(Last Updated On: )
اگر کسی زندہ انسان کو اگر کوئی وھیل نگل لے، تو اسکے ساتھ کیا ہوتا ہے؟
ریکارڈڈ تاریخ میں ویسے تو صرف دو چار ہی اسطرح کے واقعات ہوئے ہیں کہ کسی وھیل نے اسطرح کسی زندہ شخص کو نگل لیا کہ وہ وھیل سے برآمد ہونے کے بعد بھی زندہ بچ نکلا، اور پھر اسکی کہی ہوئی باتوں کی تصدیق ہوئی۔ ایک قصہ اسی طرح کا یہ موجود ہے۔
1890ء میں ایک جہاز فاک لینڈ (Falkland) کے قریب وہیل مچھلی کا شکار کر رہا تھا کہ اس کا ایک شکاری جیمس سمندر میں گر پڑا اور وہیل مچھلی نے اسے نگل لیا۔ بڑی کوشش سے دو روز بعد یہ مچھلی پکڑلی گئی۔ اس کا پیٹ چاک کیا گیا تو شکاری زندہ نکلا، البتہ اس کا جسم مچھلی کی اندرونی تپش کی وجہ سے سفید ہوگیا تھا۔ چودہ دن کے علاج کے بعد بالآخر وہ صحت یاب ہوگیا۔
لیکن کیا یہ بات سائنسی حساب سے درست ہے۔ اسکی ہم سائنسی حساب سے پڑتال کرتے ہیں۔
اگر کوئی وھیل کو بالکل قریب سے دیکھے، تو اسکو اندازہ ہوگا کہ وہ کس قدر بڑا جاندار ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو بلیو وھیل ہمارے کرہ ارض کا سب سے بڑا جاندار سمجھا جاتا ہے۔ اسکی زبان کا ہی وزن صرف ایک بالغ ہاتھی کے وزن کے برابر ہوتا ہے۔ اسکا منہ اتنا بڑا ہوتا کہ بیک وقت 400 یا 500 افراد اسکے منہ میں کھڑے ہوسکتے ہیں۔
’’بلیو وھیل‘‘ (Blue Whale) دنیا کا سب سے بڑا جانور ہے۔ اس کی لمبائی ایک سو فٹ تک اور وزن دو سو میٹرک ٹن ہوتا ہے لیکن یہ خونخوار نہیں اور نہ ہی اس کے دانت ہوتے ہیں۔ لیکن حیرت انگیز طور پر نیلی وھیل کی خوراک بھی صرف ایک چھوٹے سے شرمپ کی طرح کے آبی جاندار کرل پہ مشتمل ہوتی ہے، یا پھر چھوٹی چھوٹی مچھلیاں ہی ہوتی ہیں۔
ڈولفن سب سے چھوٹے سائز کی وھیل ہے جس کی لمبائی چار سے تیس فٹ تک ہوتی ہے۔ اس کے منہ میں بھی وھیل کی طرح دو سو دانتوں کی قطار ہوتی ہے جس سے شکار کو پکڑتی اور سالم نگل جاتی ہے۔ تاہم یہ بھی خونخوار نہیں بلکہ انسانوں سے خاص طور پر مانوس جانور ہے۔
لیکن اسکے باوجود ہم کو انکے یعنی وھیل کے متعلق اتنا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، کیونکہ انکے جسم کی بناوٹ کسی بھی انسان یا اور کسی بڑے جاندار کو زندہ نگلنے سے روکتی ہے۔ لیکن وھیل کے کزنز،اسپرم وھیل سے زیادہ فکر مند ہوا جاسکتا ہے۔ 1890 میں جو واقعہ اوپر بتایا گیا ہے، اس میں جیمس ملاح کو ایک کہتے ہیں کہ ایک اسپرم وھیل نے ہی نگلا تھا۔ لیکن دوبارہ اس واقعے کے رونما ہونے کی پھر خبر نہیں ملی۔ جب جیمس کو وھیل کا پیٹ چیر کر نکالا گیا، تو وھیل کے معدے کی اندرونی رطوبتوں کی وجہ سے اس کے جسم کی کھال جھلس گئی تھی، اور بالکل بلیچ ہوکر سفید ہوگئی تھی، اور وہ اندھا بھی ہوگیا تھا۔ یہ سب وھیل کے معدے میں موجود تیزاب کی وجہ سے ہوا تھا۔
