سرسید احمد خان کا اصل نام سید احمد بن متقی خان (17 اکتوبر 1817ء – 27 مارچ 1898ء) تھا۔ انیسویں صدی کا ایک ہندوستانی مسلم نظریۂ عملیت کا حامل ،مصلح اور فلسفی تھے۔ سر سید احمد خان ایک نبیل گھرانے میں پیدا ہوا جس کے مغل دربار کے ساتھ مضبوط تعلقات تھے اس کے باوجود فربگیوں کی جانب ان کا جھکاؤ سمجھ سے بالا ہے۔ سر سید نے قرآن اور سائنس کی تعلیم دربار میں ہی حاصل کی، جس کے بعد یونیورسٹی آف ایڈنبرا نے انہیں قانون میں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری عطا کی۔
اردو ادب پر بھی سر سید کا گہرا اثر پڑا۔ ان کی بدولت ایک نئے دبستان کا آغاز ہوا جس نے سادہ و سلیس انداز میں نثر نگاری شروع کی اور عقلیت اور مقصدیت، ٹھوس اور جامع مسائل کو عام فہم انداز میں بیان کرنا شروع کیا۔ اردو میں انشائیہ نگاری اور تحقیق و تنقید کی شاخوں کا اجراء ہوا ۔سرسید حکومت برطانیہ کے نمک حلال رہے،ان کی ہر ادا پردل وجان سے فدا تھے، جب 1857ء میں”جہادِحریت“کامعرکہ گرم ہوا تو سرسید نے اپنے انگریز محسنوں کی جان ومال اور اقتدارکے تحفظ کے لیے ہراول دستے کاکردار ادا کیااور مقدس جہادکوبغاوت کانام دے کر مجاہدینِ اسلام کی کردارکشی کافریضہ بڑی تندہی سے انجام دیا۔ حکومت برطانیہ نے حسنِ خدمت کے صلے میں sir،hb(شاہی مشیر)اورkc (ہندوستان میں امن کاجج)کے خطابات دینے کے علاوہ دوپشتوں تک دوسوماہانہ شاہی وظیفہ جاری کردیا۔سرکاری ملازمت سے فارغ ہونے کے بعدزندگی کی تمام توانائیاں علی گڑھ یونیورسٹی کی ترقی کے لیے وقف کردیں۔
سر سید کے مذہبی عقائد وافکار کوجاننا ضروری ہے، جس سے مسئلے کی سنگینی اور علما کے مخالفانہ رویے کی صحت اور جواز کا اندازہ ہوسکے گا۔سرسید کے چند مذہبی عقائد بطور منشے نمونہ از خروارے حسب ذیل ہیں :
(1) ملائکہ اور فرشتوں کا کوئی خارجی وجود نہیں ہے۔
(2) نبی پر متعارف فرشتوں کے ذریعے وحی نہیں ہوتی، بلکہ خارجی طور پر وحی کا سرے سے کوئی وجود نہیں۔
(3) معراج اور شق صدر کے واقعات رؤیا کا فعل ہے۔
(4) قرآن میں جن یا اجنہ کے الفاظ آئے ہیں ، ان سے مراد پہاڑی اور صحرائی لوگ ہیں ، نہ کہ وہ وہمی مخلوق جو بھوت اور دیووغیرہ کے الفاظ سے مفہوم ہوتی ہے۔
(5) جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس پتھر کے بنے ہوئے چوکھونٹے گھر(کعبہ)میں ایک ایسی متعدی برکت ہے، جہاں سات دفعہ اس کے گرد پھرے اور بہشت میں چلے گئے، یہ ان کی خام خیالی ہے۔کوئی چیز سوائے خداکے مقدس نہیں ہے۔
(6)متحنقۂ اہل کتاب یعنی ایسے پرندے یا جانور جسے اہل کتاب نے گلا گھونٹ کر ماراہو، اس کاکھانا مسلمانوں کو جائز ہے۔
(6)حساب کتاب، میزان اور جنت ودوزخ کا کوئی خارجی وجود نہیں ، ان سے متعلق قرآن میں جو ارشادات ہیں وہ بطریق مجاز، استعارہ اور تمثیل کے ہیں۔
(8) قرآن مجید کی کسی آیت سے یہ ثابت نہیں ہوتاکہ حضرت عیسی بن باپ کے پیداہوئے یا آسمان پر اٹھالیے گئے۔
(9)اﷲ تبارک وتعالیٰ اپنی قدرت کاکوئی خارق عادت نشان دکھاہی نہیں سکتا۔کیوں کہ اگر ایساہواتو اس کی عظمت وقدرت وصنعت کو بٹالگے گا۔
سر سید کے یہ تمام عقائد ان کی تفسیر’’تفسیر القرآن‘‘سے ماخوذ ہیں ، جس کے بارے میں مولاناالطاف حسین حالیؔ نے اپنے ایک مضمون ’’سر سید اور مذہب‘‘میں لکھاہے جو مئی 1898ء میں علی گڑھ میگزین میں شائع ہوا:
’’بہت سے مقامات ان کی تفسیر میں ایسے موجودہیں ، جن کو دیکھ کر تعجب ہوتاہے کہ ایسے عالی دماغ شخص کو کیسے ایسی تاویلات باردہ پر اطمینان ہوگیا اور کیوں کر ایسی فاش غلطیاں ان کے قلم سے سرزدہوئیں ‘‘۔(حیات شبلی، ص:237)
عمرکے آخری حصہ میں ان کے روشن خیال صاحبزادے سید محمود نے جو شراب کے رسیا تھے، انہیں گھرسے باہرنکال دیا،بالآخر ایک دوست کے ہاں پناہ لی ۔۔۔ سرسید احمد خان کا انتقال 81 سال کی عمر میں 27 مارچ 1898ء میں ہوا اسی گھر سے ان کا جنازہ نکلا۔ اور اپنے کالج کی مسجد میں دفن ہوا اور کچھ لوگوں نے اعتراض بھی کیا کہ سرسید کو مسجد میں دفنانا درست نہیں ہے
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...