متحدہ عرب امارات کی بین الاقوامی ائر لائن ’’امارات‘‘ (Emirates) کو دنیا کی بہترین فضائی کمپنی کا ایوارڈ دیا گیا ہے۔ یہ ایوارڈ فرانس میں دیا گیا۔ ایک سو ساٹھ ممالک کے ایک کروڑ بیاسی لاکھ مسافروں نے اس رائے سازی میں حصہ لیا۔ ’’امارات‘‘ مشرقِ وسطیٰ کی بہترین ائر لائن ہونے کا ایوارڈ پہلے لے چکی ہے۔ عالمی ایوارڈ بھی اس نے پہلی بار نہیں حاصل کیا۔ 2001ء اور پھر 2002ء میں بھی اس نے یہ اعزاز جیتا تھا!
دلچسپ امر یہ ہے کہ مسلمانوں کی اور عربوں کی اس کامیابی کو روکنے کے لیے کوئی ’’سازش‘‘ نہیں کی گئی۔ (اس سے پہلے مغربی ملکوں ہی نے احمدی نژاد کو‘ جب وہ تہران کے میئر تھے‘ دنیا کا بہترین میئر قرار دیا تھا) لیکن میرے ذہن میں وسوسے ا ُٹھ رہے ہیں۔ مجھے یقین ہو چلا ہے کہ مقابلے میں ہماری قومی ائرلائن اوّل آنے والی تھی مگر پھر وہی ہوا جو ہمارے ساتھ ہر معاملے میں ہوتا رہا ہے‘ ہمارے خلاف سازش کی گئی۔ عالمی طاقتیں اور غیر مسلم قوتیں کہاں برداشت کر سکتی تھیں کہ عالمِ اسلام کی واحد نیوکلیئر قوت کو یہ اعزاز حاصل ہو‘ چنانچہ ہماری ائر لائن کا نام کاٹ کر امارات کا نام ڈال دیا گیا۔ مجھے یہ بھی یقین ہو چلا ہے کہ فیصلہ کرنے والے منصفین کو متحدہ عرب امارات کے حکام نے آموں کے ٹوکرے‘ نہیں معاف کیجیے‘ اعلیٰ نسل کی کھجوروں کے کریٹ بھجوائے ہوں گے۔
فرض کیجیے‘ آج سے ’’امارات‘‘ ائرلائن پاکستان کے حوالے کردی جاتی ہے اور ہماری پی آئی اے دبئی کی ملکیت میں چلی جاتی ہے۔ سب سے پہلے تو یہاں جشن منعقد ہونے شروع ہو جائیں گے۔ گورنروں‘ وزرائے اعلیٰ‘ وزیروں‘ سیاسی جماعتوں کے مالکان اور ان کے حواریوں کی چاندی ہو جائے گی۔ دو تین ماہ کے اندر سب کے بیٹے‘ صاحبزادیاں‘ بھتیجے‘ بھانجے‘ داماد ’’امارات‘‘ میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہو چکے ہوں گے۔ کسی اعلیٰ شخصیت کا قریبی دوست اس کا ایم ڈی مقرر ہوگا۔ پھر یونین کا کردار درمیان میں آئے گا۔ ہڑتالیں ہوں گی اور ہاں! ایک بات یاد آ گئی‘ ’’امارات‘‘ ائر لائن کو یہ بھی سکھا دیا جائے گا کہ پرواز کسی بھی وی آئی پی کے لیے تاخیر کا شکار کی جا سکتی ہے۔ تین سال کے عرصے میں‘ یا اس سے پہلے دنیا کی یہ بہترین ائر لائن اپنی اوقات میں آ چکی ہوگی اور اس عرصہ میں پی آئی اے کو نئی زندگی مل چکی ہوگی!
پاکستان اقربا پروری اور دوست نوازی کے جس سرطان میں مبتلا ہے اس کی موجودگی میں اس کا اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ناممکن ہے۔ ہزار دعوے کریں‘ لاکھ کوششیں کریں‘ جب تک کُتا کنوئیں کے اندر موجود ہے‘ سو یا پانچ سو ڈول پانی نکالنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ راولپنڈی کے ایک میئر ہر رمضان میں مردِ مومن مردِ حق کے اعزاز میں ایک گرینڈ افطار پارٹی کا انعقاد کرتے تھے۔ ان کے انتہائی قریبی عزیز کو مردِ مومن مردِ حق نے ایک گمنام محکمے کی عام سی اسامی سے اٹھایا‘ ترقیاں دی اور بحراوقیانوس کے پار بھیج دیا۔ ہر افسر جو راولپنڈی‘ اسلام آباد‘ لاہور کا ڈپٹی کمشنر ہوتا ہے‘ باہر تعینات ہو جاتا ہے۔ پچھلی حکومت میں ایک پائی ٹیکس نہ دینے والے مشہور و معروف وزیر کی صاحبزادی کو یورپ کے بہترین ملک میں افسر لگایا گیا۔
اس کینسر کی بدترین مثال ’’فیڈرل پبلک سروس کمیشن‘‘ ہے۔ یہ وہ وفاقی ا دارہ ہے جس کا کام ملک بھر میں مرکزی ملازموں کے لیے میرٹ کی بنیاد پر امیدواروں کو منتخب کرنا ہے‘ لیکن بدترین مذاق یہ ہے کہ فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے ممبر حضرات کا چُنائو سو فی صد تعلقات اور سفارش کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ اس کالم نگار نے ایک صاحب سے جو پیپلز پارٹی کی مجلسِ قضا و قدر کے اہم رکن ہیں‘ پوچھا کہ فلاں صاحب کس بنیاد پر فیڈرل پبلک سروس کمیشن میں ممبر تعینات ہوئے ہیں؟ فرمانے لگے‘ ان کے والد کی ’’پارٹی‘‘ کے لیے خدمات تھیں!!