لیکن اس واقعے کے بعد ہی مختلف سائنسی جرنلوں اور میگزین میں اس واقعے کی صداقت کے بارے میں سوال اٹھا دئیے گئے تھے، اور سائنسی پہلوؤں کے حساب سے یہ بات سمجھ سے بالاتر لگ رہی تھی کہ اتنے بڑے معدے میں تیزابی مادوں کے باجود کوئی شخص زندہ صحیح سالم کیسے بچ گیا؟ اب ہم اس قصے کا ماڈرن سائنسی تجزیہ کرتے ہیں۔
اگر کوئی شخص کسی اسپرم وھیل کا نوالہ بن جائے، تو پہلے تو اسکو وھیل میں موجود ان دسیوں چھری کی طرح تیز دھار دانتوں سے بالکل محفوظ رہنا ہوگا، جو اسکے منہ میں لگے ہوتے ہیں۔ چلیں سمجھ لیں کہ کسی طرح وہ انسان ان خوفناک دانتوں سے بھی بچ نکلا، اسکے بعد وہ انسان ،وھیل کے گلے سے پاس ہوگا۔ یہاں نہ صرف اسکو تاریکی اور چکناہٹ سے اسکو واسطہ پڑے گا، بلکہ اسکو وہاں سانس لینے میں مشکلات بھی ہونگی، کیونکہ وھیل کے گلے میں نہ صرف آکسیجن کی کمی ہوتی ہے، بلکہ میتھین گیس کی زیادتی بھی ہوتی ہے۔ پھر وھیل کے گلے کے پٹھوں کے بار بار سکڑنے کے عمل سے وہ انسان بالآخر اسکے معدے میں گرے گا۔
یہاں پر ایک بات کی وضاحت بھی کرتا جاؤں کہ وھیل اور اسکی تمام اقسام کے ایک سے زیادہ معدے ہوتے ہیں،جہاں وہ اپنی غذا کو دیر تک ہضم کرتی ہیں۔ اسپرم وھیل کے چار معدے ہوتے ہیں، جن میں پہلا معدہ سب سے بڑا ہوتا ہے۔سب سے پہلے ایک انسان زندہ نگلنے کے بعد اسی معدے میں آئے گا۔ پھر ایک معدے سے دوسرے معدے کی طرف وہ انسان متنقل ہوتا چلا جائے گا۔
ان معدوں میں ان طاقتور تیزابی مادوں کا عمل ہر وقت اس کے جسم کے اوپر پڑتا جائے گا، یہاں تک کہ اس انسان کی ہڈیا ں تک اس تیزابی مادے سے گل جائے گی، جو وھیل کے معدے میں موجود ہوتا ہے۔ پھر جب اس انسان کا ناہضم ہونے والا مواد بچے گا، تو وھیل اپنے “اینس Anus “کے زریعے اس مواد کو اپنے جسم سے باہر نکال دے گی۔ ۔ تمام وھیل کے اندر یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ انکی غذا تو بے حساب ہوتی ہے، لیکن انکو کسی انسان کے کھانے میں دلچسپی نہیں ہوتی، کیونکہ انکے جسم کی اندرونی ساخت Anatomy انکو انسان کو اپنا لنچ بنانے سے روکتی ہے۔
تو اب یہ کافی حد ان سائنسی وجوھات کی بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ کسی انسان کا کسی وھیل نما بڑی مچھلی کے پیٹ سےزندہ برآمد ہوجانا، سائنسی حساب سے ناممکنات سے شمار ہوگا۔