے۔ اس سے زمین کو زرخیز بنایا جا سکتا ہے، صحراوٗں کو سرسبز کیا جا سکتا ہے۔ یہ کاربن ان کی جڑوں میں بدل سکتا ہے، مٹی کی زرخیزی میں ڈھل سکتا ہے۔ بسنے کی نئی جگہیں کھل سکتی ہیں۔ باغ، کھیت، دیہات، بیلیں، درخت، جانور، دھوپ اور ہوا۔ ان سب سے دودھ اور شہد، پنیر اور اچار، میوے اور گوشت، کپاس اور چمڑے کی فروانی ہی نہیں، بہت کچھ اور بھی کیا جا سکتا ہے۔
کیا مستقبل سبز ہے؟ اس کا انحصار اس سے ہے کہ اس کو ہم کس طرح رنگنے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ اس کتاب سے
Disturbing the Universe