ہوتا یہ ہے کہ اگر پانچ سرکاری ملازم گریڈ بائیس یا اکیس میں ریٹائر ہوئے ہیں اور ان میں سے دو کو وزیراعظم‘ صدر یا کوئی اور ’’فیصلہ ساز‘‘ شخصیت ذاتی طور پر جانتی ہے تو انہیں فیڈرل پبلک سروس کمیشن میں لگا دیا جائے گا۔ تین سال کے لیے لاکھوں کی تنخواہ اور مراعات… جو شخص خود دوست نوازی یا ’’خدمات‘‘ کی بنیاد پر منتخب ہوا ہے‘ وہ دوسروں کو میرٹ کی بنیاد پر کیوں منتخب کرے گا؟ سنا ہے ظفر اللہ جمالی وزیراعظم بنے تو قاضی حسین احمد مرحوم نے انہیں نصیحت کی کہ فیصلے میرٹ پر کرنا‘ جمالی صاحب نے کسی لگی لپٹی کے بغیر جواب دیا کہ ہم خود کون سا میرٹ پر آئے ہیں! یہ الگ بات کہ یہ بلوچ وزیراعظم بعد میں آنے والے شوکت عزیزوں‘ گیلانیوں اور راجوں سے بدرجہا بہتر اور نیک نام تھا!
یہی کھیل صوبائی پبلک سروس کمیشنوں میں ہو رہا ہے۔ پنجاب پبلک سروس کمیشن میں پولیس کے ریٹائرڈ افسروں کی اکثریت ہے جو سراسر ’’ذاتی وفاداری‘‘ کی بنیاد پر لگائے گئے۔ جو تفصیلات میسر ہیں‘ ہوشربا ہیں۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اشارۂ ابرو پر تعینات کیے گئے اہلکار ڈیوٹی سرانجام دیتے ہوئے میرٹ کو خاطر میں لائیں گے تو وہ کسی ماہرِ نفسیات سے رجوع کرے!
وزیراعظم نوازشریف نے قوم سے وعدہ کیا ہے کہ وہ میرٹ کا بول بالا کریں گے۔ اگر وہ اس دعویٰ میں سنجیدہ ہیں تو ہم ان سطور کی وساطت سے یہ تجویز پیش کرتے ہیں کہ وہ سب سے پہلے فیڈرل پبلک سروس کمیشن میں اس دھاندلی اور مذاق کا خاتمہ کریں۔ پنجابی کا محاورہ ہے کہ پہلے چوروں کی ماں کو پکڑیں۔ وزیراعظم ایک کمیشن تشکیل فرمائیں۔ سپریم کورٹ کا جج اس کمیشن کا سربراہ ہو۔ چاروں صوبائی اعلیٰ عدالتوں کے چیف جسٹس اس کمیشن کے ارکان ہوں۔ یہ کمیشن فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے
ارکان (ممبرز) کی اسامیاں اخبارات میں مشتہر کرے۔ ایک معیار مقرر کرے‘ اس معیار پر پورا اترنے والوں سے درخواستیں طلب کرے۔ پھر ان کے انٹرویو کر کے ممبرز کو میرٹ کی بنیاد پر منتخب کیا جائے اور شفافیت کو کامیاب کرنے کے لیے پوری کارروائی کو میڈیا کے سامنے پیش کیا جائے۔ فیڈرل پبلک سروس کمیشن کوئی خیراتی ادارہ یا دارالامان نہیں جہاں ریٹائرڈ سرکاری ملازم اپنی ’’خدمات‘‘ اور ’’تعلقات‘‘ کی بنیاد پر آ کر بڑھاپے میں آرام کریں۔ نجی شعبے میں نام پیدا کرنے والے دانش ور‘ پروفیسر‘ ڈاکٹر‘ وکیل اور کارپوریٹ سیکٹر کے تجربہ کار ٹیکنوکریٹس بھی اسی ملک کے شہری ہیں اور فیڈرل پبلک سروس کمیشن کو ان کی خدمات اور میرٹ نوازی کی بھی ضرورت ہے۔ فیڈرل پبلک سروس کمیشن کا ایک ممبر ایک ریٹائرڈ جرنیل بھی ہوتا ہے۔ وہ کس طریقِ کار کے تحت منتخب ہوتا ہے؟
اگر وزیراعظم وفاق میں یہ کمیشن تشکیل دیں گے تو صوبوں میں بھی پبلک سروس کمیشنوں کی سُنی جائے گی اور وہاں بھی اقربا پروری‘ دوست نوازی‘ تعلقات پرستی اور سفارش کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا۔
وزیراعظم کے دفتر میں بیٹھے افسر شاہی کے نمائندے اس قسم کی کسی بھی تجویز کا سن کر اپنی پیشانیوں پر لکیروں کے جال پھیلا لیں گے۔ وزیراعظم نے یہ بنیادی معرکہ سر کر لیا تو قوم کا اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ انہیں آفرین کہے گا۔ ورنہ یگانہ چنگیزی تو کہہ ہی چکا ہے ؎
شش جہت میں ہے ترے جلوۂ بے فیض کی دھوم
کان مجرم ہیں مگر آنکھ گنہگار نہیں