زمین پر ہر روز زلزلے آتے ہیں۔ مگر ان میں شدید نوعیت کے زلزلے جن سے انسانی آبادی کو نقصان پہنچے سالوں کے دورانیے سے آتے ہیں۔ مگر کیا ہم کسی بڑے زلزلے کے بارے میں بروقت معلوم کر سکتے ہیں؟ اسکا سادہ جواب ہے نہیں۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ آج ترکی میں آنے والے زلزلے کے بارے میں چند روز قبل نیدرلینڈز کے ایک خود ساختہ سائنسدان
نے پیشن گوئی کی تاہم وہ اس سے قبل2015 میں کیلیفورنیامیں ایک بڑے زلزلے کی پیشنگوئی کر چکے جو
غلط ثابت ہوئی۔ انسانی دماغ محض وہ دیکھتا ہے جو وہ دیکھتا چاہتا ہے۔ اسے سلیکشن بائیس کہتے ہیں۔ مگر سائنس اس سے برعکس ہے۔
سائنس میں فی الحال ایسا کوئی طریقہ موجود نہیں جس سے بروقت اور خاص جگہ پر ایک بڑے زلزلے کی صحیح پیشنگوئیاں کی جا سکے۔ البتہ سائنسدان یہ ضرور بتا سکتے ہیں کہ کسی علاقے میں مستقبل قریب میں کوئی زلزلہ آنے کا امکان ہے۔
یہ پیشنگوئی کسی خاص علاقے میں زمین کی سطح کے نیچے ٹیکٹانک پلیٹس می غیر معمولی حرکت سے معلوم ہوتی ہے یا وہ علاقے جہاں آتش فشاں پہاڑوں کی بہتات ہو جیسے کہ آئس لینڈ، جہاں حکومت کی جانب سے کسی آتش فشاں کے پھٹنے یا غیر معمولی حرکت کی صورت اس علاقے کی آبادی کو حفظ ماتقدم کے طور پر انخلا کا حکم جاری کیا جاتا ہے۔
البتہ سائنس کے ذریعے آج ہم یہ معلوم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ زمین یا زمین کی فضا میں کس طرح کی تبدیلیاں ہمیں آنے والے زلزلے کے بارے میں بتا سکتی ہیں۔
اس حوالے سے ایک ماڈل جس سے زلزلوں کے بارے میں قریب 80 فیصد درستگی سے معلوم کیا جا سکتا ہے وہ زمین کی فضا کے اوپری حصے جسے آئینو سفئیر کہتے ہیں میں غیر معمولی بدلاؤ کو جان کر بتایا جا سکتا ہے کہ زلزلہ آنے کا امکان ہے۔
آئنوسفیئر زمین سے اوپر 80 سے 1000 کلومیٹر تک فضا کا وہ حصہ ہے جہاں سورج کی تابکاری سے فضا میں موجود گیس کے ایٹموں میں سے الیکٹرانز الگ ہو جاتے ہیں۔
آئینوسفئیر میں یہ بدلاؤ کسی بڑے زلزلے کے آنے سے پانچ دن قبل سے لیکر تیس دن بعد تک ہو سکتا ہے۔ یہ بدلاؤ زمین کی سطح میں بدلاؤ، اسکی مقناطیسیت میں فرق، اس میں موجود تابکاری عناصر میں بدلاؤ اور دیگر اہم عوامل سے آتا ہے جو زمین کے اندر ہو رہے ہوتے ہیں۔اس حوالے سے سائنسدان ماضی میں اس ڈیٹا کو دیکھتے ہیں کہ جس میں بڑے زلزلے آنے سے قبل فضا می اس تہہ میں کیا تبدیلیاں رونما ہوئی ہوں اور اگر اس طرح کی تبدیلیاں دوبارہ رونما ہوں تو زلزلہ آنے کے کیا امکان ہیں۔ یہ تمام ایک شماریاتی ماڈل میں اکٹھے کیے جاتے ہیں اور اس سے دیکھا جاتا ہے کہ کب زلزلے آنے کا امکان زیادہ ہے۔ البتہ یہ سب ماہرین کی صوابدید پر منحصر ہوتا ہے۔ مستقبل میں یہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے ذریعے کیا جانے پر تحقیق جاری ہے جو بہتر طور پر زلزلوں کی پیشنگوئیاں کر سکے گی۔
سو اس بات کا قوی امکان ہے کہ سائنس مستقبل میں بروقت زلزوں کی پیشنگوئیاں کر کے لاکھوں انسانی جانوں کو اس قدرتی آفات سے محفوظ رکھ سکے گی جیسے کہ ماضی میں سائنس نے کروڑوں انسانوں کو طوفانوں، سیلابوں اور دیگر قدرتی آفات سے بروقت آگاہ کر کے انکی جانیں بچائی ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...