کیا زکوۃ میں تملیک لازم ہے؟
،،،،،،،،،،،،،،، :
ہمارے فقھا زکوۃ میں تملیک کی شرط عائد کرتے ہیں بلکہ وہ اسے زکوۃ کا رکن قرار دی ہیں۔ مولانا ظفر احمد صاحب تھانوی لکھتے ہیں:
’’تملیک فقیر ‘‘زکوٰۃ کے لیے شرط ہی نہیں، بلکہ رکن ہے، بلکہ زکوٰۃ کی حقیقت ہی’’تملیک فقیر‘‘ہے۔ زکوٰۃ میں تملیک کا ضروری ہونا متفق علیہ ہے۔ کسی امام کا اس میں اختلاف بیان نہیں کیا گیا، بلکہ امام شافعی کی طرف تو یہ قول منسوب کیا گیا ہے کہ ان کے نزدیک ’اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ‘میں’لام‘ملک کے لیے ہے ۔‘‘(مسئلہ تملیک از مولانا امین احسن اصلاحی 8)
حیرت اس پر ہے کہ تملیک کے اس استدلال کے لیے دین و شریعت میں کوئی ماخذ موجود نہیں۔ اِس وجہ سے ہمارے نزدیک زکوٰۃ جس طرح فرد کے ہاتھ میں دی جاسکتی ، اُسی طرح اُس کی بہبود کے کاموں میں بھی خرچ کی جاسکتی ہے۔
تملیک کے استدلال پر زیادہ سے زیادہ اگر کچھ کہا جا سکا ہے تو وہ یہ ہے کہ سورہ توبہ کی آیت 60 میں للفقراء میں لام تملیک یا عاقبت یعنی انجام فعل کے لیے آیا ہے جو تملیک کا ہی فائدہ دیتا ہے، یعنی زکوۃ فقراء و مساکین کی ملک بنانے کے لیے ہے یا زکوۃ اس لیے ہے کہ فقراء و مساکین وغیرہ کو دی جائے تاکہ وہ اس کے مالک بن سکیں۔ دوسری دلیل یہ دی گئی ہے کہ ایتاء اور تصدق یعنی دینا یا صدقہ کرنا، اس کا نتیجہ تملیک ہی ہوتا ہے، جب آپ کسی کو کچھ دیتے ہیں تو تملیک کر دیتے ہیں۔
گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ تملیک کا یہ استدلال ایک فقہی استنباط ہے۔ قرآن و سنت یا حدیث میں اس کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے عمل سے بھی اس پر استدالال درست نہیں۔ آپ اورآاپ کے عمال زکوۃ کی وصولی کے بعد اکثر اسے فورا تقسیم کر دیتے یا یہ بیت المال میں لا کر تقسیم کر دی جاتی تھی۔ اُس دور میں زکوۃ کا مال زیادہ تر اجناس ہوتی تھیں۔ ان کا مصرف یہی تھا کہ جلد ہی مستحقین کے حوالے کر دی جائیں۔ نیز تمام محاصل بیت المال میں جمع کیے جاتے تھے، لیکن ایسی کوئی تصریح نہیں ملتی کہ زکوۃ کے محصول کو الگ رکھا اور برتا جاتا تھا۔چنانچہ یہ کہنا بجا ہوگا کہ زکوۃ کی تملیک کرنا کوئی شرعی قاعدہ ہے نہ اس کا کوئی قانونی بیان موجود ہے۔
انصاف کا تقاضا ہے کہ ایک استنباط کو استنباط ہی کی حیثیت سے پیش کرنا چاہیے جو درست بھی ہو سکتا ہے اور غلط بھی، اسے اس مسئلہ کی واحد شرعی تعبیر کی صورت میں پیش کرنا حد سے تجاوز ہے۔ دوسری بات یہ کہ کوئی اگر دلیل کی بنیاد پر اس سے اختلاف کرے تو اسے شریعت سے انحراف نہیں سمجھا جا سکتا۔
اس بارے میں ہمارا موقف یہ ہے کہ سورہ توبہ کی آیت مذکورہ میں آنے والا لام دو وجہ سے تملیک کے لیے نہیں ہے: ایک تو اس کے لیے کہ لام کے دیگر استعمالات بھی ہیں، اسے لام تملیک قرار دینے کے لے جو مضبوط قرینہ درکار ہے وہ یہاں دستیاب نہیں۔ بلکہ سیاق و سباق اس کے خلاف جاتے ہیں۔ متعلقہ آیت اپنے سیا ق و سباق کے ساتھ ملاحظہ کیجیے:
