امریکہ کے رخصت ہونے والے صدر باراک اوبامہ نے جاتے جاتے روس کے ساتھ تعلقات بگاڑنے کی انتہائی کاوش کر ڈالی ہے۔ روس کے بیرونی جاسوسی سے وابستہ اداروں کے چھ اہم ترین افراد پر امریکہ کی جانب سے پابندیاں عائد کر دی ہیں جن میں بیرونی جاسوسی کے محکمے کے سربراہ بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ روس کے 35 سفارت کاروں کو 72 گھنٹوں میں امریکہ کی سرزمین چھوڑ دینے کا حکم دیا گیا ہے۔ ان سفارت کاروں میں ایسے سفارت کار بھی شامل ہیں جو صرف دو ماہ پہلے فرائض کی ادائیگی کی خاطر امریکہ پہنچے تھے۔ مزید برآں میری لینڈ اور نیویارک میں واقع روس کے دو قونصل خانوں کو بند کیا جا رہا ہے کیونکہ امریکی انتظامیہ کے مطابق روس نے امریکی صدارتی انتخابات کے دوران امریکہ کے انتخابی عمل کو ”ہیک“ کرکے ڈونلڈ ٹرمپ کو جتوایا ہے، اور یہ کارروائی مذکورہ دو قونصل خانوں سے کی گئی تھی۔
اگرچہ روس کے وزیر برائے امور خارجہ سرگئی لاوروو نے بتایا ہے کہ وزارت مذکورہ نے صدر کو مشورہ دے دیا ہے کہ وہ ماسکو میں امریکہ کے سفارت خانے کے 31 اور سینٹ پیٹرز برگ میں امریکی قونصل خانے کے 4 سفارتی اہلکاروں کو ”ناپسندیدہ شخصیات ” قرار دے دیں۔ تاہم فیصلہ صدر ولادیمیر پوتن کو کرنا ہے کہ کیا اقدامات لیے جائیں۔ صدر پوتن نے کہا ہے کہ ہمارے سفارتکار گھر آ رہے ہیں، وہ اپنے سگوں کے ساتھ نئے سال کی تقریب منا سکیں گے لیکن ہم امریکہ کے سفارتکاروں کو تنگ نہیں کریں گے کیونکہ انہوں نے نئے سال کی تقریبات کے لیے روس کو ترجیح دی ہے وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ یہیں تقریبات منائیں بلکہ تمام امریکی سفارتکاروں کے بچے کریملن میں بچوں کے لیے برپا کی جانے والی سال نو کی خصوصی تقریب میں شریک ہوں، میں ان بچوں مدعو کر رہا ہوں۔
صدر روس کی انتظامیہ کے سربراہ دمتری پیسکوو نے اس عمل کو ” ایک ایسی امریکی انتظامیہ کی قابل قیاس جارح کارروائی قرار دیا ہے جس کے پاس کام کرنے کو محض تین ہفتے باقی ہیں“ اور بقول پیسکوو کے موجودہ امریکی انتظامیہ اس طرح امریکہ کے نئے صدر کی حیثیت کو داغدار کرنا چاہتی ہے۔ پوتن نے یقین ظاہر کیا کہ نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ روس کے ساتھ ہر میدان میں تعلقات بہتر بنانے کی جانب راغب ہو سکے گی۔
نئے سال کی تقریبات کے فوراً بعد جو غالباً 9 یا 10 جنوری کو تمام ہوں گی روس بھی جوابی کارروائی کرے گا۔ غالباً اوبامہ اور ہیلیری کلنٹن کے خلاف روس کی جانب سے پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں۔ مجوزہ 35 امریکی سفارتی اہلکاروں کو نکالا جا سکتا ہے۔ روس نے اپنے سفارت کاروں اور ان کے گھرانوں کے افراد کو امریکہ سے لائے جانے کی خاطر خصوصی طیارہ بھجوانے کا انتظام کیا ہے۔
بظاہر یہ کارروائی روس کے خلاف لگتی ہے لیکن دراصل یہ کارروائی نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کرسی تلے ”ٹائم بم“ نصب کیے جانے کے مترادف ہے۔ چونکہ امریکہ میں پہلی بارکسی غیر سیاسی شخص کو اہم ترین عہدے کے لیے ناقابل قیاس طور پر منتخب کیا گیا ہے اس لیے انہیں مدت پوری کیے جانے سے پہلے عہدہ صدارت سے فارغ کرائے جانے کی خاطر یہ ناقابل فہم الزام لگایا گیا ہے کہ ان کے حق میں روس نے ”سائبر مینیپولیشن“ کی ہے۔