{وَمِنْهُمْ مَنْ يَلْمِزُكَ فِي الصَّدَقَاتِ فَإِنْ أُعْطُوا مِنْهَا رَضُوا وَإِنْ لَمْ يُعْطَوْا مِنْهَا إِذَا هُمْ يَسْخَطُونَ وَلَوْ أَنَّهُمْ رَضُوا مَا آتَاهُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّهُ سَيُؤْتِينَا اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَرَسُولُهُ إِنَّا إِلَى اللَّهِ رَاغِبُونَ إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ} [التوبة: 58 – 60]
اِن میں ایسے بھی ہیں، (اے پیغمبر) جو صدقات (کی تقسیم)کے معاملے میں تم پر عیب لگاتے ہیں۔ (یہ وہ لوگ ہیں جنھیں لالچ نے تمھارے ساتھ باندھ رکھا ہے)۔ چنانچہ اگر اُس مال میں سے اِنھیں دیا جائے تو راضی رہتے ہیں اور نہ دیا جائے تو ناراض ہو جاتے ہیں۔ (اِن کے لیے کہیں بہتر ہوتا)، اگر یہ اُس پر راضی رہتے جو اللہ اور اُس کے رسول نے اِنھیں دیا تھا اور کہتے کہ ہمارے لیے اللہ کافی ہے۔ اللہ آگے اپنے فضل سے ہم کو بہت کچھ دے گا اور اُس کا رسول بھی۔ ہمیں تو اللہ چاہیے۔ (اِنھیں بتا دو کہ) صدقات تو درحقیقت فقیروں اور مسکینوں کے لیے ہیں اور اُن کے لیے جو اُن کے نظم پر مامور ہوں، اور اُن کے لیے جن کی تالیف قلب مطلوب ہے۔ نیز اِس لیے کہ گردنوں کے چھڑانے میں اور تاوان زدوں کے سنبھالنے میں اور خدا کی راہ میں اور مسافروں کی بہبود کے لیے خرچ کیے جائیں۔ یہ اللہ کا مقرر کردہ فریضہ ہے اور اللہ علیم و حکیم ہے۔
"دیکھیے، یہاں اوپر والی آیت میں ذکر ان منافقین کا تھا جن کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حسن ظن اور سوء ظن تمام تر اغراض پر مبنی تھا۔ اگر خیرات کے مال میں سے ان کی خواہش کے بقدر انھیں مل جاتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خوب خوب تعریفیں کرتے اور خواہش کے بقدر نہ ملتا تو آپ کو متہم کرنے سے بھی باز نہ رہتے۔ آپ پر بے جا جانب داری اور ناروا پاس داری کا الزام لگاتے اور لوگوں میں طرح طرح کی وسوسہ اندازیاں کرتے پھرتے۔ غور کیجیے کہ اس سیاق میں بتانے کی بات کیا ہو سکتی ہے، یہ کہ زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے کسی فقیر کو اس کا مالک بنانا ضروری ہے یا یہ کہ زکوٰۃ و خیرات کی رقموں کے اصلی حق دار اور مستحق فلاں فلاں قسم کے لوگ ہیں؟ ظاہر ہے کہ اس سیاق میں بتانے کی بات یہ دوسری ہی ہو سکتی ہے نہ کہ پہلی۔ چنانچہ مفسرین میں سے جن لوگوں کی نظر سیاق و سباق پر رہتی ہے ،انھوں نے آیت کی یہی تاویل کی بھی ہے۔ صاحب ’’کشاف‘‘ ’اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ‘ کی تاویل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
قصر لجنس الصدقات علی الاصناف المعدودۃ وانھا مختصۃ بھا لا تتجاوزھا الی غیرھا کانہ قیل انما ھی لہم لا لغیرھم ونحوہ قولک انما الخلافۃ لقریش ترید لا تتعداھم ولا تکون لغیرھم.(الکشاف۲/۲۶۹)
’’یہاں صدقات و زکوٰۃ کو مذکورہ اقسام پر محدود کر دیا گیا ہے اور یہ کہ یہ انھی کے لیے خاص ہے۔ دوسروں کی طرف یہ چیز منتقل نہیں ہو سکتی۔ گویا یہ بات کہی گئی ہے کہ یہ چیز انھی کے لیے ہے، ان کے ماسوا لوگوں کے لیے نہیں ہے۔ یہ بالکل ایسی ہی بات ہے کہ تم کہو: ’اِنَّمَا الْخِلَافَۃُ لِقُرَیْشٍ‘ (خلافت تو بس قریش کے لیے ہے) یعنی یہ ان کے سوا دوسروں کا حق نہیں ہے۔‘‘(مسئلہ تملیک از مولانا امین احسن اصلاحی 20)