روس کے لیے چاہے ڈیموکریٹس ہوں یا ریپبلیکن دونوں ہی ایک جیسے ہیں البتہ تاریخی طور پر یہ ہوتا رہا ہے کہ ریپبلیکنز کے اقتدار کے ادوار میں روس (یاد رہے سوویت یونین نہیں) کو کم ہدف تنقید بنایا گیا ہے۔ لوگوں میں ایک عمومی تاثر پایا جاتا ہے کہ روس کے امریکہ کے ساتھ ریپبلیکنوں کی حکومت کے دوران تعلقات اچھے ہوتے ہیں۔ پھر روس کے خلاف پابندہوں کو ٹرمپ اور ان کے نامزد کردہ وزیر خارجہ دونوں ہی نے غیر موثر قرار دیا تھا اس لئے امریکہ کے روس کے حق میں نرم ہونے کی خواہش پلنے لگی ہے۔
نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حق میں روس کی جانب سے مبینہ سائبر مینی پولیشن کو ثابت کرنا کانگریس کی کمیٹیوں یا پھر قانونی اداروں کا کام ہے۔ ہمارے دوست اور معروف نیوروسرجن جو الشفا ہسپتال اسلام آباد کے مین شیئر ہولڈر بھی ہیں ڈاکٹر پروفیسر سعید احمد باجوہ نے اپنی کہانی ڈیڑھ گھنٹے تک ہم چند دوستوں کو سنائی کہ کس طرح امریکہ کی ایف بی آئی نے انہیں آئی ایس آئی (ان کے بقول) کا امریکہ میں بڑا کارندہ ثابت کرنے کی خاطر انہیں عدالتی چارہ جوئی میں کئی سال الجھائے رکھا۔ ان کے مطابق اگر وہ مقدمہ نہ جیتتے تو ایف بی آئی انہیں دہشت گردوں کی معاونت کرنے کے جرم میں دس برس کے لیے گوانتانامو بھیج دیتی۔ انہوں نے ایف بی آئی کی طرف سے تیار کردہ یہ سازشی مقدمہ جیتا اس پر ان کے وکلاء اپنی جگہ قابل تعریف مگر میں نے بے اختیار ہو کر امریکہ کے عدالتی نظام کے حق میں تالیاں بجا کر داد دی۔ ہمارے ملک جیسے کسی ملک میں اگر کوئی بڑی ایجنسی کسی کو جھوٹے مقدمے میں ملوث کرتی اس کا کیا حال ہوتا کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ میں نے ان سے اجازت لے اس مقدمے کا تذکرہ کر کیا ہے۔
جارج سوروس جو ہنگری سے مہاجر ہو کر امریکہ آ کر بسنے والے یہودی ارب پتی اور مخیر شخص ہیں، انہوں نے بھی ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک جھوٹا اداکار اور مستقبل کا آمر صدر قرار دے کر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف شروع کی جانے والی مہم میں اپنا حصہ ڈال دیا ہے۔
اپنی انتخابی مہم کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے خواتین کے خلاف ایک رکیک جملہ بولا تھا جو ”لیک“ ہو گیا تھا۔ اب ان کے عہدہ صدارت سنبھالنے کے اگلے روز امریکہ کے تیس شہروں میں وومن ملین مارچ کرائے جانے کا بھی اہتمام کیا جا رہا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف مہم میں روس کو پیسے جانا کوئی مناسب بین الاقوامی سرگرمی نہیں ہے۔ روس اور امریکہ انتہائی بڑی جوہری طاقتیں ہونے کے ناطے نہ صرف اپنے اپنے ملکوں بلکہ دنیا بھر کے تحفظ کے ذمہ دار ہیں۔ ان کے درمیان قضیوں کا جنم لینا اور خدانخواستہ ان کا شدت اختیار کر جانا دنیا بھر کے امن کے لیے خطرہ ثابت ہو سکتا ہے۔
http://www.humsub.com.pk/38537/mujahid-mirza-82/
“