دوسرا یہ کہ عطا یا صدقہ کرنے سے تملیک کرنا لازمی نہیں ہوجاتا۔ مثلا کھانا پکا کر کھلانا، یا حاجت مندوں کے مفت علاج کے لیے خدمات مہیا کرنا۔ یہ بھی دوسروں پر ایتا اور تصدق ی دینا اور صدقہ کرنا ہی ہے اور اس میں شخصی تملیک بھی نہیں۔ اگر حقیقت میں ایسا ہوتا تو 'و اتینا ھم الکتاب' (اور ہم نے ان کو کتاب دی)، اور 'اتینا داؤد زبورا' (اور ہم نے داؤد کو زبور عطا کی) میں تملیک کا مفہوم لینا پڑتا جو کہ درست نہیں۔(ملخص مسئلہ تملیک، از مولانا امین احسن اصلاحی 23)
تیسری وجہ یہ ہے کہ اس آیت میں پہلے چار مصارف زکوۃ حرف لام کے تحت آئے ہیں لیکن بقیہ چار حرف "فی" کے ساتھ آئے ہیں۔ فی میں تملیک کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس میں افادیت اور خدمت و مصلحت کا مفہوم پایا جاتا ہے جیسا کہ حدیث میں ہے واللہ فی عون العبد ماکان العبدفی عون اخیہ ' (جب تک کہ ایک مسلمان اپنے بھائی کے کام میں یا اس کے مصالح کی خدمت میں لگا رہتا ہے، اللہ اس کے مصالح میں اس کی مدد کرتا رہتا ہے) چنانچہ پوری آیت کی ایسی تاویل ہی درست ہوسکتی ہے جو لام اور فی کے مدلول میں کوئی تضاد پیدا نہ کرے۔ یعنی یہ نہیں ہو سکتا کہ پہلے چار مصارف میں تو تملیک سمجھی جائے اور دوسری چار میں تملیک نہ سمجھی جائے۔ اس بنا پر لام کا بھی وہی مطلب درست ہو سکتا ہے جو فی کے مخالف نہ ہوں، اور لام کے استعمالات میں یہ مفہوم موجود ہے ۔ہمارے نزدیک یہاں لام استحقاق کے مفہوم کے لیے ہے یا انتفاع و افادہ کے مفہوم کے لیے۔ یعنی زکوۃ فقراء و مساکین وغیرہ کی فلاح و بہبود کے لیے ہے۔ کلام کا سیاق و سباق بھی جیسا کہ پیشتر عرض کیا گیا،اسی کی تائید کرتا ہے۔(ملخص مسئلہ تملیک، از مولانا امین احسن اصلاحی20 -21)
چوتھی دلیل یہ ہے کہ یہاں الصدقات کا لفظ استعمال ہوا ہے جس میں زکوۃ اور عام صدقات سب شامل ہیں۔ یہ دراصل حکومت کو حاصل ہونے والا ریوینیو ہے نہ کہ محض زکوۃ۔ یہ مصارف بھی صرف زکوۃ کے نہیں بلکہ تمام صدقات کے ہیں۔ عام صدقات میں تملیک فقیر کو ضروری نہیں سمجھا گیا، زکوۃ کے معاملے می بھی یہ ضروری نہیں سمجھا جائے گا۔
یہ مسئلہ حل ہو جانے کے بعد وہ تمام فقہی تکلفات برتنے کی ضرورت ختم ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے ایک طرف تو زکوۃ کے انتظامات کرنے والے اداروں کو نہایت درجے انتظامی مشکلات سے گزرنا پڑتاہے، اور دوسری طرف بہت سے اجتماعی نوعیت کے ایسے فلاحی کام بھی وجود پذیر نہیں ہو پاتے جن میں فرد کی تملیک ممکن نہیں ہوتی اور پھر ان کے لیے الگ سے ٹیکسز یا اپیلیں کرنی پڑتی ہیں۔ اسی طرح حاجت مندوں کو مفت سروسز بھی فراہم کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں رہتی۔ تملیک کی شرط کے بغیر زکوۃ کے زیادہ وسیع پیمانے پر استعمال سے عوامی بہبود زیادہ موثر طریقے سے ممکن ہے۔ خدا کے دین کا منشا بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“